Wednesday, 24 April 2024
  1.  Home/
  2. Amjad Islam Amjad/
  3. Ae Mere Dosto, Bhale Logo

Ae Mere Dosto, Bhale Logo

جمعے اور ہفتے کو دونوں دن اوپر تلے اسلامیہ یونیورسٹی اور ایئر یونیورسٹی اسلام آباد میں مشاعرے تھے، سو شوکت فہمی کے ساتھ بہاولپور سے ملتا ن اور ملتان سے اسلام آباد کی ہم سفری رہی جس کے دوران زیادہ تر گفتگو اس موضوع پر ہوتی رہی کہ اگرچہ خودغرضی اور عدم برداشت کے مظاہر پچاس سال قبل بھی معاشرے اور بہت حد تک لکھنے والوں میں بھی نظر آتے تھے مگر اب تو حد ہی ہوگئی ہے کہ اپنی ذات سے آگے اور اس سے باہر سوچنے کا رواج ہی ختم ہوتا جا رہا ہے کسی مخالف سوچ یا گروپ کے ہونے کی صحیح بات کو ہی صرف اس لیے تسلیم یا پسند نہیں کیا جاتا کہ وہ ہم میں سے نہیں اور اسی طرح اُس کے صحیح اختلاف کو بھی صرف اس لیے رد کر دیا جاتا ہے کہ ہمارے نزدیک بات یا بات کرنے والے کی سچائی اس لیے بے معنی اور ناقابلِ برداشت ہوتی ہے اور ہم اپنی ہر طرح کی رائے کو نہ صرف حرفِ آخر سمجھتے ہیں بلکہ کسی کو اس پر تنقید کا حق دینے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتے۔

گفتگو کے دوران مثالوں کا موقع آیا تو گویا ایک دفتر تھا کہ کھلتا ہی چلا گیا اور محسوس ہوا کہ اگلے لوگ طنز اور تنقید کرتے تو تھے مگر اسے اپنے اُوپر بھی برداشت کرتے تھے یعنی صرف کہتے ہی نہیں بلکہ سنتے بھی تھے۔ وہ وقت بھی یاد کیا گیا جب حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاسوں میں بعض اوقات بحث کے دوران اس قدر تلخی پیدا ہو جاتی تھی کہ لڑنے مرنے کا سا سماں بن جاتا تھا اور لگتا تھا کہ ابھی جو کرسیاں بیٹھنے کے کام آ رہی ہیں یہ باقاعدہ چلنا شروع ہو جائیں گی مگر اجلاس ختم ہوتے ہی وہی غصے سے بھرے ہوئے اور اپنی اپنی بات پر اڑنے والے لوگ پاک ٹی ہاؤس کی میزوں پر بیٹھ کر نہ صرف ایک ساتھ چائے پیتے تھے بلکہ ایک دوسرے سے ایسی محبت اور عزت کا اظہار کرتے نظر آتے تھے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ تھا۔

اُس زمانے میں ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحثیں بہت زوروں پر تھیں اور سبز اور سرخ دونوں رنگ اپنی اپنی بہار دکھا رہے تھے لیکن تمام تر اختلافات کے باوجود لوگ دوسرے کی بات نہ صرف دھیان سے سنتے تھے بلکہ دوسرے کا نقطہ نظر سمجھنے کی کوشش بھی کرتے تھے ا ور ایک دوسرے کے مطالعے، نظریات اور جائز تنقید کی عزت بھی کرتے تھے آج کل کے ٹاک شوز اور میڈیا میں ہونے والی بحثوں کی طرح ڈائیلاگ کے نام پر مونو لاگ نہیں کرتے تھے۔

یہاں تک کہ دونوں گروپوں کے شدت پسند لوگ بھی نظریات کی بحث میں شخصی حملوں یا اخلاق سے گری ہوئی تنقید سے گریز کرتے تھے جب کہ آج کل کے ادیب اور شاعر بھی عام اور اَن پڑھ یا کم پڑھے لکھے لوگوں کی طرح دوسروں کی بات کو کاٹنا یا بلا سوچے سمجھے رد کرنا بڑے افتخار کی بات سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات کے صحیح حصے پر بھی غور نہیں کرتے اور اپنی بات کو پورا سچ اور اُس پر تنقید کو مخالف کی بد نیتی سے تعبیر کر کے نہ صرف یہ کہ اُسے برداشت نہیں کرتے بلکہ جواب میں ایسی جارحیت کا اظہار کرتے ہیں جس سے دوسرا خوامخواہ مشتعل ہو جائے۔

شوکت فہمی 25 برس امریکا میں رہ کر حال ہی میں مستقل طور پر پاکستان منتقل ہوا ہے اُس نے بتایا کہ وہاں کے معاشرے میں بھی اگرچہ ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں مگر ان میں سے بیشتر نہ صرف ایک دوسرے کی بات کو سننے کا حوصلہ اور تہذیب رکھتے ہیں بلکہ اپنی بات کے غلط حصے کو ماننے اور اس کی اصلاح کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔

ہماری گفتگو کسی ایسے نتیجے پر تو نہ پہنچ سکی کہ جس کے ذریعے سے ہم اپنے کلچر کے اس فراموش کردہ حصے کو واپس لا سکتے کہ فی الوقت سارا الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دونوں ہی اس اختلاف اور عدم برداشت کی آگ کو ہوا دینے میں لگے ہوئے ہیں مگر یہ عمل بالکل بانجھ بھی نہیں رہا کہ اس کی کوکھ سے ایک ایسی نظم کا ظہور ہو جس میں بہت سی اچھی باتیں ایک ایسی روح پرور شکل میں جمع ہو گئی ہیں کہ اس کی خود کلامی میں بھی مکالمے کا سا انداز ہے اور جس میں سچ کو سچ ماننے اور خود پر کی گئی تنقید کے مثبت پہلوؤں کو کھلے دل سے دیکھنے اور ماننے کا رنگ بھی اپنی جھلک دکھا رہا ہے سو اگر دس میں سے ایک بھی قاری تک یہ پیغام پہنچ گیا تو میں اسے اپنی اور اس نظم کی کامیابی سمجھوں گا کہ فی الوقت ہم سب اس رویے اور اس کے اظہار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

اے مرے دوستو، بھلے لوگو

عیب سے پاک تو ہے بس اک وہ

جو ہے ہم سب کا پالنے والا

ہر اندھیرا اجالنے والا

…………

کس لیے پھر یہ خبط عظمت کا؟

کس لیے دوسروں کے عیبوں کی

گنیتاں ہی سدا گنے جانا

کس لیے نیند میں جیئے جانا

…………

اے مرے دوستو بھلے لوگو

آؤ بیٹھو مکالمہ کرکے

ایک دوجے کی خوبیاں جانیں

جس رعائت کے آ پ طالب ہوں

دوسروں کو بھی وہ عطا کردیں

جس معافی کو اپنا حق سمجھیں

دائرہ اُس کا، کچھ بڑا کردیں

…………

نظر انداز کرنا چاہیں تو

کسی سائے کو راستہ نہ ملے

کوئی سچ مچ کا مسئلہ نہ ملے

…………

مِل کے جینا جو سیکھ لیں ہم تم

کوئی دیوار راہ میں نہ رہے

کوئی بیگانگی کا سایا تک

دل میں اور دل کی چاہ میں نہ رہے

اے مرے دوستو، بھلے لوگو