Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Ashfaq Ahmad Virk/
  3. Loot, Jhoot Aur Boot

Loot, Jhoot Aur Boot

اپنے اپنے منافقانہ مفادات کی بُکل میں منعقد ہونے والی اے پی سی کے غبارے سے اتنی جلدی ہوا نکل جائے گی، کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ خواجہ حیدر علی آتش کا کسی ایسے ہی موقع کے لیے کہا گیا، یہ شعر آج بھی کتنا حسبِ حال ہے کہ:

بہت شور پہلو میں سنتے تھے دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

ہمارے ایک دوست تو اس دھوم دھڑکے والی اے پی سی کو پہلے دن سے "اے کی سی؟ ؟ " کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے ان بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے، مختلف نام نہاد نظریات کے دعوے دار اور ماضی میں اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف ناقابلِ بیان، بیانات دینے والوں کو اس احتجاجی میٹنگ میں ایک بار پھر ایک ہی تھالی (جس میں یہ پہلے بھی کئی بار چھید کر چکے ہیں ) میں کھاتے دیکھ کے یہ آوازہ بھی کسا کہ: کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا، ? اس اے پی سی کی بھان متی تو بلاشبہ نَیب کے ساتھ وٹہ سٹہ کرنے والی جھانسے کی رانی تھیں، جب کہ اس فلم کے مرکزی ہیرو اپنے لندن کے فلیٹوں (جو اُن کے ہونہار بچوں نے اپنے سکول کے زمانے ہی میں گھر سے ملنے والے جیب خرچ ہی سے خرید کر لیے تھے ) میں بیٹھے میاں صاحب تھے، جو پہلے تو کئی مہینے تک چپ کا روزہ رکھے رہے اور جب کفن پھاڑ کے بولے تو سیدھا شہتیر ہی کو جپھا ڈال لیا۔ یار لوگ تو ابھی ان کی اس جرأتِ رندانہ پہ داد دینے کے لیے مناسب الفاظ ہی سوچ رہے تھے کہ اچانک اسی فلم کا سائیڈ ہیرو، زبیر سامنے آ گیا۔ سچ پوچھیں تو مَیں نے اپنی زندگی میں ایسا رُلدو لیڈر آج تک نہیں دیکھا کہ جو طویل عرصے تک ایک صوبے کا گورنر، ایک جرنیل کا بیٹا اور ایک بڑی سیاسی پارٹی کا انتقامی مُہرہ ہونے کے باوجود "اسد عمر کا بھائی" کے علاوہ کوئی پہچان، کوئی تعارف ہی نہیں بنا سکا۔ اس کو پہلی نظر دیکھتے ہی لگتا ہے، پرائمری سکول سے چھوٹے بچے کی فیس معاف کرانے آیا ہے۔ لالہ بسمل کہتا ہے مجھے اس شخص کا لباس دیکھ دیکھ کے اب ویسٹ کوٹ بھی Waste کوٹ لگنے لگی ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی اپنے سائیڈ ہیرو کی جو پیا کے دوارے جا جا کے اور اپنے چالیس سالہ خاندانی تعلق (جس کی وجہ سے اسے اہم عہدوں پہ بٹھایا گیا تھا) کے واسطے سنا سنا کے "دے جا سخیا " کی رَٹ لگائے رکھی لیکن جب ہر بار اندر سے "بابا معاف کرو" ہی کی آواز سنائی دی، تو پھر اچانک اس قبیلے کی غیرت جاگ اٹھی اور پیٹ اور پلیٹ کے بعد پلیٹ لَیٹ سے شہرت حاصل کرنے والے اشتہاری ہیرو کو کیمرے کے سامنیسلطان راہی بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ اس ہیرو کی للکار کا اشتہار ابھی رقیبوں کی دیوار تک بھی نہیں پہنچا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سارا کھیل ہی خراب کر دیا، بقیہ ٹریلر شیخ رشید نے چلا دیا اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی۔ فیس بک اور وٹس ایپ پہ ایسی ایسی پوسٹیں دیکھنے کو ملیں کہ اگر غیرت نام کی کوئی چیز ہوتی تو ساری عمر سیاست کا نام نہ لیتے۔ ایک دوست نے تو حد ہی کر دی۔ اس نے فیس بُک پہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے سیاہ اور چمک دار بُوٹ کی ایک جمبو سائز تصویر لگائی اور ساتھ کیپشن لکھا:

"بُوٹوں کی چمک بتا رہی ہے کہ نون لیگ والے کتنی مُدت اور شدت سے جنرل سے ملتے رہے ہیں۔" ایسے میں ہمیں شاعرِ مشرق کا لسان العصر اکبر الٰہ آبادی کے رنگ میں لکھا یہ شعر یاد آ گیا:

میرا یہ حال، بوٹ کی ٹو چاٹتا ہوں مَیں

اُن کا یہ حکم، دیکھ! مِرے فرش پر نہ رینگ

بڑبولی پارٹی والے ابھی اس قاصد کے لیے دفاعی بیانیہ تیار کرنے میں مصروف تھے کہ کسی صاحب نے تو وردی بابا کے دروازے پر کھڑے اس فریادی کی وہ عقیدت مندانہ تصویر بھی شیئر کر دی، جس کے انگ انگ سے ایک ہی مظلومانہ آواز سنائی دے رہی ہے:

یہی ہر نفس ہے دعائے دل، کوئی بے وفا نہ دُکھائے دل

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے

پاکستان سے لُوٹ مار کر کے، عدالتوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کے جعلی رپورٹوں کے سائے میں لندن فرار ہونے والے وہاں بیٹھ کے مُودی اور جندال کی بولی بولنے والے اور بار بار دیکھے بھالے، بھولے بھالے عوام سے قیمے والے نان کے بدلے ووٹ کو عزت دو، کے نعرے لگوانے والے، پہلے دن سے فوج ہی کی گود میں پرورش پانے اور ہر بار اسی کے خلاف اپنے بدبودار بغض کا اظہار کرکے بار بار دونوں طرف سے ذلیل ہو جانے والوں کے بارے میں اُردو ضرب المثال میں تو کسی دھوبی کا حوالہ دیا جاتا ہے لیکن ہمارے شاعر ایسے سیاست دانوں کی مفاداتی قلا بازیاں دیکھ دیکھ کے پہلے ہی کہہ گئے ہیں:

گئے دونوں جہاں سے وائے ستم، نہ اُدھر کے ہوئے نہ اِدھر کے رہے

نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ اُدھر کے ہوئے نہ اِدھر کے رہے

وطنِ عزیز کے لوگ اس لندنی ہیرو کی دُرفنطنیوں پہ ایک بار پھر حیران ہیں کہ جنرل آصف نواز، جنرل وحید کاکڑ، جنرل جہانگیر کرامت، جنرل پرویز مشرف، جنرل راحیل شریف، جنرل قمر باجوہ کو آرمی کا چیف اس نے اپنی مرضی سے لگایا، جسٹس ثاقب نثار کو چیف جسٹس خود مقرر کیا، جسٹس جاوید اقبال کو نَیب کا چیئرمین بقلم خود بنایا، اس کے نتیجے میں اپنی تمام تر نالائقیوں کے باوجود تین دہائیوں تک اس بد نصیب ملک پہ حکومت بھی کی، لیکن لڑاکی اور کپتی رَن کی طرح اسے سچا پیار پھر بھی نہیں ملا!!

ہم سمجھتے ہیں کہ ان لوگوں میں اخلاص کی ذرا سی رمق بھی باقی ہوتی تو ماضی کی جملہ دھوکا بازیوں کے باوجود اقتدار کے لیے قطار میں لگنے کا ایک راستہ اب بھی موجود تھا کہ یہ عوام کے سامنے آ کے سابقہ گناہوں اور غلطیوں کی سچے دل سے نہ صرف معافی مانگتے بلکہ لوٹا ہوا مال قومی خزانے میں جمع کروانے کے لیے ٹائم فریم دیتے۔ مستقبل کے لیے ترتیب دیا ہوا کوئی ٹھوس ایجنڈا قوم کے سامنے رکھتے اور اگلے تین سال تک اپنے ان وعدوں کی تکمیل کا عملی اظہار کرتے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ دھوم دھام سے بلائی گئی اس اے پی سی میں شامل تمام چہروں کو ان کے ماضی اور حال کے کارناموں کے تناظر میں غور سے دیکھیں تو تین حرف بھیجنے کو دل چاہتا ہے، حکیم جی کے بقول ان سب فن کاروں کا تین لفظی ایجنڈا ہے: لُوٹ? جھوٹ? اور ? بُوٹ? یعنی جب اقتدار میں ہو تو تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے قوم کو جی بھر کے لوٹو، اگر انھی کرتوتوں کی بنا پر اقتدار چھن جائے تو جلسوں اور میڈیا پہ جھوٹ بول بول کے سچ کو بھی مشکوک بنا دواور اگر جھوٹ کا جادو بھی نہ چل سکے تو بوٹوں کے اوپر ٹاکی مارنا شروع کر دو، ٹاکی سے کام نہ چلے تو چَیری خوشامد کی ڈبیا جیب میں رکھ کے لے جاؤ، پھر بھی داغ نہ دھلیں تو لمس کس دن کام آئے گا!!!