Tuesday, 19 March 2024
    1.  Home/
    2. Ashraf Sharif/
    3. Soon Sakesar Ki Gote Wali Chunariya

    Soon Sakesar Ki Gote Wali Chunariya

    مسافر کو دوستوں کی محبت میسر ہے، تاریخی اور قدرتی ماحول اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جہاں خاموشی، قدرتی حسن، تاریخی آثار اور جنگلی حیات کی بہتات ہو، عازم سفر ہوتا ہوں۔ کلر کہار تک کئی بار جانا ہوا، جھیل دیکھی، جھیل کے کنارے رات گزاری، عرق گلاب خریدا، گلقند لی، اوپرچوٹی پر مزار تک گیا، تخت بابری دیکھا اور دیسی لوکاٹیں درخت سے تڑوا کر کھائیں۔ اس بار سکیسر جانے کا پروگرام بنا، عمیر بیگ اور چھوٹا بھائی عقیل ساتھ تھے، ملک سلمان سکردو میں تھے اس لئے ساتھ نہ جا سکے۔ وادی سون سکیسر میں فضائیہ کی بیس ہے۔ ائیر بیس کے اندر کئی آبادیوں کے آثار ہیں۔ گھنے جنگل میں لگ بھگ ایک سو سال پہلے انگریز نے ایئر بیس سے داخل ہونے والی کشادہ سڑک بنائی۔ گھومتی گھامتی سڑک ایک بہت بڑے اژدہے کی طرح چلتی ہے، کم از کم ہمیں بارہ کلومیٹر میں دو سو موڑ اور اتنی ہی بار اوپر نیچے جاتی گھاٹیوں سے گزرنا پڑا۔۔ دوسرے گیٹ کے بعد اندرونی حصہ آگے تھا، وہ بھی کئی کلومیٹر پر پھیلا۔

    لاہور سے سفر کرتے تقریباً چھ گھنٹے لگے۔ جونہی ایئربیس کے علاقے میں داخل ہوں، پھلاہی، کہو، جنگلی زیتون، کیکر، سنتھا کئی طرح کے کیکٹس اور دیگر مقامی پودوں و درختوں کا ایک جنگل آپ کے ساتھ ساتھ بھاگنے لگتا ہے۔ ایک دو مقامات پر قدرتی چشموں سے سابقہ پڑا۔ سڑک کے بالائی جانب وہ پہاڑ ہیں جنہیں کاٹ کر راستہ بنایا گیا، دائیں طرف ڈھلوان، جسے درختوں نے چھپا رکھا ہے۔ شاہراہ عام نہیں اس لیے سکیورٹی کا مسئلہ نہیں، ہاں کچھ مقامات پر ایسے بورڈ ضرور لگا دیئے گئے ہیں جن پر سامنے آ جانے والے جانوروں اور پرندوں کو نہ مارنے کی ہدایت لکھی ہے۔ گاڑی کے سامنے کتے کا ایک نحیف سا پلا کھڑا تھا۔ ہارن دیا، اس نے نظر اٹھا کر نہ دیکھا، گاڑی روک دی، وہ چند ثانیے تک اپنی مستی میں رہا، ٹانگیں آسمان کی طرف کئے لیتا رہا، پھر آرام سے جنگل میں داخل ہو گیا۔ خاکستری رنگ پر کچھ گہری دھاریوں والے دو بٹیر سڑک پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک چھوٹی سی مرغی کے برابر ہوں گے۔ ان کے لیے ہم خطرہ نہیں تھے۔ وہ بھی آرام سے چلتے ہوئے سڑک کے ایک طرف ہو گئے۔ ایک کرلا سڑک کے ایک جانب سے نکلا، وہ جانے کیوں تیزی سے ہمارے سامنے سڑک پار کر گیا۔ پرندوں کی بہتات تھی۔ کوے سے چھوٹا اور لالی سے بڑا ایک پرندہ دیکھا، دم کچھ لمبی تھی، رنگت بھوری، ونگ کمانڈر زبیر بتا رہے تھے یہاں ایک لدھڑ نما جانور ہے، کوئی ڈھائی فٹ لمبا ہو گا، درخت پر تیزی سے چڑھ جاتا ہے۔ سور رات کے وقت نہیں دن کے اجالے میں بھی پھرتے ہیں۔ سانپوں کی بہت سی اقسام اس علاقے میں پائی جاتی ہیں۔ کاپر ہیڈ سے لے کر کوبرا تک۔ اس علاقے میں اڑیال کافی تھے لیکن مقامی آبادی نے ان کے تحفظ پر توجہ نہ دی شکار کر کے کھاتے رہے، اب کم کم نظر آتے ہیں۔

