Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Ashfaq Ahmad Virk/
  3. Madina Ki Riyasat Ke Liye Kon Kon Tayyar?

Madina Ki Riyasat Ke Liye Kon Kon Tayyar?

کثرتِ زر کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ یہ سچائیوں اور اچھائیوں پہ اسی طرح غالب آ جاتی ہے، جس طرح بقول شیخ سعدی لہسن کی بُو، مُشک و عنبر کو ڈھانپ لیتی ہے اور ڈھول کی آواز بربط کے سازوں کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہی ہوا کہ کئی دہائیوں سے اقتدار سے چمٹی جونکوں کو جب گندے خون (حرام مال) کی رسد بند ہوئی۔ لوگوں نے ان کی کرپشن کی گجب کہانی، سے تنگ آ کر کسی نئی پارٹی کو منتخب کرنا چاہا تو انھوں نے اسی وافر دولت کو پہلے تو اپنے غلیظ تجربے اور بُوٹ چاٹ اشرافیہ کے بل بوتے پر بھاری مینڈیٹ کو چرکا لگایا، اوپر سے شور مچا دیا کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ حالانکہ کپتان کو تو ابھی ڈھنگ سے الیکشن لڑنا نہیں آیا تھا، دھاندلی کا خیال تو ملکی خزانے کو اچھی خاصی سیندھ لگا لینے کے بعد آتا ہے۔ اس کے بعد دیکھ لیجیے کہ نئی حکومت نے ابھی پوری طرح آنکھ بھی نہیں کھولی تھی کہ انھوں نے اقتدار کے دوبارہ حصول یا نئی حکومت کو ڈلیور کرنے سے روکنے کے لیے ہر ممکنہ حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔

سب سے پیشتر اپنی ہم نوالہ، ہم پیالہ صحافتی اور سوشل میڈیا کی جونکوں کو ہی ایجنڈا دیا گیا کہ کپتان جو بھی بات کرے، جو بھی نعرہ لگائے، قوم سے جو بھی وعدہ کرے، اس کا قدم قدم مذاق اڑایا جائے۔ کوئی منصوبہ شروع کرے تو بری بیوروکریسی اسے غلط اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں الجھا دے۔ غرض یہ کہ جس جس شعبے میں بھی دُم ہلاؤ طبقہ موجود ہے، وہ نمک حلالی، کے لیے بر سرِ پیکار ہو جائے۔ پورے ملک نے دیکھا کہ کپتان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تو سابق حکمرانوں کے ہم نوالہ ہم پیالہ صحافی حلف کے دوسرے دن ہی پوچھنے لگے کہ تبدیلی کدھر ہے؟ ہمارے ہاتھ پہ رکھ کے دکھاؤ، ہوسکے تو جیب میں ڈال دو، تھوڑی سی گھر کے لیے بھی پیک کر دو? وزیرِ اعظم نے احتساب کا قصد کیا، لٹیروں کو جیل کا رستہ دکھایا تو ضمانتوں کی سیل لگ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اپوزیشن کا ہر لٹیر ا امانت چن کا بھائی ضمانت چن، بن کے دندنانے لگا۔

قوم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ گھبرانا نہیں، تو بندے بندے سے اس کا مذاق اڑوایا گیا۔ کپتان نے قومی غاصبوں کو این آر او نہ دینے کی بات کی تو جا بجا کہا جانے لگا، اب چھوڑیں بھی، کب تک گڑھے مُردے اکھاڑے چلے جائیں گے۔ مہنگائی کا اتنا شور مچایا گیا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ برِ صغیر کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں۔

