Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Ashfaq Ahmad Virk/
  3. Waba Ke Dino Mein Tarbiat e Aulad

Waba Ke Dino Mein Tarbiat e Aulad

ہم مغربی دنیا سے اس قدر مرعوب ہیں کہ کرونا جیسے موذی مرض میں بھی مجال ہے جو ہمارا دھیان کولمبین ناولسٹ گبریل گارشیا مارکیز کے سپینش زبان میں لکھے ناول وبا کے دنوں میں محبت، (Love in the Time of Cholera) سے ایک انچ بھی اِدھر اُدھر ہوا ہو۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہماری پسند، ہمارا کریز، ہمارا کرش، حتّیٰ کہ ہمارا فیشن بھی ملکی سرحد کے باہر جا کے شروع ہوتا ہے۔ مغرب سے نظریں ہٹیں تو تھوڑی بہت توجہ راجندر سنگھ بیدی کے افسانے کورنٹین، پہ مرکوز ہو گئی۔ ہم اگر تھوڑا سا بھی تأمل کرتے تو وَبا، لاک ڈاؤن، قرنطینہ کے حوالے سے جیسا خوبصورت اور مفید ناول ہمارے ڈپٹی نذیر احمد کا "توبۃ النصوح" ہے، شاید ہی کوئی اور ادب پارہ اس کی برابری کرے لیکن ہمارے ہاں ایک بدبخت طبقہ ایسا ہے کہ اسے ہمارے جس ادب پارے میں بھی اصلاح، فلاح یا مذہب کا کوئی پہلو دکھائی دے جائے وہ اسے اپنی لبرل تنقیدی چمٹی سے پکڑ کے تیسرے درجے کے خانے میں رکھ آتا ہے۔ مسٹر چپس جیسی گھسی پٹی کہانی کئی دہائیوں تک ہمارے لازمی نصاب کا حصہ رہی، کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی، جیسے ہی اس کی جگہ سیرتِ نبویؐ کا کوئی گوشہ شامل کرنے کی بات ہوئی عیار لوگ ٹکے ٹکے کی بولیاں بولنے لگے۔ یہی سلوک ہم نے ڈپٹی نذیر احمد کے ساتھ بھی کیا۔

ڈپٹی نذیر احمد جو بلاشبہ اُردو کے پہلے ناول نگار ہیں۔ ویسے تو کسی شعبے میں بارش کا پہلا قطرہ ہونا ہی حد درجے کی تکریم و تعظیم کے لیے کافی ہوتا ہے اور پھر مولوی صاحب کی تو ہر تحریر ہی اپنے عہد کے چیختے، چنگھاڑتے تقاضوں کو مدِنظر رکھ کر لکھی گئی ہے، وہ بھی دلی کی ٹکسالی و بامحاورہ زبان، شگفتہ اسلوب اور اچھوتے تخیلات کے تناظر میں۔ ذرا تصور تو کیجیے کہ آج سے تقریباً دو سو سال قبل ضلع بجنور کے ایک چھوٹے سے گاؤں ریہڑ سے حصولِ علم کے ہڑک میں دلی کی جامعہ مسجد کی صفوں میں، اینٹ کا تکیہ بنا کے سونے اور لوگوں کے گھروں سے روٹیاں مانگ کے اپنا مشن جاری رکھنے والا کا ایک چھے سات سال کا بالک، جو دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کالج کے ریاضی اور فلسفہ جیسے جدید علوم بھی بیٹھے بٹھائے سڑک گیا اور دلی جیسے علمی مرکز میں عربی کا سب سے بڑا عالَم قرار پایا۔

یہ وہی ڈپٹی نذیر احمد ہیں، جنھوں نے انگریزوں کی تعلیمِ نسواں اور سرسید کی اصلاحی ادب کی تحریک سے یکساں طور پر متاثر ہو کر ۱۸۶۹ء میں مراۃ العروس، اور ۱۸۷۲ء میں بنات النعش، جیسے دو کثیر المقاصد ناول لکھے۔ یہ دونوں ناول ایسے مقبول ہوئے کہ ایک زمانے تک برِ صغیر بھر کا با شعور طبقہ اپنی بیٹیوں کو جہیز میں دیتا رہا، کیونکہ اس سے قبل ہمارے ہاں ایسا مفید اور مخلص ادب موجود نہ تھا۔

ویسے تو ہمارے اس موقر مصنف کی تمام تحریریں، جن میں فسانۂ مبتلا(۱۸۸۴ئ) محصنات (۱۸۸۵ئ) ابن الوقت (۱۸۸۸ئ) ایامیٰ (۱۸۹۱ئ) رویائے صادقہ (۱۸۹۳ئ) ترجمۃ القرآن (۱۸۹۵ئ) تعزیراتِ ہند (ترجمہ) ہی اپنے اپنے موضوعات کے اعتبار سے نہایت مؤثر ہیں، جن کی بنا پر انھیں ۱۸۹۷ء میں حکومتِ ہند کی طرف سے شمس العلما، کا خطاب ملا اور ۱۹۰۲ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی ڈگری عطا کی لیکن ہماری موجودہ صورتِ حال کے حوالے سے ان کا 1873ء میں تصنیف کردہ ناول "توبۃ النصوح" تو ناقابلِ یقین حد تک اہم ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کے لیے کہ جن کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ وبا کے ان فارغ دنوں میں کیا کریں؟

