Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Mansoor Noorani/
  3. Lo Bhai, Ab Kashtiyan Bhi Jalaa Di Gayeen

Lo Bhai, Ab Kashtiyan Bhi Jalaa Di Gayeen

جب حکمرانوں کی طرف سے یہ کہا جائے کہ جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں ہے اورملکی خزانہ خالی ہے۔ ہم نے بڑی مشکل سے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے اورساتھ ہی ساتھ لاہور میں دریائے راوی کے کنارے پچاس ہزار ارب روپے سے نیاشہر آباد کرنے کا پروجیکٹ کااعلان بھی کردیاجائے تو ایسی خبریں ہمیں خواب وخیال لگتی ہیں۔

جب سعودی عرب کو ایک ارب ڈالر واپس کرنے کے لیے ہمیں اپنے کسی اوردوست ملک سے ادھار لیناپڑجائے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کے لیے ہم اپنے خزانوں سے پیسہ خرچ کرپائیں گے۔ ہم ابھی تک اس کے مقابلے کاایک بہت ہی چھوٹااورمعمولی پروجیکٹ بی آرٹی بھی مکمل نہیں کرپائے ہیں توراوی کے کنارے اتنابڑا شہر کیسے آباد کرپائیں گے۔

یہ محض عوام کوبلاوجہ خوش کرنے کے مترادف ہے کہ دیکھیں ہماری حکومت نے بڑے بڑے پروجیکٹ شروع کردیے ہیں اورکوئی یہ نہ کہہ سکے کہ موجودہ حکومت نے ابھی تک ایک پروجیکٹ بھی میاں نوازشریف کی طرز پر نہیں بنایاہے۔ سوارب روپے کے بی آرٹی پشاور کا جوحال ہواہے کہیں ایسانہ ہوکہ یہ شہر بھی پچاس ہزار ارب کے بجائے دوسو ہزار ارب روپے تک پہنچ کر بھی مکمل نہ ہوپائے۔

لاہور میٹرو بس پر وزیراعظم صاحب کا سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ 27ارب روپے میں بننے والا یہ پروجیکٹ بہت مہنگاہے اور اس میں بڑی کرپشن کی گئی ہے۔ وہ بھارت اور بنگلہ دیش کی مثالیں دے دیکر قوم کویہ بتایاکرتے تھے کہ وہاں اسی قسم کاپروجیکٹ بہت ہی کم لاگت میں تیار ہوچکے ہیں، مگر جب خود کی باری آئی اورپشاور میٹروبس سروس کامنصوبہ بنایاگیا تو ساری قابلیت اور حقیقت کھل کرعیاں ہوگئی۔ لاہور، اسلام آباد اور ملتان کی تینوں میٹروزتیار ہوگئیں لیکن یہ ایک شہر پشاور کامنصوبہ سوارب روپے خرچ کرکے بھی پانچ سالوں میں تیار نہیں ہوپایاہے۔

یہ سچ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے لیے کچھ کرناچاہتے ہیں۔ لیکن یہ اُس وقت تک درست تھا جب تک وہ روایتی سیاست کے طریقوں سے خود کو بچاتے ہوئے تحریک انصاف کو ایک منفرد اور حق و صداقت کی دعویدار جماعت بنانے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ مگر 2011ء میں جب سے انھوں نے تحریک انصاف کے تمام رہنمااصولوں کابالائے طاق رکھ کرعام سیاست کو اپنایا ہے، انتخابی مصلحتوں کو اپنا مقصد اورمحور بناکروہ سارے کام کرڈالے جن کی وہ سختی سے مذمت اور مخالفت کیاکرتے تھے۔ وہ دوسال کی اپنی ساری ناکامیوں کو سابقہ حکمرانوں کے پلڑے میں ڈال کریہ سمجھ رہے ہیں کہ عوام اُن کے ان باتوں کواب بھی آنکھیں بندکرکے یقین کرلیں گے۔ راوی منصوبے کا افتتاح کرتے ہوئے انھوں نے ارشاد فرمایاہے کہ ہم نے اب اپنی کشتیاں جلادی ہیں۔

یعنی واپسی کاکوئی راستہ نہیں ہے ہمارے پاس اب صرف دوآپشن ہی رہ گئے ہیں کہ آگے بڑھکر کوئی کارکردگی دکھائیں یا پھر ڈوبنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ ہمارے ایک دوست صحافی مظہر عباس نے اُن کی اس بات پربہت خوبصورت تبصرہ کیاہے کہ دوسال بعد جب آپ اب گہرے سمندر میں پہنچ چکے ہیں اور ایسے میں کشتیاں جلانے سے تو صرف ڈوبناہی مقدر ہوسکتا ہے۔ لوگ سفر شروع کرنے سے پہلے کشتیاں جلایاکرتے تھے۔

