Tuesday, 23 April 2024
  1.  Home/
  2. Dr. Ashfaq Ahmad Virk/
  3. Imran Khan Ba Muqabla Jacinda Ardern

Imran Khan Ba Muqabla Jacinda Ardern

جب سے بلوچستان میں دہشت گردی کا دل خراش واقعہ پیش آیا ہے، کچھ مخصوص ذہنیت والے صحافیوں اور سیاست دانوں کی زبانیں گز گز کی ہو گئی ہیں۔ کوئی بدبودار میری اس پاک سرزمین کولعن طعن کر رہا ہے اور کسی بدبخت کے نزدیک لاشیں ہار گئی ہیں اور بعض سیاسی میمنے وزیرِ اعظم کے ساتھ ساتھ ان کے پورے خاندان کو اپنی دشنام طرازی کی زَد میں لے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک بھیڑ چال یا بھِیڑ چال قسم کی روایت یہ بھی تیزی سے چل نکلی ہے کہ بار بار عمران خان کا مقابلہ یا موازنہ نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم لیڈی جیسنڈرا سے کیا جا رہا ہے کہ دیکھیں وہ کتنی سُرعت سے مقتولین کے پاس جا پہنچیں۔ انھیں تسلی تشفی دی، قاتل بھی پکڑا گیا ? سزا بھی ہو گئی ? وغیرہ وغیرہ

اس پر مجھے چند سال قبل کینیڈا میں بہت سا وقت گزار کے پاکستان آئے ہوئے اپنے ایک عزیز سے کیا گیا وہ مکالمہ یاد آ گیا کہ جب مَیں نے انھیں کہا کہ آپ کینیڈا اور پاکستان کا موازنہ کیسے کریں گے؟ تو اس پر انھوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور فرمایا: میرے بھائی موازنہ سڑک پر چلتی اُن دو بسوں میں تو ہو سکتا ہے، جس میں ایک سو میل کی رفتار سے رواں ہو اور دوسری اور کچھ نہیں تو تیس چالیس کے حساب سے منزل کی طرف گامزن ہو لیکن اگر ایک بس فراٹے بھرتی جا رہی ہو اور دوسری کھڈے میں اُلٹی پڑی ہو تو کیسا مقابلہ؟ کیسا موازنہ؟ شاعرِ مشرق نے کہا تھا:

شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور

اس لیے دوستو موازنہ انیس و دبیر کا ہو سکتا ہے? فیض اور فراز کا ممکن ہے? لاہور، کراچی کا بھی چلے گا? منٹو اور بیدی کے تقابل میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ? گندم اور جَو کو بھی چھانا پھٹکا جا سکتا ہے? لیکن آلو میتھی کا فیرنی سے? کرسی کا میز سے? پہاڑ کا دریا سے? کمر کا کمرے سے? بانگِ درا کا پکی روٹی سے، موازنہ نہیں بنتا۔ دو مقتدر شخصیات کے موازنے کے لیے وہاں لوگوں اور چیزوں کے مزاج، رواج اور سماج کو دیکھنا پڑے گا۔ ملکوں کے موازنے کے لیے جغرافیائی، تاریخی، سیاسی حالات پہ نظر ڈالنی ہوگی۔ اور اگر میڈم جیسنڈرا ہی پہ آپ کی سوئی اٹک گئی ہے تو وہاں کے خونی واقعے کا موازنہ پہلے تو آپ ماڈل ٹاؤن سانحے سے کر لیں کہ ایک خاتون حکمران نے دہشت گرد کو قرار واقعی سزا دلوانے میں کیا کردار ادا کیا اور ہم نے حاملہ خواتین کے پیٹ میں گولیاں مارنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ پھر اس کا اپنے حکمرانوں سے اس حوالے سے بھی موازنہ ہو سکتا ہے کہ مس جیسنڈرا نے اپنے دورِ اقتدار میں کتنی ملیں لگائیں؟ کتنے محل خریدے؟ پھر یہ موازنہ تو ہر صورت ہونا چاہیے تھا کہ نیوزی لینڈ کو اندر اور باہر کتنے دشمنوں سے خطرہ ہے؟ وہاں کتنے سیاست دان ہیں جو نسل در نسل اقتدار پہ قابض ہیں؟ مس جیسنڈرا کے کتنے بیٹے، بھائی، بھانجے، بھتیجے بڑے بڑے حکومتی عہدوں پہ متمکن ہیں؟ وہاں ہر سال کتنے محکموں کا ریکارڈ جل کے راکھ ہوتا ہے؟ وہاں کتنے لاکھ کیس عدالتوں میں پڑے پڑے ردی ہو گئے؟ وہاں کتنی بڑی شخصیات دن دہاڑے خون میں نہائیں، جن کے قتل کا سراغ تک نہ مل سکا؟

