Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. Central Punjab, Kya N League Ka Sahar Toot Raha Hai?

Central Punjab, Kya N League Ka Sahar Toot Raha Hai?

سوال سادہ مگر اہم ہے، سیاسی حرکیات (dynamics)میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ کیا ن لیگ کا اپنی پاور پاکٹس میں موجود سحر ٹوٹ رہا ہے؟ ان کا وہ جادو جس کے بل بوتے پریہ جماعت پچھلے کئی الیکشنوں سے نشستیں جیتی چلی آ رہی ہے، کیا وہ فسوں اب ہوا میں تحلیل ہوگیا؟ اس سوال کا جواب ہر ایک کو اپنی معلومات، تجزیے یا پسند نا پسند کی بنیاد پر دے گا، حقیقت مگر کیا ہے؟

اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں معروف اینکر عبدالرئوف صاحب نے یہ سوال پوچھا تو مجھے لگا کہ ہاں یا ناں میں جواب دینے کے بجائے مکمل بات کی جائے۔ یہ تو اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن کی اپنے مضبوط مستقر میں پوزیشن کچھ کمزور ہوئی ہے، پیروں تلے سے ریت سرکنے لگی ہے۔ ڈسکہ الیکشن ن لیگ نے جیتا، انہی کی چھوڑی ہوئی سیٹ تھی۔ وہاں سے ایک بہت مقبول سابق امیدوارجس نے کئی الیکشن جیت رکھے تھے، ان کے انتقال کے بعد مرحوم کی صاحبزادی الیکشن لڑ رہی تھی۔ ہمدردی کا عنصر تھا اور والد کے پورے سیاسی دھڑے کی حمایت بھی۔ ن لیگ کی جیت متوقع تھی مگر تحریک انصاف کے امیدوار نے خاصی اچھی کارکردگی دکھائی۔ محسوس ہوا کہ اگرتھوڑی اور محنت کی جاتی، مقامی سطح پر جوڑ توڑ ہوتا تو شائد سیٹ چھین لی جاتی۔ یہ تاثر پیدا کرنا ہی تحریک انصاف کی کامیابی تھی۔

سیالکوٹ میں اسی سمت میں کوشش اور محنت کی گئی تو وریو خاندان جیسے طاقتور الیکٹ ایبل دھڑے سے ان کی اپنی سیٹ چھین لی گئی۔ یہ ن لیگ کی بری شکست ہے اور تحریک انصاف کی اہم کامیابی، مگر اس سے زیادہ یہ حکمران جماعت کے لئے آئندہ الیکشن میں ایساسیاسی کرشمہ کر دکھانے کی امید بھی دکھاتی ہے۔

پنجاب کی دیہی سیاست میں دھڑے اہم ہیں۔ دھڑوں کے گرد سیاست گھومتی ہے۔ شخصیات ان کی قیادت کرتی ہیں، جہاں وہ جائیں پورا دھڑا ادھر ہی جاتا ہے۔ اسی وجہ سے کئی الیکٹ ایبلز کے بارے میں ہم پڑھتے ہیں کہ اس نے تین مسلسل الیکشن تین مختلف جماعتوں سے لڑے اور تینوں جیت لئے۔ یہ دھڑے کی جیت ہوتی ہے۔ دیہی سیاست میں یہ اہم ہیں۔ بڑے دھڑوں کے ساتھ چھوٹے دھڑے یا گروپ بھی یونین کونسل سطح پر اپنا وجودرکھتے ہیں، انہیں ساتھ ملانا ہی وہ مقامی سطح کا جوڑ توڑ ہے جو فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے۔

یہ تین چارفیکٹرز بن گئے، اچھا طاقتورامیدوار جو الیکٹ ایبل یا نیم الیکٹ ایبل ہو، پیسہ خرچ کرنے کا حوصلہ ہو، مقامی سطح پر مضبوط فعال دھڑا اور پھر حلقے میں نچلی سطح تک کئے گئے جوڑ توڑ۔ ان کے ساتھ ایک اور بڑا اہم فیکٹرسیاسی جماعت کا ووٹ بینک ہے۔ تگڑے امیدوار اس پارٹی کا ٹکٹ لینے میں دلچسپی رکھتے ہیں، جس کے پاس سیاسی کارکن ہوں اور بیس تیس ہزار کا ووٹ بینک بھی، اس کے ساتھ اس کی لہر بھی ہوجسے عوامی زبان میں ہوا چلنا کہتے ہیں۔ ایک عنصر اور بھی ہے کہ وہ جماعت اقتدار میں آنے کا پوٹینشل رکھتی ہو، سیاسی حالات اس کے حق میں ہوں اور عام ووٹر کو معلوم ہو کہ اس پارٹی کے امیدوار کو ڈالا جانے والا ووٹ ضائع نہیں ہوگا۔ ان پانچ چھ نکات پر مشتمل وہ جادوئی نسخہ ہے جو فتح سے ہمکنار کرتا ہے۔ ان میں سے کوئی ایک آدھ چیز مس ہوجائے تو مشکل ہوسکتی ہے۔

پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ن کو ایک بڑا ڈس ایڈوانٹیج حاصل ہوچکا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعت ہے اورر سردست اس کے اقتدار میں آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مریم نواز شریف کا بیانیہ اور شعلہ بیانی جاری رہی تو یہ چانسز زیرو سے بھی کم ہوجائیں گے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ن لیگی امیدوار کو زیادہ محنت، کوشش اور جدوجہد کرنا ہوگی۔ مسلم لیگ ن کو دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ان میں اتنشار اور خلفشار کاتاثر واضح ہے۔ ہر ایک کو نظر آ رہا ہے کہ مریم نواز نے اپنے چچا شہباز شریف کو آزاد کشمیر کے الیکشن سے باہر رکھا، وہ حمزہ شہباز کو بھی کارنر کرنا چاہ رہی ہیں حالانکہ حمزہ کئی ضمنی انتخابات ن لیگ کو جتوا چکے ہیں۔ اس طرح کی گروپنگ کا بھی جماعت کو نقصان پہنچتا ہے۔

بدقسمتی سے مسلم لیگ ن میں یہ اختلافات جلد ختم ہوتے نظر نہیں آرہے۔ ان کی نوعیت دائمی اور دیرپا ہے۔ دراصل یہ سوچ، فکر اور ویژن کا بنیادی اختلاف ہے۔ شہباز شریف جس انداز کی سیاست کرنا چاہتے ہیں، مریم نواز اسے بزدلی، کمزوری اور غلط سمجھتی ہیں۔ فیصلہ کن قوت نواز شریف کے ہاتھ میں ہے، مگر وہ باہر بیٹھے ہونے کی وجہ سے کئی معاملات میں اتنے موثر ثابت نہیں ہو پا رہے۔ اگر کوئی سیاسی کرشمہ گری نہ دکھائی گئی تو اگلے عام انتخابات کے موقعہ پر یہ اختلافات بڑھیں گے اور امکان ہے کہ ان لیگ کی پارٹی ٹکٹوں میں خاصا شورمچے۔ اگر ایسا ہوا تو تحریک انصاف کو 2028تک حکومت کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

تحریک انصاف نے دو تین سیاسی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سب سے بڑی یہ کہ وہ اب پنجاب کی سیاست میں ایک مستقل پوٹینشل پارٹی کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ ن لیگ اور ان کے ہمنوا جو مرضی کہیں، عمران خان سیاسی عصبیت حاصل کر چکے ہیں۔ ووٹروں کا ایک بڑا حلقہ ان کے گرد جمع ہے اور جلد اس کے چھٹ جانے کا امکان نہیں۔ جیتنے اور اقتدار میں آنے کا تاثر بڑا اہم ہوتا ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کا یہ تاثر زیادہ مستحکم نہیں تھا، ن لیگ نے کامیابی سے یہ تصور راسخ کر دیا تھا کہ پنجاب ان کا ہی ہے۔ تب کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ وزیراعظم نہیں بنائے گی، یہ مینج ایبل نہیں ہے۔ کچھ کے خیال میں عمران کے ساتھ میاں اظہر والا حال ہوگا اور شاہ محمود قریشی یا کوئی اور زیادہ سعادت مند تاج پہنے گا، بعض اشارے جیپ کے پراسرار نشان پر ٹکٹ لڑنے والے گروپ کے حق میں تھے، چودھری نثار اور ان کے چند ہم نوا اس امید میں تھے کہ وہ میدان مار لیں گے۔ اب یہ تمام افواہیں، مفروضے چھٹ چکے ہیں۔ عمران خان تین سال سے وزیراعظم ہے اور امکان یہی ہے کہ اپنی مدت مکمل کر کے الیکشن کرائے۔

