یہ لاہور کا ایک روایتی گرم، تپتا دن تھا۔ سفر بھی اچھا خاصا تھا۔ ہم شاہدرہ سے آگے رانا ٹاون سے ملحقہ عابد ٹاون جا رہے تھے۔ پختہ سڑک سے گاڑی نے موڑ لیا اور پھر اگلے تین کلومیٹر تک ہم ہچکولے لیتے کچے راستے پر رواں دواں رہے۔ حیرت سے میں نے سوچا، یاخدا، یہ کس جگہ پر ہم آ گئے؟ یہاں ایسی دورافتادہ جگہ پر کیا ہوسکتا ہے؟ پھر سفر تمام ہوا، یہ "الکتاب سکول" تھا۔ معروف چیریٹی ادارے ہیلپ لائن کا آئیکون پراجیکٹ۔
کئی ایکڑ زمین پر پھیلے ہوئے اس شاندار سکول کو دیکھنا ایک منفرد اور کبھی نہ بھولنے والا تجربہ ہے۔ نہایت پسماندہ علاقہ، جہاں چند سال پہلے ایک خستہ حال مرغی خانہ تھا۔ آج نہایت ٹوٹے پھوٹے راستے پر سفر کے بعد جب الکتاب سکول پہنچے تو اس کی سرسبز اور گل وگلزار بنی عمارت دیکھ کر آدمی مبہوت رہ جاتا ہے۔
کوئی اندازہ بھی نہیں لگا سکتا کہ یہاں ایسا بہترین سکول ہوگا جس میں گیارہ سو کے قریب طلبہ مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ طلبہ کی اردو، انگریزی اور عربی میں استعداد پیدا کی جائے۔ بچوں کو سیرت النبیﷺکے منور، مشکبار اسباق ذہن نشین کرائے جائیں۔ تحریر اور تقریر کی بہترین صلاحیتیں پیدا کی جائیں۔
ایک پورا پلان ہے کہ کس طرح پہلے مرحلے پر ہر بچہ والنٹیئر بنے، پھر وہ بوائے سکاوٹ ہو، اس کے بعد وہ کمیونٹی کیڈٹ اور قرآن کیڈٹ بنے۔ بچوں کو تعلیم کے ساتھ کاشت کاری اور دیگر فنون سکھائے جائیں اور انہیں فہم قرآن اور فہم سیرت کی طرف لایا جائے۔ ان میں اس حوالے سے ذوق شوق اور جذبہ پیدا ہواور پھر انعامات دے کر حوصلہ افزائی کی جائے۔
الکتاب سکول کا پراجیکٹ بذات خود ایک ایقان افروزداستان ہے۔ ایک صاحبِ خیر نے اپنا پلاٹ ہیلپ لائن کے روح رواں میاں اخلاق الرحمن کو عطیہ کیا۔ فیصلہ ہوا کہ سکول بنایا جائے، ایسا جو قدیم وجدید تعلیم کا مرقع ہو، جہاں انگریزی، اردو، عربی سکھائی پڑھائی جائے، قرآن اور سیرت سے محبت کرنے والی نئی نسل تیار ہو۔ میاں اخلاق الرحمن کو ان کے ایک جاننے والے نے رانا ٹاون سے قریب عابد ٹائون کی اس زمین کی نشاندہی کی۔ یہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ علاقہ بہت پسماندہ ہے، پختہ سڑک تک موجود نہیں، جرائم عام ہیں، بچوں کو سکول بھیجنے کا کوئی تصور نہیں۔ ہر ایک نے مشورہ دیا کہ یہاں وقت اور توانائی ضائع نہ ضائع کریں۔ اخلاق صاحب نے کہا کہ ایسی جگہ پر تو کام کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
آج یہاں لڑکیوں کے لئے ووکیشنل ٹریننگ کا انتظام بھی ہے۔ آٹسٹک بچوں کے لئے ایک الگ سے شعبہ بنا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ نادار طلبہ کے خاندانوں کے لئے بھی سوچا گیا۔ کئی سو خاندان رجسٹرڈ کئے گئے، انہیں راشن فراہم ہو رہا ہے۔ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے دیگر پراجیکٹس پر کام جاری ہے۔ ناقابل یقین بات لگتی ہے کہ تیسری چوتھی کلاس کا بچہ قرآن کا معلم بن جائے، وہ پرسوز لحن کے ساتھ تلاوت کرے اور قرآن کے معجزے کو دلکشی سے بیان کرے۔ جرمن ادارے ہینکل کے ساوتھ ایشیا کے ڈائریکٹرنے یہاں کا وزٹ کیا تو اتنا متاثر ہوا کہ وہ اب سال میں دو بار یہاں ان بچوں سے ملنے آتا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ الکتاب سکول کے اندر جو گرینڈ مسجد بن رہی ہے، اس کی بیسمنٹ میں چھوٹے بچوں کے لئے عالمی معیار کے مطابق آرام دہ انداز میں تعلیم وتربیت کا پورا پروگرام طے پا چکا ہے۔ جاپانی سکولوں کی طرز کی کرسیاں تیار ہو رہی ہیں جو پیچھے کرنے سے ایزی چئیرزبن جائیں گی۔ پرائمری کلاسز کے ننھے بچے کلاسوں کے درمیان وقفے میں سکون سے نیم دراز ہو کر کچھ وقت کے لئے سو بھی سکتے ہیں۔