اور پھر کسی سے موازنہ اتنا ہی ضروری ہے تو جرمنی سے کر لیں کہ جن کا وزیرِ خزانہ محض مالی بحران کے خدشے کے پیشِ نظر ریل گاڑی کے نیچے آ کے خود کُشی کر لیتا ہے اور ایک ہمارا وزیر خزانہ ہے، جو دبئی میں پلازے بنوا کے ضمیر کی خلش اور خدا کے خوف سے آزاد لندن میں مقیم ہے۔ یا پھر جرمنی اور بہت سے ترقی یافتہ ممالک کی صحافت سے کر لیں جہاں کسی صحافی یا چینل کو حکومت کے خلاف بات کرنے کی جرأت تک نہیں ? اپنے برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے کر لیں جہاں چٹ منگنی پٹ بیاہ کی طرح قومی مجرم کی گردن منٹوں میں کندھوں سے اتار کے ہاتھ میں پکڑا دی جاتی ہے؟

یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ عمران خان، اپنی صلاحیتوں، قوتِ برداشت اور عالمی وژن کے اعتبار سے جیسنڈرا سے کہیں بڑا لیڈر ہے، لیکن ہم ایسی غیر پرست اورغیرت میں پست قوم ہیں کہ ہمیں گھر کی مرغی ہمیشہ دال برابر نظر آتی ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو پورے اعتماد کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آج عمران کو نیوزی لینڈ یا اس جیسے کسی ملک کا صدر بنا دیں تو وہ اسے ایک دو سالوں میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابل میں لا کھڑا کرے گا اور اگر جیسنڈرا آرڈرن کو منت سماجت کر کے یا کسی بھی طرح مجبور کر کے پاکستان میں اقتدار سنبھالنے پہ راضی کر لیا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ جب وہ یہاں آ کے دیکھے گی کہ یہاں قاتلوں لٹیروں کو نہ صرف ہیرو کا درجہ حاصل ہے بلکہ وہ بڑے سے بڑے جرم سے بھی منٹوں میں رہا ہو کر اپنی لُوٹ مار سے بنائی جاگیروں (جن کی ملکیت سے وہ مسلسل انکاری ہوتے ہیں) میں جا پناہ لیتے ہیں۔ یہاں لوگ ایک فرضی وصیت پہ ملک کے صدر بن بیٹھتے ہیں۔ کئی عشروں تک حکومت کرنے والوں کو ایک بھی ایسا ہسپتال بنانے کی توفیق نہیں ہوتی کہ جس میں وہ ا ور نہیں تو اپنا ہی علاج کروا سکیں ? پھر جب وہ دیکھے گی کہ یہاں کے لوگ سمجھتے، بولتے اور زبان ہیں لیکن انھیں تعلیم کسی اور زبان میں دی جاتی ہے?یہاں کسی کرپٹ لیڈر کو سزا ہو جائے یا مِخ والی ہڈی نہ ملے تو وہ قوم کے سامنے شرمندہ ہونے کی بجائے سڑکوں پہ احتجاج کا منجن بیچنا شروع کر دیتا ہے۔

جب وہ سنتی کہ یہاں ایک ہی صوبے میں بعض لوگوں کو ساری عمر صاف پانی اور دو وقت کی روٹی میسر نہیں آتی اور بعض پیدا ہوتے ہی ہر بڑے شہر میں اربوں کی جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں ? یہاں میٹرک پاس پائلٹ بھرتی ہو جاتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈگریاں جلا دیتے ہیں۔ یہاں لوگ کم نمبر آنے پر خود کُشی کر لیتے ہیں اور بحری قذاق، کا لقب عطا ہونے پر سینہ تان کے چلتے ہیں۔ یہاں سائیکل چوری کرنے والے جیلوں میں گل سڑ جاتے ہیں اور قومی خزانے کو چیل کا گھونسلہ بنا دینے والے کو پچاس روپے کے اشٹام پہ ضمانت مل جاتی ہے۔ بعض بچیاں محض جہیز کی بنا گھر بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں اور بعض حسینائیں اربوں روپے بیگ میں ڈالے کیٹ واک کرتی ملکوں ملکوں گھومتی ہیں۔

یہاں ایک کنگلا صحافی دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن جاتا ہے اور ایک ایمان دار تعلیم یافتہ کو ڈھنگ سے پتی بننا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ جب وہ سنے گی کہیہاں جھوٹ فراڈ کو سچ دکھانے کے لیے صحافیوں کو چالیس چالیس ارب کے لالی پاپ دیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد مَیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہی خاتون جس کا یہ لوگ منھ بھر بھر کے تذکرہ کر رہے ہیں، یا تو چند دن میں پاگل ہو جائے گی یا وزارتِ عظمیٰ کو لات مار کے اگلی صبح پہلی فلائٹ سے یہ کہتے ہوئے اپنے وطن کوپرواز کر جائے گی کہ:

ہم باز آئے ایسی محبت سے تم اٹھا لو پاندان اپنا