ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی ایک غیر معمولی بین الاقوامی سفارتی پیش رفت ہے جو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ عالمی امن و استحکام پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ 13 جون 2025 کو شروع ہونے والا یہ کشیدہ فوجی تصادم ایران اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تصادم کی سب سے خطرناک صورت تھا، جس میں دونوں فریقین نے بھرپور عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اسرائیل نے "آپریشن رائزنگ لاین" کے تحت ایران کی نیوکلیئر اور عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا، جب کہ ایران نے بیلسٹک میزائلوں، ڈرون حملوں اور راکٹ فائر کے ذریعے اسرائیل کے کئی شہروں کو ہدف بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں انسانی جانی نقصان، شہری املاک کی تباہی اور خطے میں جنگ کے پھیلاؤ کا شدید خطرہ پیدا ہوگیا۔
ایران کے حملوں میں اسرائیل میں درجنوں افراد زخمی ہوئے اور کئی حساس مقامات کو نقصان پہنچا، جن میں جنوبی اسرائیل میں واقع سوروکا میڈیکل سینٹر بھی شامل تھا۔ ایران میں بھی اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتیں ہوئیں، انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اس تصادم نے بین الاقوامی برادری کو چونکا دیا اور فوری طور پر اقوام متحدہ، یورپی یونین، روس، چین اور خلیجی ریاستوں نے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے دونوں جانب سے شہری علاقوں کو نشانہ بنانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ ایسے میں فوری جنگ بندی ایک عالمی مطالبہ بن گیا۔
اس سنگین صورتِ حال میں قطر، عمان، امریکہ اور یورپی قوتوں نے ثالثی کا عمل تیز کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 23 جون کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان فوری جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے، جس کے تحت ایران 24 جون کو رات 12 بجے (ای ٹی ٹائم) سے حملے بند کرے گا، اسرائیل 12 گھنٹے بعد جوابی کارروائیاں روکے گا اور اس کے مزید 12 گھنٹے بعد مکمل جنگ بندی نافذ سمجھی جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کو تنبیہ کی کہ خلاف ورزی کی صورت میں نتائج کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، وائٹ ہاؤس کے خصوصی ایلچی، نائب صدر اور وزارت دفاع نے اس عمل میں مرکزی کردار ادا کیا۔
ایران نے ابتدائی طور پر براہِ راست امریکی ثالثی سے گریز کرتے ہوئے یورپی یونین اور خلیجی ممالک کے ذریعے پیغام رسانی کو ترجیح دی۔ ایرانی وزیر خارجہ نے جنیوا میں یورپی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات میں اسرائیل کی جارحیت رکوانے کی شرط پر جنگ بندی کے امکان کو تسلیم کیا۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے صدر ٹرمپ کے اعلان کے فوری بعد ایران کے مختلف شہروں میں عوام کے جشن کی خبریں نشر کیں۔ ادھر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہونے ابتدا میں جنگ بندی سے اتفاق کیا، لیکن اسرائیلی وزیر دفاع نے ایران پر فائر بندی کے باوجود میزائل حملے کا الزام عائد کرکے کچھ محدود فضائی کارروائیاں جاری رکھیں۔ ان حملوں کو امریکہ نے بلاجواز قرار دیا اور صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو زور دیا کہ وہ ہوائی مشقیں فوری طور پر روک دے۔
قطر اور عمان نے اس سارے عمل میں خاموش لیکن کلیدی کردار ادا کیا۔ قطر نے امریکہ اور ایران کے درمیان پس پردہ سفارتی چینل کے طور پر کام کیا، جب کہ عمان نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام اور اس پر بین الاقوامی نگرانی سے متعلق تجاویز مرتب کرکے پیش کیں۔ عمان کی تجویز میں ایران کی نیوکلیئر سرگرمیوں پر انٹرنیشنل ایٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کی مکمل نگرانی، نیوکلیئر پروگرام میں شفافیت اور بدلے میں عالمی پابندیوں میں نرمی شامل تھی۔
اس جنگ بندی کے عملی نفاذ میں کئی پیچیدگیاں سامنے آئیں۔ فائر بندی کے بعد اسرائیل نے دوبارہ ایران پر خلاف ورزی کا الزام عائد کیا اور تہران کے قریب ایک ریڈار تنصیب پر حملہ کیا۔ ایران نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے کسی قسم کی فائر بندی کی خلاف ورزی نہیں کی۔ صدر ٹرمپ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے شاید انجانے میں خلاف ورزی کی ہو، لیکن اب مزید کشیدگی کی کوئی گنجائش نہیں۔ عالمی منڈیوں نے بھی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا اور سونے کی قیمت میں تیزی سے کمی دیکھی گئی۔ پاکستان میں فی تولہ سونا 3,800 روپے سستا ہوگیا، جب کہ عالمی مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت میں 39 ڈالر کی کمی آئی۔
بین الاقوامی سطح پر اس جنگ بندی کا خیر مقدم کیا گیا۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، چین، روس، سعودی عرب اور ترکی سمیت بیشتر ممالک نے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔ ایران اور اسرائیل دونوں پر زور دیا گیا کہ وہ اس جنگ بندی کو مستقل امن کی طرف پہلا قدم بنائیں اور کسی بھی ممکنہ اشتعال انگیزی سے اجتناب کریں۔ خلیجی ریاستوں نے واضح کیا کہ وہ مستقبل میں نیوکلیئر مذاکرات کی میزبانی کرنے کے لیے تیار ہیں اور عمان نے اپنی تجویز کو اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے سامنے رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔
آج کی صورتحال کے مطابق، جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے۔ دونوں فریقین کسی بھی کھلے عسکری تصادم سے گریز کر رہے ہیں، تاہم اعتماد کی فضا کمزور ہے۔ اسرائیل محدود فضائی نگرانی جاری رکھے ہوئے ہے اور ایران اپنی دفاعی تنصیبات کو الرٹ پر رکھے ہوئے ہے۔ سفارتی کوششیں جاری ہیں تاکہ جنگ بندی کو باقاعدہ امن معاہدے میں تبدیل کیا جا سکے۔ قطر، عمان اور یورپی یونین اس عمل میں سہولت کار کے طور پر موجود ہیں۔
مستقبل کے امکانات کے حوالے سے، اس جنگ بندی کو ایک عارضی مہلت تصور کیا جا رہا ہے۔ اگر نیوکلیئر پروگرام اور پابندیوں پر جامع مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو گئے، تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی سیاسی و سفارتی صف بندی ممکن ہے۔ تاہم اگر فریقین کے درمیان دوبارہ بداعتمادی یا الزام تراشی شروع ہوئی تو یہ جنگ بندی عارضی ثابت ہو سکتی ہے۔
لہذا ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی ایک پیچیدہ لیکن امید افزا سفارتی کامیابی ہے۔ اس میں امریکہ کا کلیدی کردار، قطر و عمان کی ثالثی، ایران و اسرائیل کی وقتی رضامندی اور عالمی برادری کا اجتماعی دباؤ بنیادی عناصر کے طور پر شامل رہے۔ اس معاہدے کی کامیابی کا انحصار دونوں فریقین کی نیت، علاقائی طاقتوں کے کردار اور عالمی سفارت کاری کی سنجیدگی پر ہے۔ اگر یہ کوششیں جاری رہیں تو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا ایک بڑے تصادم سے بچ سکتی ہے۔