ان دوسالوں میں انھوں نے ابھی تک صرف غیرذمے دارانہ بیانات ہی دیے ہیں۔ جنھیں سن کر ہمارے کانوں کویقین نہ آرہاہوتاہے کہ یہ وہی خان صاحب ہیں جو الیکشن جیتنے سے پہلے کیسی کیسی خوددارانہ اورعزم وحوصلے سے بھرپورباتیں کیاکرتے تھے۔ آج اُس کے بالکل برعکس ہی باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسال ہوچکے لیکن این آراورنہ دینے کا اُن کا ورد ابھی تک اُسی طرح چل رہا ہے۔ کوئی اُن سے این آراو مانگ بھی نہیں رہااوروہ صبح وشام یہ گردان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف سے متعلق بل کے پاس کرنے پربھی وہ یہی دعویٰ کررہے تھے کہ اپوزشن دو سال سے روڑے اٹکاتی رہی ہے۔

اُس نے اس بل کو پاس کرنے کے لیے بھی ہم سے این آراومانگاتھا۔ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ باوجود بڑی کوششوں کے خان صاحب ابھی تک کسی بڑے ملزم کوسزا نہیں دلواسکے۔ مگردعویٰ ہے کہ میں کسی کواین آراونہیں دونگا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اگلے تین برس بھی یہی کہتے گذارلینگے اورآخر میں قوم سے معذرت کرتے ہوئے پتلی گلی سے نکل جائیں گے کہ میں نے تو بہت کوشش کی لیکن اپوزیشن نے مجھے کام کرنے نہیں دیا۔

ایف ٹی اے ایف کی جانب سے ہمارے ملک کوگرے لسٹ میں رکھوانے کا الزام بھی وہ سابقہ حکمرانوں کے سرتھوپتے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ گرے لسٹ کامعاملہ دہشت گردوں کی مالی اعانت اورامداد کرنے سے جڑاہواہے اورہمارے یہاں یہ کام کون لوگ کرتے رہے ہیں یہ کسی سے ڈھکاچھپابھی نہیں ہے۔ لیکن صرف الزام تراشی اور ہرزہ سرائی پر کھڑی ساری سیاست کی یہ مجبوری ہے کہ وہ ہربات کاالزام سابقہ حکمرانوں کے سرتھوپ دیاکرے۔

انھیں اگر حالات ویسے ہی ملتے جیسے 2013ء میں میاں نواز شریف کو ملے تھے پھر ہم دیکھتے خان صاحب کس طرح دہشت گردوں سے نبردآزماہوتے۔ انھیں توکراچی شہر سے قومی اسمبلی کی 14نشستیں توکیاایک بھی نہیں مل پاتی اگر ایم کیوایم پہلے کی طرح وہاں فعال ہوتی۔ انھیں تو میاں صاحب کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ کراچی کوامن کاگہورہ بناکرایسے حالات پیداکردیے کہ وہ چودہ نشستیں حاصل کرپائے ورنہ ان چودہ نشستوں کے بغیر تووہ حکومت کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

دوسال بیت چکے ہیں۔ خان صاحب کے بقول اگرانھوں نے واقعی اپنی کشتیاں جلاکررکھ دی ہیں توپھر اب کوئی کارکردگی دکھانی ہوگی۔ حیلے بہانوں اوردوسروں پرالزام تراشیوں سے کام نہیں چلے گا، عوام کوریلیف دیناہوگا۔ اشیائے ضروریہ کے جن چیزوں کے نرخ دوسالوں میں ڈبل کردیے گئے ہیں، انھیں واپس نہیں توکم کرناہوگا۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جن کے آگے آپ بالکل بے بس اوربے اختیار ہیں۔

آٹا، چاول، چینی، پیٹرول اور گیس وبجلی سبھی کے نرخ آپ کے ان دوسالوں میں تمام سابقہ ریکارڈ توڑ چکے ہیں اورآپ کو احساس ہی نہیں ہورہا۔ آپ بس تحقیقات کاڈول ڈالکر عوام کو تسلی دینے کی پالیسیوں میں مصروف ہیں۔ جن لوگوں سے آپ نے لوٹاہواپیسہ واپس لینا تھااُن کاتو کچھ بگاڑ نہیں سکے لیکن عوام الناس کی حالت آپ نے ضرور بگاڑ کررکھ دی ہے۔ ذراباہر نکل کر دیکھیں عوام کس مشکل میں گھری ہوئی ہے۔ روزگار کے مواقعے بڑھنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پرکم ہوتے جارہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ملک قرضوں میں مزید گھرتا جارہا ہے۔ یہ کسی ترقی اورخوشحالی ہے کہ عوام کرب وابتلا کرگرفتار ہیں۔ خدارا، تحریک انصاف کی حکومت اپنے طرزعمل کودرست کرے، کشتیاں توآپ نے جلادیں ہیں، کہیں ایسانہ ہوکہ یہ ملک اوریہ قوم حکومت کی غلطیوں اورکوتاہیوں کے سبب خطرات میں گھر جائے۔