اس پی ایس ایل میں کوئٹہ گلیڈایٹر کو سپورٹ کر رہا تھا۔ سعود شکیل کی کپتانی اور بعض نوجوان کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی سبب بنی۔ حسن نواز کی جارحانہ بیٹنگ، ابرار کی عمدہ باولنگ، خرم شہزاد کو مواقع دینا، عثمان طارق کی باولنگ نے ایک بار پھر حیران کیا، اعتراض لگنے اور کلیئر ہونے کےبعد اس نے کل پھر متاثر کیا، خاص کر اپنی چند کیرم گیندوں سے۔
لاہور قلندر کے لئے بھی سافٹ کارنر رہا لاہوری ہونے کےناتے۔ تاہم شاہین آفریدی کےشوخے پن نے پچھلے کچھ عرصہ سے متنفر کر رکھا ہے۔
کل کے فائنل میچ میں یہ خیال تھا کہ کس کے لئےدعا کی جائے۔ گومگو میں رہا اور جھکاو گلیڈایٹر کی طرف تھا۔
آخری اوورز میں امپائرنگ کے بعض فیصلے قلندر کےخلاف گئے، نجانے کیوں؟ خرم شہزاد کی ایک یقینی وائیڈ بال کو وائیڈ قرار نہ دینا صرف غلطی نہیں بلکہ ایک طرح کا جرم ہی تھا۔ دنیا کا کوئی بھی امپائر ایسی غلطی نہیں کر سکتا۔ پی سی بی کو اب اس کی تحقیق کرانی چاہیے کہ ایک سو فی صد وائیڈ بال کو میچ کے انتہائی اہم لمحات میں کیوں وائیڈ نہیں دیاگیا۔
تب مجھے احساس ہوا کہ کوئی ایسا ہے جو کوئٹہ کو غیر ضروری طور پر فیور دے کر جتوانا چاہتا ہے۔ تب دل و جاں سے دعا کرتا رہا کہ قلندر جیتے۔
ایک فیکٹر پاکستانی تاریخ کے شوخے ترین باولر محمد عامر کا بھی ہے، یہ ایسا باولر ہےکہ اگر پاکستانی نیشنل ٹیم کی طرف سےکھیلے تب بھی جی چاہتا ہےکہ پاکستان جیت جائے مگر اس کی خوب پٹائی ہو۔ کل بڑی خوشی ہوئی جب کوسل پریرا نے اسے شاندار چھکا اور چوکا لگایا، اس سے پہلے سکندر رضا نے اسے چوکے لگائے۔ محمد عامر حسب معمول، حسب توقع مشکل آزمائش میں ناکام رہا اور سکینڈ لاسٹ اوور اچھا نہیں کرا سکا۔ اگر وہ آخری دو گیندوں پر دس رنز نہ دیتا۔ چھ سات رنز اور ہوتے تو شائد کوئٹہ ٹارگٹ کا دفاع کر لیتا۔ فہیم اشرف کی باولنگ بری نہیں تھا، سکندر رضا ہی کمال دکھانے آیا تھا۔
خیر خوب ہوا۔ لاہور قلندر جیت گیا۔ جشن زبردست تھا۔ فائنل میچ بہت اچھا ہوا، کلوز اور سخت مقابلے والا۔ ایسے لیگ میچز کم ہی ہوتےہیں۔
پی ایس ایل کامیابی سے منعقد کرانے پر پی سی بی اور چیئرمین بورڈ کو مبارک باد۔ اللہ نے کرم کیا اور کوئی دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہوا۔ اچھی بات یہ کہ کئی غیر ملکی کرکٹر جنگ کے بعد واپس آئے اور اپنے میچز کھیلے۔ یہ قابل تعریف امر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معیار کے اعتبار سے پی ایس ایل آئی پی ایل سے کم نہیں۔ اگرچہ وہاں پیسہ بہت زیادہ ہے، اسی لئے دنیا کے تمام نامور کھلاڑی وہاں کھیلتے ہیں، مگر پاکستانی لیگ میں بھی اچھے کھلاڑی تھے، مقابلے اچھے ہوئے اور اس بار تو مختلف شہروں میں مختلف پچز تھیں تو بلے باز اور باولرز سب اچھی طرح ٹیسٹ اور ایکسپوز بھی ہوئے۔ بہت خوب۔ یہی کوالٹی کرکٹ ہے۔
زندہ باد پاکستان۔ زندہ باد پاکستان عوام۔ جنہوں نے اپنے لوکل برانڈ کو پروموٹ کیا اور بائیکاٹ کےبیکار اور غیر منطقی نعرے کو بری طرح رد کر دیا۔