پاکستان کے ممتاز شاعر عابد حسین عابد کے گھر ڈاکا پڑا تو ملک بھر کے رائیٹرز، ادیب اور صحافیوں نے دل پہ ہاتھ رکھ لیے کہ اک ستم اور مری جاں ابھی جاں باقی ہے۔ ہم سب کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ قانون پر عملدرآمد، ایڈمنسٹریشن اور چاک و چوبند محافظ عام طور پر صرف صوبائی دارلحکومتوں تک محدود ہوا کرتے ہیں، وہ بھی خصوصی احکامات کی روشنی میں یا تقرری تبادلے کے خوف سے۔
خانیوال کے مضافات جیسے علاقوں میں بس قانون اتنا ہی چوکس ہوتا ہے جتنا سندھ کے کسی دور دراز غریب علاقے میں۔ ہاں البتہ ایسی ہی کوئی واردات کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے گھر ہو جائے تو بقول شخصے مال مسروقہ دگنا ہو کر واپس آتا ہے۔ جتنی بھی حکومتیں آئیں گئیں، پولیس ریفارمز کی باتیں بھی ہمیشہ ہوگیں، کوششیں بھی ہوگیں لیکن نہ تو تھانوں کے فروخت ہونے کا تاثر زائل ہوا اور نہ پولیس کا طاقتور کے ساتھ مودبانہ اور غریب کے ساتھ متکبرانہ سلوک کی کہانیاں ختم ہوئیں۔
عابد حسین نے بتایا کہ ڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک نہایت با اخلاق اور شاندار شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ چونکہ متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او میرا فائیٹر ہے لہذا آپ فکر نہ کریں ہم چوروں کو جلد از جلد گرفتار کرکے آپ کا سامان برآمد کرلیں گے۔ وہ تو تھانے کا انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے تین دن ایف آئی آر درج نہ ہوسکی اور شہر کی ہوا بند ہونے کی وجہ سے اگلے تین دن تھانے سے ہی کوئی نہیں نکلا ورنہ فائیٹر ایس ایچ او محمود کے لیے ان پکھی واس چور عورتوں کو پکڑنا کونسا مشکل کام تھا اسکے بعد ایک خبر کیمطابق ڈی پی اوخانیوال اسماعیل کھاڑک کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس کا انعقاد میٹنگ روم میں ہوا جس میں مویشی منڈیوں کے منتظمین اور متعلقہ سیکیورٹی اداروں کے افسران نے شرکت کی۔ ڈی پی او اسماعیل کھاڑک نے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہاکہ اس اجلاس کا مقصد مویشی منڈیوں میں امن و امان، سیکیورٹی، ٹریفک کنٹرول اور عوامی سہولیات کو یقینی بنانا ہے۔
انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں مویشی منڈیوں میں عوام اور بیوپاریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ ضلع کی تمام منڈیوں میں سکیورٹی انتظامات کو یقینی بنایا گیا ہے، منڈیوں میں عوام کے جان ومال کی حفاظت کے لیے پولیس ملازمین کی ڈیوٹیاں لگائی گئی ہیں اورٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹریفک پولیس کی مشترکہ ٹیمیں مویشی منڈیوں کے اطراف تعینات رہیں گی تاکہ مویشیوں کو محفوظ اور پرامن ماحول فراہم کیا جا سکے۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ ضلع بھر میں اب چاہے چوری، ڈکیتی کی وارداتیں ہوں یا قتل کی، ڈی پی او صاحب کی اولین ترجیح مویشی منڈیوں میں امن و امان قائم رکھنا ہے۔ چونکہ اب یہ حکم وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے ہے اسی لیے شہر بھر کی پولیس کو منڈیوں کے انتظام و انصرام کے لیے تعینات کردیا گیا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ ہرگز یہ نہیں کہہ سکتیں کہ آپ پورے ضلع کی عوام کے جان و مال کو نظر انداز کرکے سارا زور منڈیوں پر صرف کر دیں۔ یقیناً یہ ڈی پی او خانیوال اسماعیل کھاڑک کی اپنی فرمانبرداری اور ادب ہے کہ انہوں نے اپنے عہدے کی ذمہ داری اور پولیس رولز یا قواعد و ضوابط کے توازن کو فراموش کرکے حق اطاعت ادا کیا ہے۔
عابد حسین عابد جیسے تخلیق کار کا گھر نشانہ بننا یقینا" ایک عام اور روٹین کا واقع ہے یہاں ہر پانچ دس منٹ بعد کوئی نہ کوئی واردات ہو جاتی ہے اور تو اور یہ پکھی واس عورتیں یہیں میاں چنوں میں کتنی وارداتیں کر چکی ہیں لیکن پتہ نہیں ڈی پی او صاحب کا یہ فائیٹر ایس ایچ او کہاں، کس کے ساتھ اور کس لییفا?یٹ کرتا رہتا ہے۔ دیکھا جائے تو قصور فائیٹر کا بھی نہیں کیونکہ رِنگ لیڈر کے حکم پر چلنا اس کی مجبوری ہے اور رِنگ لیڈر کی اولین ترجیح مویشی منڈی میں امن و امان قائم رکھنا ہے حالانکہ انہیں وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی خاطر ہی سہی مگر پورے ضلع کے امن و امان کا خیال رکھنا چاہیے۔ وزیر اعلیٰ ہرگز نہیں چاہیں گی کہ ان کے احکامات کو ایونٹس تک محدود سمجھا جائے۔ ان کے لیے پورے صوبے کا امن و امان اولین ترجیح ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کی درجہ بندی کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے، ڈویڑنل پولیس آفیسرز سے لے کر انسپیکٹر جنرل تک بھی اسی کام کے لیے بیٹھے ہیں۔ خانیوال پولیس کے تفتیشیوں کا شکوہ بھی درست ہے
کہ ہمارے پاس گاڑیاں نہیں، پیٹرول نہیں، جدید آلات نہیں، تربیت نہیں۔ مگر یہی پولیس جب کسی وزیر یا افسر کے اشارے پر حرکت میں آتی ہے تو ہر سہولت میسر ہوتی ہے۔ کیا عام آدمی کی جان و مال کی حفاظت اتنی ہی غیر اہم ہے؟ میں پھر کہتا ہوں کہ شاعر عابد حسین عابد کا کیس کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ روزانہ کسی نہ کسی کے گھر میں ڈاکے پڑتے ہیں، چوریاں ہوتی ہیں، لوٹ مار ہوتی ہے، مگر ان واقعات کی تفتیش تک نہیں ہوتی۔ اگر ہو بھی تو نتیجہ صفر ہوتا ہے۔ مجرم کھلے گھومتے ہیں اور متاثرین انصاف کے انتظار میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ ڈی پی او صاحبان اور ان کے منظور نظر چیتے، چہیتے اور فائیٹر ایس ایچ اوز سارا زور عوام کو گولی دینے اور افسران کو خوش رکھنے میں لگے رہتے ہیں۔
آئی جی پنجاب سے گزارش ہے کہ اس معاملے میں فوری طور پر کارروائی کریں۔ عابد حسین عابد صرف ایک شاعر نہیں، بلکہ ہماری ثقافت کا معمار ہے۔ اگر معاشرے کی اقدار کو رواج دینے والوں کو انصاف نہیں ملے گا، تو عام آدمی کیا کرے گا؟ پنجاب پولیس کو چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات طے کرے۔ اگر وسائل کی کمی ہے تو اسے دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کو بھی اس معاملے میں سنجیدگی دکھانی چاہیے۔ عوام کی حفاظت ریاست کی اولین ذمہ داری ہے اور اگر ریاست اپنے فرائض سے منہ موڑے گی تو پھر باقی کیا رہ جائے گا۔