Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Ashfaq Ahmad Virk/
  3. Noon Se Noon Ghunna Tak

Noon Se Noon Ghunna Tak

آپ مانیں یا نہ مانیں، ہمارے دوست مرزا مُفتہ کہ جن کا کھاتے پیتے (سیاسی معنوں میں نہیں) گھرانے سے تعلق ہے، کو نئے نئے موضوعات پہ تحقیق کرنے کا بہت شوق تھا۔ مجھے یاد ہے پچھلے دنو ں وہ ایک نہایت دلچسپ موضوع "بڑے لوگوں کی بیماریاں " سوجھ جانے پر بہت پُر جوش تھے۔ مصیبت یہ تھی وطنِ عزیز میں ہمارے ملک کے بڑے لوگوں کے امراض کا سیاسی ڈیٹا تو موجود تھا لیکن ان کا ساراحقیقی بیماری ریکارڈ، مقامی شفاخانوں کی بجائے بیرونِ ملک ہسپتالوں میں پڑا لشکارے مارتا تھا۔ کہتے ہیں شوق دا کوئی مُل نئیں، چنانچہ مرزا اپنی تحقیق کو کسی منطقی انجام تک پہنچانے کی خاطر سالم ٹکٹ کٹا کے لندن جا پہنچے۔ اپنے اسی جذبے کی رَو میں رفتہ رفتہ پاکستان کی بڑی بڑی شخصیتوں کا علاج کرنے والے سارے بڑے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو بھی ڈھونڈ نکالا۔

تمام ڈاکٹروں سے فیس ادا کر کے باقاعدہ وقت لیا۔ دورانِ تحقیق بہت سی باتوں کا پتہ چلا، لیکن تحقیق کے جس پہلو نے انھیں اور بعد میں ہمیں سب سے زیادہ حیران کیا، بلکہ ان کے اپنے الفاظ میں:" مَیں چکرا کے رہ گیا" اور میری آنکھیں کھلی کی کھلی نہیں، پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، جب مجھے علم ہوا کہ لندن کے شفا خانوں میں علاج کروانے اور مرضی سے شفا پانے والی ان عظیم سیاسی شخصیات کی بیماریاں اگرچہ الگ الگ بلکہ رنگا رنگ تھیں لیکن ایک نکتہ سب میں مشترکہ تھا کہ ان سب کے اندرونی نظام میں، معدے کے علاوہ کوئی بھی عضو سو فیصد کام نہیں کر رہا تھا اور وہ سب کے سب نہ جانے کب کے دماغ، دل، جذبات، احساسات کا سارا کام اسی عضوِ غیر رئیسہ سے لیے جا رہے تھے!!!!!

*جب محمد خاں جونیجو اپنی رہی سہی غیرت اور ٹوٹی پھوٹی جمہوریت کی جیسی تیسی بحالی کی خاطر اسمبلیاں توڑنے کا پورا پورا موڈ بنائے بیٹھے تھے، تو اپنے یہی لندن فیم میاں صاحب ہی اُن کی غیرت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنے تھے(جس کا صلہ وہ اور ان کی منھ پھٹ نسلیں ایک طویل عرصے تک وصول کرتی رہیں لیکن اقتدار سے الگ اور بھولے بھالے قانون کی پہنچ سے دور ہوتے ہی ہوتے ان کے اندر جمہوریت کی پرانی پیڑیں جاگنا شروع ہو جاتی ہیں) ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ تب انھی میاں جی نے اپنے محسن و مربی و محترم جنرل جی(بقول اپنے زرداری صاحب ابا جی،) کے سامنے قبل از وقت یہ خبر بریک کرنے کا اعزاز و اعزازیہ حاصل کیا تھا۔ اس موقع پر بھی اپنے حکیم جی کے منھ سے بے ساختہ نکلا تھا:

ہائے کم بخت کو کس وقت ضیا، یاد آیا

وزارتِ مس عظمیٰ سے کرپشن کی بنا پر نا اہل قرار پانے سے ذرا پہلے جب بڑے میاں صاحب توبہ کی خاطر گھر سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی بجائے، قومی خزانے سے ایک سو ساٹھ سیاسی یتیموں، مسکینوں کو عمرے کے کثیر المقاصد دورے پہ لے کے گئے تو بے دھڑک لالہ بسمل نے اپنی سوشل میڈیا کی پوسٹ میں کیا بے ساختہ تبصرہ کیا تھا: "عمروں کے گناہ "عمروں " سے نہیں دھوئے جا سکتے "

