Friday, 19 September 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Amir Khakwani
  4. America Ke Jawab Mein Irani Hamla

America Ke Jawab Mein Irani Hamla

جس کی توقع تھی وہی ہوا۔ ایران نے اپنے نیوکلیئر اڈوں پر امریکی بمباری کے جواب میں قطر اور عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل حملے کئے ہیں۔ بحرین، کویت میں بھی سائرن بج رہے ہیں، مگر حملہ رپورٹ نہیں ہوا۔ شام میں بھی دھماکوں کی اطلاعات تو ملی ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اپنی ایئر سپیس بند کر دی ہے، شائد انہیں بھی خطرہ ہے۔

سب سے اہم اور نمایاں حملہ قطر میں امریکی اڈے العدید پر ہوا ہے۔ یاد رہے کہ مڈل ایسٹ کے کسی ملک میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ دوہہ، قطر ہی میں ہے۔ وہاں ایران نے چھ بیلاسٹک میزائل داغے، قطر کا دعویٰ ہے کہ اس کے دفاعی نظام نے وہ تمام میزائل ہوا ہی میں تباہ کر دئیے۔

ایران کا یہ حملہ شائد علامتی ہو، کیونکہ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا دعویٰ ہے کہ ایران نے حملے سے قبل قطر کو اطلاع دے دی تھی، امریکی اڈہ خالی تھا، اس لئے جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایران نے حملہ کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ ہم برادر ملک قطر یا ان کے شہریوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، یہ حملہ امریکی اڈے پر ہےجو کہ شہر سے باہر ہے اور شہریوں سے دور ہونے کی وجہ سے خطرہ نہیں۔ تاہم قطر نے اس کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم مناسب جواب دینے کا حق رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے قطر کے ساتھ یک جہتی کا اعلان کیا ہے۔

یوں لگ رہا ہے کہ ایران نے اپنے نیوکلیر اڈوں پر امریکی بمباری کا آفیشل جواب دے دیا ہے اور دانستہ اسے زیادہ شدید نہیں رکھا۔ کیونکہ ایرانی ہائپر سونک میزائلوں کو اسرائیل کے جدید ترین دفاعی نظام بھی نہیں روک پائے تو قطر کے بس میں بھی نہیں تھا، لگتا ہے یہاں نسبتاً ہلکے میزائل داغے گئے۔

بہرحال یہ ایک خطرناک موو ہے۔ اس سے جنگ کا دائرہ بڑھ سکتا ہے، جو عرب ممالک برائے نام ہی سہی، ایران کی سفارتی حمایت کر رہے تھے، اب وہ بھی مخالفت پر مجبور ہوجائیں گے۔ تاہم ایران کے پاس بھی کم آپشنز بچی تھیں۔ جو کچھ ایران کے ساتھ کیا جا رہا ہے، وہ بھی انتہائی حد کا ہے تو ایرانی ردعمل بھی انتہائی حد کا ہی ہوگا۔

اس حملے میں بہرحال شیعہ سنی پہلو ڈھونڈنا تو پرلے درجے کی حماقت ہی ہے۔ ایران نے واضح طور پر امریکی اڈوں ہی کو نشانہ بنایا ہے، اس نے قطر یا عراق یا کسی دوسرے عرب ملک کے شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کیا ردعمل دیتا ہے؟ اگر امریکی کچھ تحمل سے کام لیں تو عین ممکن ہے کہ اس آفیشل جواب کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہوجائے اور ایران کسی ڈیل کی طرف چلا جائے۔

امریکہ اگر جواب میں ایران کو پھر سے بمباری کا نشانہ بناتا ہے، رہبر انقلاب علی خامنائی صاحب کو ہٹ کرنے کی کوشش کرے اور اگر کوئی بڑا نقصان ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ایرانی ردعمل بھی پھر شدید اور تباہ کن ہوسکتا ہے۔ ایرانی اگر خود ڈوبنے لگے ہیں تو پھر وہ اپنے آس پاس کی ہر چیز ڈبو سکتے ہیں۔ پھر عین ممکن ہے ایران آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش کرے۔

دیکھیں کیا بنتا ہے۔ کل تک صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ایران نے یہ اقدام ایرانی وزیرخارجہ کی روسی قیادت سے ملاقاتوں کے بعد کیا ہے۔ روس کی جانب سے ایران کی حمایت کا اعلان بھی دلچسپ ہے۔ روسی صدر پوٹن نے کہا ہے کہ ایران جو مدد چاہے گا ہم دیں گے، بے شک وہ ایس چار سو اینٹی میزائل سسٹم مانگے یا کچھ اور۔

آگ بہرحال بھڑک اٹھی ہے، اب اس پر مزید تیل چھڑکا جائے گا یا فریقین اسے بجھانے کی کوشش کریں گے۔ یہ کل یعنی منگل کے دن تک واضح ہوجائے گا۔