الکتاب سکول کا خواب دیکھنے اور اسے عملی جامہ پہنانے والوں میں ممتاز صحافی، ایڈیٹر جناب مجیب الرحمن شامی سرفہرست ہیں، وہ اس ادارے کے بانیوں میں سے ہیں۔ ہیلپ لائن کے سیکرٹری جنرل میاں اخلاق الرحمن الکتاب سکول اورہیلپ لائن کے دیگر پراجیکٹس کی کامیابی کا کریڈٹ شامی صاحب کو دیتے ہیں جو ابتدا ہی سے نیکی کے ان تمام کاموں کے ساتھ چل رہے ہیں، آگے بڑھنے کے راستے نکالتے اور اسباب مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اخلاق صاحب کا کہنا ہے کہ الکتاب سکول آج جس جگہ پہنچا ہے، وہ شامی صاحب کی عملی مدد کے بغیر ناممکن تھا۔ اظہار گروپ کی میڈم لبنیٰ یعقوب طاہر الکتاب سکول کی چیئرپرسن ہیں، سکول کی اعلیٰ تعلیمی کارکردگی میں ان کی کاوشوں کا بھی اہم کردار بتایا جاتا ہے۔ میاں اخلاق الرحمن کمال کے آدمی ہیں۔ خدمت خلق ان کی زندگی کا محور ہے۔ میاں صاحب کے نزدیک زندگی سنوارنے کا شاندار حل مواخات مدینہ ہے۔ مواخات مدینہ پر اس زاویہ نظر سے کبھی غور نہیں کیا تھا۔
اخلاق الرحمن صاحب سے میری پندرہ سولہ سال قبل ملاقاتیں رہی تھیں۔ تب کسی نے ان کی تنظیم کے کار ہائے خیر سے آگاہ کیا تھا۔ اخلاق صاحب سے ملے اور ان کا انٹرویو بھی چھاپا۔ وقت تیزرفتاری سے آگے بڑھ گیا، صحافت کی وادی پرخار، مصروفیت ایسی متنوع کہ بہت سے رابطے چھوٹ گئے۔ کچھ عرصہ قبل میاں اخلاق الرحمن سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اب وہ ستر کے پیٹے میں آ گئے۔ قویٰ مضمحل ہوئے ہوں گے، مگر ارادے اور عزم پہلے کی طرح آہنی۔ انہوں نے بتایا کہ ہیلپ لائن کا اب فوکس تعلیم پر ہے کہ نئی نسل کی بہترین تعلیم وتربیت کا طریقہ سیرت کے اصولوں کے مطابق کردار سازی کرنا ہے۔ سماج بدلنے کے لئے فرد کو بدلنا ہوگا اور اس کی ابتدا نئی نسل سے ہوسکتی ہے۔ ہیلپ لائن اس وقت کئی مفت تعلیم کے ادارے چلا رہی ہے، مناواں میں ایک ہائی سکول جس کے تعلیمی نتائج شاندار ہیں، گوجرہ میں تین سکول، نواب شاہ، سندھ میں کئی گرلز اور بوائز سکولز جن میں کئی ہزار بچے زیرتعلیم ہیں۔ اخلاق الرحمن صاحب تیس برسوں سے یہکام کر رہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی اس تنظیم میں انہوں نے کوئی ایسا انتظامی عہدہ نہیں لیا جس کے پاس مالی اختیار ہو۔ وہ عطیات جمع کرتے ہیں، مگر کسی کو ایک روپیہ دینے کا اختیار اپنے پاس نہیں رکھا۔ میاں اخلاق الرحمن سے میں نے پوچھا کہ آپ خود کہتے ہیں کہ میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں، ہمت کم ہوگئی، کیا یہ پراجیکٹ آپ کے سامنے مکمل ہوجائے گا؟ اخلاق صاحب نے ترنت جواب دیا" سیرت مبارکہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کو اپنی سی پوری کوشش کرنی چاہیے، نتائج اس کے ذمے نہیں۔ کام رب نے کرنا ہے، برکت بھی اسی نے ڈالنی ہے، قبولیت بھی وہیں سے ہوگی۔ ہمارا کام تو ارادہ کرنا اور اس کے لئے ہر ممکن جتن کرنا ہے۔ خیر کے کام میں شامل ہونا، اس کے لئے جان لڑانا، حتیٰ کہ اس کے لئے سوچنا بھی نیکی اور سعادت ہے"۔
لاہور کی تپتی سہ پہر میں ہیلپ لائن کے دفتر سے باہر نکلتے ہوئے میں نے سوچا، ان لوگوں کی خوش نصیبی کے کیا کہنے جو خدمت خلق میں جتے ہیں، اس دنیا کو خوبصورت اور جینے کے قابل بنانا جن کا مشن ہے۔ نئی نسل کی کردار سازی جن کا ہدف ہے۔ یہی لوگ امید اور روشنی کا جگمگاتا استعارہ ہیں۔ تعریف، سپورٹ اور تقلید کے مستحق۔