*لوگ کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ ہمارے ان ذہین سیاست دانوں نے لاہور میں ٹرانسپورٹ چلائی ہے، حالانکہ انھوں نے اس سے صرف اور صرف کام چلایا ہے۔ میٹرو سے2013ء کے الیکشن کا، اور اورنج کے کِک بیک سے2018ء کے انتخابات کا ? پھر غریب قوم پہ اس کا جرمانہ بھی سنیے، ڈاکڑ عطا الرحمن کا کہنا ہے کہ اس کے لیے جتنا بجٹ مختص کیا گیا، وہ پاکستان کے تعلیمی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ چند مہینوں میں اورنج ٹرین سے جو آمدنی ہوئی ہے وہ تقریباً اٹھائیس لاکھ ہے اور اخراجات کی مد میں چونتیس کروڑ کے اعداد و شمار منھ چِڑا رہے ہیں۔ اس پہ قوم کے جوپانچ سال ضائع ہوئے، تعمیر و تخریب کے عمل سے شہر میں کتنی کھہہ اڑائی گئی، فیروز پور روڈ اور ملتان روڈ پہ کتنے لوگوں کے کاروبار تباہ ہوئے، یہ الگ کہا نی ہے? حکیم جی مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سواریاں ڈھونے میں تو یہ دونوں منصوبے سفید ہاتھی ثابت ہو چکے ہیں۔ اب نئی حکومت کو چاہیے کہ کرونا کے ان دنوں میں، ان دونوں طرح کی ٹرانسپورٹ کو موبائل سکولوں کا درجہ دے دیا جائے۔ اس طرح شاید تعلیم کا معیار بھی زمین سے اونچا ہو جائے گا۔ اسی اونچائی کی بنا پر اپنی تعلیم کو نہایت آسانی سے ہائر ایجو کیشن کا نام بھی دیا جا سکتا ہے، اس طرح ہیڈ ماسٹروں اور استانیوں کو ڈرائیونگ مفت میں ہاتھ آ جائے گی۔ اس ڈگری کا نام ہوگا: (S A G) یعنی شاہدرہ سے گجو متہ،

*صرف ن لیگ کے قصیدہ خوانوں کے لیے عرض ہے کہ آج ایک دوست نے یاد دلایا ہے کہ اپنے پیارے میاں صاحب نے ایون فیلڈ کے جن لگژری فلیٹس کی بابت عدالتِ عظمیٰ میں قرآن پر حلف دے کر ان سے لاتعلقی بلکہ لا علمی تک کا حلف اٹھایا تھا، وہ آج کل جعلی علاج، جعلی ضمانت اور جعلی عزائم اور جعلی حب الوطنی سے سرشار اسی فلیٹ میں مقیم ہیں۔ پھر چلتے چلتے ایک معروف صحافی نے ایک اور معروف (پتہ نہیں کس کس حوالے سے معروف)صحافی کو نہ جانے کس ترنگ میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جن دنوں نواز شریف وزیرِ اعلیٰ تھے اور کبھی کبھی انھیں کرکٹ کا دورہ پڑتا تھا تو ایسے میں باغِ جناح کے رومانوی ماحول میں کرکٹ کا ایک بناوٹی سٹیج لگایا جاتا تھا، جس میں میاں صاحب صرف بیٹنگ کرتے تھے۔

بالنگ بالکل نہیں، یعنی شروع دن سے بلی کو اوپر اوپر سے ملائی کھانے کی عادت تھی۔ اس میں بھی یہ عالم ہوتا تھا کہ کمشنر لاہور ایمپائر ہوتا اور ڈی آئی جی لیگ ایمپائر? زیادہ مشکل بال کرانے والے بالر کو گالیوں سے بچانے کے لیے صرف پیشگی وارننگ دی جاتی تھی۔

اس آسان صورتِ حال میں بھی اگر یہ لاڈلا بلے باز بولڈ ہو جاتا تو اسے نو بال قرار دینا لیگ ایمپائر کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔ صرف قارئین کے منورنجھن کے لیے عرض ہے کہ بعد میں وہی ایمپائر، ڈی آئی جی سے آئی جی بنا اور اس کے بعد سینیٹر

*ہم نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے تما م لوگ کہتے ہیں: اپنے پیارے میاں نواز شریف کے بچے تو ارسطو سے بھی دو ہاتھ زیادہ ذہین ہیں جنھوں نے2006ء میں خریدی جائیداد1999ء میں فروخت کر کے سائنس اور کلنڈر دونوں کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا لیکن اس پر حکیم جی کا فرمانا ہے کہ ان بھولے بادشاہوں کو یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کی اسی سائنسی مہارت نے اچھی خاصی "نون" کو نون غُنّہ" بنا کے رکھ دیا۔ ،