    ایک مقام پرزپ لائن ہے۔ سیاح یا مقامی بچے اس تار کے ذریعے ہوا میں تیرتے ہوئے آتے ہیں، قریب میں ایئر بیس کا چھوٹا سامیوزیم ہے۔ یہاں وہ راڈار رکھا ہے جس کی مدد سے ایم ایم عالم نے دشمن کے جہاز گرائے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو واحد سربراہ ہیں جو اس ایئر بیس پر آئے۔ میوزیم کے نیچے والا علاقہ تھوڑی سی لینڈ سکیپنگ اور محنت سے سیاحوں کے لیے ایک دلکشن پوائنٹ بن سکتا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں کچھ تجاویز دیں جو زبیر صاحب نے بیس کمانڈر تک پہنچانے کا وعدہ کیا۔ ایک دو اور پوائنٹ تھے جہاں بیس کمانڈر کچھ لینڈ سکیپنگ کرانا چاہتے ہیں۔ ونگ کمانڈر زبیر نے تین کلومیٹر طویل ایک واکنگ ٹریک بنوایا ہے جسے جنگل والی طرف سے محفوظ بنایا گیا ہے۔ جنگلی زیتون کے پودوں پر پھلدار زیتون کی گرافٹنگ کا منصوبہ ہے۔ اس بار موسم بہار میں چنار کے 15 سو درخت لگائے گئے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے بجلیاں کڑکنے لگیں، گہرے بادل نیچے سے اوپر آنے لگیں، 5 ہزار فٹ بلندی پر ہمیں نیچے وادی سون چھائوں بھری دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوا یہاں آسمانی بجلی بہت گرتی ہے۔ بیس میں ہزاروں مقامات پر ایسے راڈ ارنصب ہیں جو بجلیوں کو جذب کرلیتے ہیں۔

    ملازمین کی کالونی کے پاس ایک چھوٹا سا مندر ہے۔ میرا خیال ہے ڈیڑھ سے دو سو سال قدیم ہوگا۔ برآمدے والی چھت پر ایک سادھو یادیوتا کی مٹتی ہوئی تصویر ہے جو شاید چادر اوڑھے ہے یا پھر اس کے پر دکھائے گئے ہیں، کچھ پھولوں وغیرہ کی تصاویر بھی ہیں جن کے رنگ اور لائیں معدوم ہو چکی ہیں صرف ایک احساس ہوتا ہے۔ اس علاقے کو آباد کرنے کا اعزاز مسٹر جانسن نامی انگریز افسر کو حاصل ہے۔ واپسی پر ہم اچھالی جھیل کے سامنے رک گئے۔ میلوں رقبے پر پھیلی جھیل کے ایک طرف پہاڑ ہیں۔ جھیل کے درمیان میں کوئی ایک کلو میٹر تک بارہ فٹ چوڑا راستہ بنا دیا گیا ہے۔ ایک کلومیٹر کا یہ سفرکریں تو آگے سیر کے لیے کشتیاں کھڑی ہیں۔

    اس سفر میں ایک بہت خوبصورت درخت دیکھنے کو ملا۔ میرے استاد اصغر ہاشمی صاحب اس علاقے میں پھلوں اور درختوں پر تحقیق کے ادارے میں ریسرچ افسر رہے ہیں۔ انہیں واٹس ایپ پر عقیل نے تصویر بھیجی۔ ہاشمی صاحب بہت پرجوش ہو گئے۔ انہیں پچیس چھبیس برس پہلے اس علاقے میں گزرے دن یاد آ گئے۔ بتایا کہ عرب اسے فرفر کہتے ہیں۔ مقامی لوگ اسے لہوڑا کہتے ہیں۔ پندرہ سولہ فٹ کا درخت گرمی کے ان دنوں پھولوں سے بھر جاتا ہے۔ پھول چمکدار، ہلکے مالٹا رنگ اور گہرے مالٹا رنگ کے ہوتے ہیں۔ انار کے پھولوں جیسے، یوں لگتا ہے جنگل میں بہت سی مٹیاریں مالٹے رنگ کے گوٹے والی چنریاں لئے کھڑی ہیں۔ سوچتا ہوں تھر میں یہ چنریاں پیاسے اور ماندے مسافر کو کیسی لگتی ہوں گی جہاں اس درخت کی چھاوں میں چرند پرند آبیٹھتے ہیں۔ اس کی چھال پیشاب کی نالی کے امراض میں مفید بتائی جاتی ہے۔ میں نے کچھ شاخیں کاٹ کر ڈگی میں رکھ لیں تاکہ لاہور میں ان کی افزائش کی کوشش کی جا سکے۔ لاہور پہنچ چکا ہوں لیکن دل ان درختوں کے گوٹے کناری والی چنریوں میں رہ گیا۔