عمران نے جو جادوئی چھڑی ہلا کر کرشمے دکھانے کے وعدے کئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے اور عمران کے کچھ پرجوش حامی مایوس بھی ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اتنا جلد عمران خان کے حامی ووٹر اس سے منہ موڑ کر ن لیگ کار خ نہیں کر سکتے۔ ایسا اگر ہوا بھی تو پانچ سات برسوں بعد ہوگا۔ اگلے انتخابات میں دیہی، شہری پنجاب کی سیاست کے دو اہم دھڑوں میں سے ایک تحریک انصاف ہی ہوگی۔ اگر عمران خان باقی ماندہ دو برسوں میں کچھ ڈیلیور کر گیا، خاص کر مہنگائی کی سطح میں کمی آ گئی تو پھر وہ آسانی سے میدان مار لے گا، دوسری صورت میں اچھا مقابلہ ہوگا۔

تحریک انصاف بہرحال سنٹرل پنجاب میں ن لیگ کے مضبوط قلعے گرانے، ان میں شگاف ڈالنے کی پوزیشن میں آ چکی ہے۔ اس کے پاس اچھے امیدوار، سیاسی دھڑے، مقامی جوڑ توڑ کی محنت کرنے والے رہنما بھی ہیں۔ پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے یا اقتدار میں آنے کے زیادہ امکانات ہونے کا تاثر بھی اس کے حق میں ہے۔ انہیں بس اپنے حق میں لہرپیدا کرنے یا ہوا چلانے کی ضرورت ہے اور یہ دعا کہ مریم نواز اپنے بیانئے کے ساتھ فعال رہیں اور چچا کے ساتھ یوں ٹکرائو جاری رہے۔ اس سے زیادہ اور کیا چاہا جا سکتا ہے؟

دو دن پہلے جناب سجاد میر نے اپنے کالم میں آزاد کشمیر کے الیکشن کا تجزیہ کیا۔ اس میں انہوں نے ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا کہ یہ تاثر کہ کشمیری ہمیشہ اسلام آباد میں حکمران جماعت کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں، اس کے اندر منفی عنصر پوشیدہ ہے کہ اسلام آباد نے آزاد کشمیروالوں کو کبھی وسائل اور اختیار نہیں دئیے۔ یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے، مگر میرے خیال میں آزاد کشمیر کے انتخابات کو اتنی سادگی سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ ایسا نہیں ہوا کہ الیکشن والے دن کشمیری باہر نکلے اور آنکھیں بند کر کے اسلام آباد میں حکمران جماعت کے امیدوار پر ٹھپا لگا دیا۔ ایسا نہیں ہوا۔ تحریک انصاف نے زیادہ نشستیں لیں، مگر کئی حلقوں میں انہیں کڑے مقابلے کا سامنا کرنا پڑا اور بمشکل چند سو ووٹوں یا ہزار دو ہزار سے وہ جیتے۔

تحریک انصاف کوکشمیر الیکشن جیتنے کے لئے پورا زور لگانا پڑا۔ کئی جگہوں پر تگڑے امیدوار باقاعدہ کوشش کر کے شامل کئے، مقامی سطح پر جوڑ توڑ ہوئے، ان کے امیدواروں نے خاصا سرمایہ خرچ کیا۔ ایک ایک سیٹ کے لئے جان لڑانا پڑی، پھر جا کرمیدان مار پائے۔ یہ البتہ حقیقت ہے کہ مریم نواز کا بیانیہ موثر نہیں رہا۔ ووٹروں کی بڑی تعداد نے اسے درخوراعتنا نہیں سمجھا۔ ن لیگی کی سیاسی کمپین ہی غلط ڈیزائن ہوئی، اس کا بھی انہیں نقصان ہوا۔ یہی بلاول نے غلطی کی۔ مریم نواز اور بلاول دونوں عمران خان کو کشمیر فروش ثابت کرنا چاہتے تھے، یہ بے بنیاد اور غلط بات تھی، کشمیریوں نے اسے رد کر دیا۔ دونوں جماعتوں کو اس سے سیکھنا چاہیے اور آئندہ بہتر حکمت عملی بنانی چاہیے۔ پی ٹی آئی کو آزاد کشمیر اور سیالکوٹ جیت سے سیاسی تقویت ملی ہے، مگر اسے اپنا ٹمپو برقرار رکھنا ہوگا۔ ن لیگ کو کچھ نیا کرنا ہوگا، ورنہ مٹھی سے ریت پھسلتی جا رہی ہے۔