دنیا اس وقت ایک ایسے ہمہ گیر اور ہمہ جہت بحران کا سامنا کر رہی ہے جس کے اثرات زمین کے ہر ذرے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو پر مرتب ہو رہے ہیں۔ یہ بحران ماحولیاتی تبدیلی کا ہے، جو اب محض ایک سائنسی یا ماحولیاتی مسئلہ نہیں رہا، بلکہ انسانی تہذیب، معیشت، خوراک، صحت اور سلامتی کے لیے ایک ہمہ وقت خطرہ بن چکا ہے۔
2025 تک آتے آتے موسمیاتی تغیرات کی شدت اور بے ترتیبی اب محض سائنسی مشاہدات کا موضوع نہیں بلکہ زندگی کی حقیقت بن چکی ہے۔ حالیہ مہینوں میں دنیا کے کئی خطوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر چکا ہے، جن میں امریکہ، اسپین، سعودی عرب، بھارت اور پاکستان نمایاں ہیں۔ ہیٹ ویوز، خشک سالی، پانی کی قلت اور جنگلاتی آگ جیسے مظاہر اب معمول کی خبریں بن چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پینل (IPCC) کی رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر فوری قابو نہ پایا گیا تو 2100 تک زمین کا اوسط درجہ حرارت 3 ڈگری سیلسیئس بڑھ سکتا ہے، جو کرۂ ارض کے حیاتیاتی اور ماحولیاتی نظام کے لیے تباہ کن ہوگا۔
ماحولیاتی بحران کا سب سے بڑا سبب انسانی سرگرمیاں ہیں، جنہوں نے قدرتی توازن کو بگاڑ کر زمین کو بے یقینی کے بھنور میں دھکیل دیا ہے۔ صنعتی اخراجات، غیر منصوبہ بند شہری ترقی، جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور فوسل فیولز پر انحصار نے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کی سطح خطرناک حد تک بڑھا دی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ صدی میں عالمی درجہ حرارت میں تقریباً 1.2 ڈگری سیلسیئس کا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ رجحان مزید تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں، حالانکہ کاربن اخراج میں اس کا حصہ صرف 0.8 فیصد ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور فصلیں تباہ ہوئیں۔ 2025 میں صورتِ حال مزید بگڑ چکی ہے۔ پانی کی شدید قلت، غیر متوقع بارشیں، زراعت میں نقصانات اور شہری علاقوں میں مسلسل ہیٹ ویو ملک کے ماحولیاتی مستقبل پر سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ تربیلا اور منگلا جیسے بڑے آبی ذخائر خطرناک حد تک خشک ہو چکے ہیں جبکہ کراچی جیسے ساحلی شہر میں سمندری سطح زمین کو نگلتی جا رہی ہے، جس سے ماحولیاتی ہجرت جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
یہ بحران صرف قدرتی ماحول تک محدود نہیں رہا، بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی، پانی کی کمیابی، موسمی وباؤں میں اضافہ، شہروں میں درجہ حرارت کا غیر معمولی بڑھاؤ اور ماحولیاتی پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، یہ سب وہ عوامل ہیں جو انسانی بقا کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے اس ضمن میں چند مثبت اقدامات ضرور کیے ہیں۔ "ٹین بلین ٹری سونامی"، "کلین اینڈ گرین پاکستان"، "الیکٹرک وہیکل پالیسی" اور حالیہ "کلائمیٹ ایکشن بل 2025" ان کوششوں کا مظہر ہیں۔ حکومت نے 2030 تک گرین ہاؤس گیسوں میں 50 فیصد کمی کا ہدف بھی مقرر کیا ہے، جو بظاہر حوصلہ افزا ہے، تاہم اس ہدف کے حصول میں مالی وسائل کی کمی، پالیسی پر عملدرآمد کی سست روی، سیاسی عدم تسلسل اور عوامی شعور کی کمی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پالیسی سازوں کو اب منصوبوں کے صرف اعلان پر اکتفا کرنے کے بجائے، ان پر عملدرآمد کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔
ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے میں سائنسی تعلیم اور عوامی شعور کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں ماحولیاتی سائنس کو لازمی مضمون کے طور پر شامل کیا جانا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اس بحران کی گہرائی کو سمجھے اور حل کا حصہ بنے۔ میڈیا، سماجی اداروں اور مذہبی رہنماؤں کو بھی عوامی آگاہی مہمات میں شامل کرنا ہوگا تاکہ ماحولیاتی شعور معاشرے کے ہر فرد تک پہنچے۔
فرد کی سطح پر بھی کئی ایسے اقدامات ممکن ہیں جو مجموعی اثر ڈال سکتے ہیں۔ پلاسٹک کے استعمال میں کمی، پانی اور توانائی کی بچت، مقامی مصنوعات کا فروغ، درختوں کی شجرکاری، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا اور زراعت میں ڈرپ ایریگیشن جیسے جدید طریقوں کا اطلاق یہ سب اقدامات نہ صرف ماحولیاتی بہتری میں معاون ہو سکتے ہیں بلکہ ایک پائیدار طرزِ زندگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔
عالمی سطح پر بھی ترقی یافتہ اقوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماحولیاتی انصاف کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کی مالی و تکنیکی مدد کریں۔ COP30 میں کیے گئے وعدوں کو محض بیانیے تک محدود رکھنے کے بجائے عملی جامہ پہنانا وقت کا تقاضا ہے۔ موسمیاتی انصاف کا مطلب صرف امداد دینا نہیں، بلکہ ایک مشترکہ عالمی ذمہ داری کا نبھانا ہے۔
یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ زمین ایک خاموش پیغام دے رہی ہے اگر ہم نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں، تو آنے والی نسلیں نہ صرف ہماری نااہلی کا بوجھ اٹھائیں گی، بلکہ ہمیں تاریخ کے صفحات میں ایک مجرمانہ بے حسی کی مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سچائی کو تسلیم کیا جائے، سائنسی فہم کو عام کیا جائے اور اجتماعی عمل کے ذریعے زمین کو ایک محفوظ، سرسبز اور پائیدار خطہ بنایا جائے۔