ہمارا البیلا مزاح نگار ابنِ انشا، ایوب خاں کے دور میں ٹھٹھہ اڑا رہا ہے کہ:"پہلے پہل آسمان اتنے اونچے نہیں ہوتے تھے، جیسے جیسے چیزوں کی قیمتیں بڑھتی گئیں، ان سے باتیں کرنے کے لیے آسمانوں کو اوپر جانا پڑا۔"سب سے بڑے عوامی لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھٹو کی تقریریں یو ٹیوب پہ موجود ہیں، جن میں وہ روز افزوں مہنگائی کی وضاحتیں دے دے کے پھاوا ہوئے جا رہے۔ پھر آپ زرداری اور شریف برادران کے دورِ حکومت میں کسی ایک دن کا اخبار تو ڈھونڈ کے لے آئیے، جس میں یہی رونا موجود نہ ہو لیکن بیانیہ سارا عمران حکومت کے گرد کس دیا گیا۔

سب سے بڑا دکھ اس بات کا ہے کہ اس اللہ کے بندے نے خلوصِ دل اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ اسلام کے نام پہ وجود میں آئے اس ملک کو ریاستِ مدینہ بنانے کی بات کی، تو اس پر ہم نے طعنے، مہنے مار مار کے اس کا جینا حرام کر دیا۔ جس کی ماچس گیلی نکل آئے، جس کا بچہ سکول سے بھاگ جائے، جس کی بیوی شلوار میں نالہ نہ ڈال کے دے، وہ سڑک پہ آ کے کھڑا ہو جاتا ہے، اور عمران حکومت ہی میں خریدے جانے والے موبائل کا کیمرا آن کر کے حکومت کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے اور منھ سے جھاگ برآمد کرتے ہوئے کہتا ہے:"ایسی ہوتی ہے مدینہ کی ریاست؟

"اس سلسلے میں پوچھنا یہ تھا کہ ذرا اپنے اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھیے کہ ہم نے اس مقدس ریاست کا ساتھ دینے کے لیے حکومت پہ غرانے کے علاوہ خود کیا کیا ہے؟ اپنے اپنے دور میں اسلام کے نام پہ ووٹ لینے والی سیاسی پارٹیوں نے اس معاملے میں کچھ بھی تعاون کیا؟ چلیں نون غنوں اور پ پُنوں کو بھی چھوڑیں، بات بات پہ اسلام کا نام لینے والی جماعت اسلامی کو کیا ہوا؟ ریاستِ مدینہ کی بات کرنے والی حکومت کے خلاف بیان دے دے کے اپنے بھاء سراج الحق کا گلا بیٹھ گیا۔ اپنے بیانیے میں وہ برابر نواز، زرداری، فضل الرحمن کے کندھے سے کندھا ملا کے کھڑے نظر آئے۔ انھیں سوچنا پڑے گا کہ اگلے الیکشن میں وہ کون سے اسلام کا نعرہ لے کے عوام کے پاس جائیں گے؟

آخری بات یہ کہ اللہ کا شکر ادا کریں کہ ابھی تک ریاستِ مدینہ وجود میں نہیں آئی? ورنہ جس ریاست میں رسول اللہﷺ نے فرمایا ہو کہ اگر میری بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا، وہاں آج کی جھانسے کی رانیوں کے ہاتھوں کے ساتھ زبانیں بھی ضرور کٹتیں۔ ?نظامِ حکومت کے معاملات، انصاف کے گھپلوں اور بیت المال میں خُرد بُرد کرنے پر ایک ایک مقتدر اور زعیم سنگسار ہوتا? ملاوٹ کرنے والے کو بحرالکاہل اور دین کے نام پہ دھوکا دینے والے فرقہ بازوں کو بحرالجاہل میں پھینک دیا جاتا?جس طرح کے ہمارے اعمال ہیں، یہاں سڑکوں کے کنارے کٹے ہاتھوں اور تراشی گردنوں کے ڈھیر لگ جاتے، چوکوں چوراہوں پہ مستقل استادہ پھانسیاں اتوار کی چھٹی کی تمنا کرتیں ? حضور! اعتراض ضرور کیجیے لیکن پہلے ذرا ریاستِ مدینہ کے قیام و استحکام میں رکاوٹ ڈالنے والے منافقوں اور وعدہ خلافوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے قرآنی احکام پہ نظر ڈال کر اپنے اپنے گریبانوں میں بھی جھانک لیں!