آج سے ڈیڑھ صدی قبل لکھے گئے اس ناول کی کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ دلّی میں ہیضے کی وبا اس انداز سے پھیلی کہ چاروں جانب موت منڈلاتی نظر آنے لگی۔ ایک گھر کا سربراہ نصوح بھی اسی موذی مرض میں مبتلا ہو گیا، جس کا باپ اسی مرض سے فوت ہو چکا ہے۔ بیماری اور خوف کی حالت میں اسے نیند آ جاتی ہے اور وہ داورِ محشر کے حضور اپنے باپ کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا دیکھتا ہے۔ معاشرے میں باعزت مقام رکھنے والے والد کے گناہوں کی فہرست میں بے دینی، ناشکری، تکبر، حسد، طمع اور تربیتِ اولاد کی جانب سے لاپرواہی جیسے گناہ دیکھ کے پریشان ہو جاتا ہے۔ نتیجۃً آنکھ کھلنے پر وہی جابر اور سخت گیر باپ، ایک خدا ترس فرد میں تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیوی فہمیدہ کو اپنا ہم راز بناتا ہے اور اپنے تین بیٹوں سلیم، علیم، کلیم، بیٹیوں حمیدہ اور نعیمہ کی مصروفیات اور ترجیحات کا خاموشی سے جائزہ لینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ تحقیق و تفتیش کے بعد پتہ چلتا ہے کہ بڑی بیٹی نعیمہ جو دو سال قبل بیاہی جا چکی تھی اور پانچ ماہ کا بچہ جس کی گود میں تھا، اپنی خود سری کی بنا پر سسرال سے لڑ جھگڑ کے میکے میں بیٹھی ہے اور یہاں بھی آئے دن اس کے ہاتھوں کسی نہ کسی کی شامت آئی ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ بعض معاملات میں وہ اپنی ماں کو بھی آڑے ہاتھوں لیتی ہے۔

اسی طرح چھوٹے دونوں بیٹوں کی زبانی معلوم ہوا کہ بڑے بھائی جان گھر کے ہر کام میں دخیل ہیں۔ رات گئے تک بے تکلف دوستوں کے ساتھ تاش کی بازیوں پر وہ دھما چوکڑی مچتی ہے کہ الامان! بڑے بھائی نہ صرف چھوٹے بھائیوں کی تعلیم میں حارج ہیں بلکہ ماں کو بھی کچھ نہیں سمجھتے اور باپ کے دماغ میں تو برملا خلل بتاتے ہیں۔ پوچھ گچھ کے لیے جب وہ باپ کے طلب کرنے پر بھی نہیں آتا تو باپ کا ماتھا ٹھنکتا ہے۔ ایک دن غیر موجودگی میں اس کے کمرے کی تلاشی لی جاتی ہے تو فضول لٹریچر، فحش تصاویر اور دیگر فضولیات کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ جب ان خرافات کو جلا کر اسے راہِ راست پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ گھر چھوڑ کے اپنے دوست مرزا ظاہر دار بیگ کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ وہاں سے مایوس ہو کر گھر پلٹنے کی بجائے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھنو میں جا کے پولیس میں بھرتی ہو جاتا ہے، جہاں ٹھاکروں کے ساتھ لڑائی میں شدید زخمی ہو جاتا ہے اور بعد ازاں انھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیتا ہے۔

مرزا ظاہر دار بیگ نہ صرف ڈپٹی نذیر احمد بلکہ اردو ناولوں کا ایک جاندار کردار ہے۔ ہمارا معاشرہ ایسے بناوٹی اور ظاہر باطن سے متضاد کرداروں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ ناول ہمیں شدید احساس دلاتا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد کی تربیت کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں کہ جب موبائل، انٹرنیٹ، یو ٹیوب وغیرہ کی موجودگی میں نئی نسل کے پاس خرافات کے مواقع اور اسباب ڈپٹی نذیر احمد کے زمانے کی نسبت ہزار گنا زیادہ ہیں، اس ناول کی اہمیت و افادیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

آخری بات یہ کہ تربیتِ اولاد، مجموعی اخلاقیات اور دینی شعور کی غرض سے ڈیڑھ صدی قبل لکھا گیایہ ناول ہمارے ایک سچے دانشور کی دُور اندیشی، اخلاص اور حُبِ انسانیت کا منھ بولتا ثبوت ہے۔ اسی دانش کا نتیجہ ہے کہ آج بھی یہ فن پارہ روزِ اول کی مانند اہم اور مؤثرہے۔ زندہ و تابندہ ادب انھی خصوصیات کا حامل ہوتا ہے؟ (تین مئی ۲۰۲۱ء، جب یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے، اس عالمِ بے بدل کی ۱۰۹ ویں برسی بھی ہے۔)