Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Ashfaq Ahmad Virk/
  3. Oothan Wale Tur Jaan Ge

Oothan Wale Tur Jaan Ge

ہم نے شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایسے عالَم میں آنکھ کھولی جسے بلا جبر و اِکراہ تو کسی صورت نہیں کہا جا سکتا۔ ایک بڑی مجبوری یہ کہ پیدا ہوتے ہی ہمیں ’چھوٹے بھائی، کے درجے پر فائز کر دیا گیا۔ قصور ہمارا صرف اتنا تھا کہ ہم نے پیدا ہونے میں ذرا سی سُستی سے کام لیا تھا۔ ہم سے دو سال قبل دنیا میں ورود کرنے والا بھائی محض اپنی جلد بازی کی بنا پر ’بڑا، بن بیٹھا۔ شاید یہاں بڑا بننے کی یہی اکلوتی شرط ہے۔ یہ تو ہمیں بہت بعد میں علم ہوا کہ یہ سُستی صرف ہماری پیدائش ہی میں نہیں، رفتار اور مزاج میں بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یار لوگوں نے ہمیشہ ہمیں کچھوا قبیلے کا فرد ہی گردانا۔ کچھوا قبیلے کا ایسا فرد، جسے خرگوشوں کی نگری میں چھوڑ دیا گیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ مَیں اکثر اوقات پورا وجود باہر نکالنے کی بجائے صرف گردن نکالتا ہوں، ماحول اور مزاجوں کو زبان کی بجائے آنکھوں اور کانوں سے چکھتا ہوں۔ پھر ہر طرح کے ذائقوں کو اپنے جذبات اور تعصبات کی آمیزش کے ساتھ قلم کے منہ سے تھوک دیتا ہوں۔ میری زندگی میں پہلا خرگوش میرا اکلوتا بڑا بھائی تھا، جو عمر میں دو سال بڑا ہونے ہی کو بزرگی کے لیے کافی سمجھتا تھا۔ ہماری پیدائش کے ساڑھے تین سال بعد ہی بڑے بھائی نے چھوٹے ہونے کی عیاشی بھی ہم سے چھین لی، جب اس نے سکول میں داخل ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد والدہ کو یہ ’تڑی، لگائی کہ:"چھوٹا جائیگا تو مَیں بھی جاؤں گا۔"زندگی کے اس چوتھے سال ہی میں ہمیں عجیب طرح کی سیاست کا سامنا تھا کہ سکول میں اپنی تعلیمی تگ و دَو کی بنا پر ہمیں جس بھائی کے نہ صرف کلاس فیلو بلکہ رفتہ رفتہ کلاس مانیٹر ہونے کا شرف حاصل ہوتا، گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی بہ لحاظِ عمر ہماری تعیناتی بہ طور چھوٹے بھائی کے ہو جاتی۔ والدہ محترمہ نے والد مرحوم کی عدم موجودگی کے سبب جب سے اس پانچ سالہ بزرگ کی دھمکی پہ بے چون و چرا سرِ تسلیم خم کر لیا تھا، تب سے اسے حکم چلانے میں مزہ آنے لگا تھا۔ چنانچہ اس گھر میں زبان کا مورچہ مسلسل بڑے بھائی نے سنبھالے رکھا اور کانوں کی مزدوری بلا تعطل و تعطیل ہمارے حصے میں آتی گئی، جس کے نتیجے میں آوارگی، شہزادگی اور دل دادگی ’ بزرگ، بھائی کا خاصہ رہی نیز پڑھائی، کمائی اور جگ ہنسائی کا قرعہ بے روک ٹوک ہمارے نام پڑتا چلا گیا۔ سکول میں وہ انگریزی ٹینسز کی روز روز کی تکرار اور ریاضی و الجبرا کے لاینحل مسائل کو اپنی آزادی میں کھلم کھلا مداخلت خیال کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بھائی نے ساتویں جماعت کے سالانہ امتحان میں ماسٹر کی مردم ناشناسی اور برطانوی استعمار کی زبان سے اپنی اَن بَن کی بنا پر اپنے تعلیمی کیرئیر کی تکمیل کا اعلان کیا تو خاندان بھر میں کسی ذی روح کو اختلاف کی جرأت نہ ہوئی، اُلٹا سب ماسٹر کی علم دشمنی اور گوری چمڑی والوں کی منہ ٹیڑھا کر کے بولی جانے والی زبان ہی کو کوستے رہے۔ چنانچہ بھائی صاحب عہدِ طفولیت ہی میں مظلومیت کا میدان جیت کر ’کمائے گی دنیا، کھائیں گے ہم، کے فلسفے پر پورے اطمینان سے گامزن ہو گئے۔ نتیجۃً ’کھائے گی دنیا، کمائیں گے ہم، والی عیاشی ہمارے حصے میں آئی۔ عمر کا بہت سا پانی اسی انداز میں بہتا رہا۔ اس کہولت کے باوجود شاید بقیہ زندگی بھی سہولت ہی سے گزر جاتی کہ ایک دن بیٹھے بٹھائے ہماری سب سے چھوٹی بیٹی ارفع، جو اپنے فلسفیانہ مزاج کی بنا پر ہمارا غیر فلسفیانہ ناطقہ اکثر و بیشتر بند کیے رکھتی ہے، نے یہ کہہ کر ہمیں ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا کہ:"تایا ابو نے آپ کے ساتھ خوب ہاتھ کیا ہے!!"ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ شاید بھائی میری غیر موجودگی میں گھر سے قیمتی چیزیں اٹھا کے لے گیا ہے، دھوکہ دہی سے میری زمین وغیرہ اپنے نام کرا لی ہے، یا میری مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹ نمک مرچ لگا کے ’بی وی چینل، پہ نشر کرا دی ہے۔ پھر بھی ڈرتے ڈرتے پوچھ ہی لیا کہ:بیٹا مَیں آپ کا مطلب نہیں سمجھا!!ہمیشہ کی طرح شرارت آمیز اعتماد کے ساتھ بولی: "دیکھو! وہ خود تو بغیر شادی کیے ہی تایا ابو بنے بیٹھے ہیں، اور آپ کو اتنی محنتوں مشقتوں کے باوجود چچا تک بننے کا موقع نہیں دیا…" تمام گھر والوں نے بچی کی ذہانت اور ہماری اہانت سے خوب لطف لیا۔ ہم نے بے شمار دلیلوں، تاویلوں اور سبیلوں سے اپنی خفت مٹانے کی پوری کوشش کی، حتیٰ کہ اپنے دفاع میں جناب پروفیسر افضل علوی کا یہ شعر بھی رقت انگیز انداز میں پڑھا کہ:پھینکا جو چاہ میں تو ملی سلطنتِ مصریوں بھی تو کام آئے ہیں بھائی کبھی کبھیلیکن وہ جو کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلی ہوئی بے عزتی بھلا کب واپس آتی ہے… بھائی صاحب نے چچا بننا تو کجا، کبھی ڈھنگ سے بڑا بھائی بن کے نہ دیا تھا۔ اب تو رفتہ رفتہ عمر بھی ایسی ہو چلی تھی کہ ہم خود ہی اپنے بڑے بھائی لگنا شروع ہو گئے تھے۔ مرحوم نے زندگی بھر ایک ہی کام میں مستقل مزاجی دکھائی کہ کہیں کوئی کام مستقل طور پر مزاج کا حصہ نہ بن جائے۔ انھوں نے ہر آسان سے آسان مسئلے کا بڑا مشکل حل تلاش کر رکھا تھا۔ مثال کے طور پر جب گاؤں میں بجلی نہیں تھی تو پسندیدہ گانے سننے کے لیے محض چار ایکڑ زمین بیچ کر نیا فیٹ ٹریکٹر خریدا اور اس پر مارکیٹ میں موجود سب سے مہنگا ڈیک لگوا کر یہ مسئلہ حل کر لیا۔ تمام عمر شادی اس لیے نہیں کی کہ فلمی گانے سن سن کے جس حسینہ کی بابت ان کا خیال تھا کہ وہ کانٹوں پہ چلتی ہوئی ان کے گاؤں آ کر نہایت رقت انگیز انداز میں کہے گی: دیکھ بلم، تیری قسم چھالے پڑے پاؤں میں … اس نے علم و تحقیق کی لگن میں کسی بڑے شہر جا کر اس سے بھی زیادہ پرانے مخطوطوں سے دل لگا لیا۔ گیارہ اگست کی صبح دس بجے تک بالکل صحیح حالت میں تھے، گیارہ بجے ان کے انتقال کی خبر آ گئی کہ وہ اس دنیا کو مزید قابلِ التفات نہ سمجھتے ہوئے، دوسرے جہاں کُوچ کر گئے۔ اگر آپ پوچھیں کہ مرحوم کو کیا بیماری تھی، چھوٹے موٹے خرخشوں کے علاوہ انھوں نے کبھی کسی خاص بیماری کو گھاس ہی نہیں ڈالی، کوئی روگ پالا ہی نہیں، البتہ بعض شوق روگ سمجھ کے جوان کیے تھے، مثلاً لوک گلوکاری کی زلفوں کے بچپن سے اسیر تھے۔ کچھ عرصہ عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی شاگردی بھی اختیار کی۔ آخری چند سالوں میں ایک گیت بڑی لگن سے گایا کرتے تھے:نی اُوٹھاں والے ٹُرجان گے، توں لبھدی پھریں گی ہانی…ہم اس گانے کی آڑ میں کسی سسی کو تلاش کرتے رہے، لیکن یہ عجیب و غریب اور کبھی سمجھ میں نہ آنے ولا پُنوں تو ہمیں ہی تنہا چھوڑ گیا… آپ کو بتاتے چلیں کہ مرحوم نے سوگوران میں ایک بار پھر مجھے ہی چھوڑا ہے… سچ پوچھں تو ارفع کے تایا ابو نے ایک بار پھر میرے ہی ساتھ ہاتھ کر دیا ہے…حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا