Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Amir Khakwani/
  3. 5 July 77, Baaz Sawal Jo Abhi Tak Tishna Hain (1)

5 July 77, Baaz Sawal Jo Abhi Tak Tishna Hain (1)

آج پانچ جولائی ہے۔ چھیالیس سال پہلے اسی دن ملک میں مارشل لاء لگایا گیا۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مسلح فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھال لی، اگلے گیارہ برسوں تک وہ ملک پر حکمران رہے، حتیٰ کہ ایک پراسرار فضائی حادثے میں کئی اعلیٰ فوجی افسروں سمیت ہلاک ہوگئے۔

جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کے حوالے سے مختلف ادوار میں مختلف آرا پائی جاتی رہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے سکول کالج کے زمانے میں اور اس کے چند برس بعد تک جنرل ضیا کا حامی ایک اچھا خاصا بڑا حلقہ موجود تھا، جس کے پاس جنرل ضیا کے مارشل لا کے دفاع میں کچھ نہ کچھ دلائل بھی ہوتے۔ بتدریج یہ صورتحال تبدیل ہوتی گئی۔ جنرل مشرف کے مارشل لا نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا، جن لوگوں میں عسکری مداخلت اور ڈکٹیٹروں کے لئے کچھ رومانویت آمیز دلچسپی موجود تھی، خاص کر مذہبی حلقوں میں، وہ سب مشرف دور میں تحلیل ہوگئی۔

آج یہ صورتحال ہے کہ مارشل لاء کے حوالے سے ایک واضح اور یکسو قسم کا اجتماعی منفی ردعمل موجود ہے۔ جنرل ضیا کے مارشل لا اور ان کے دور حکومت کو مجموعی طور پر رد کیا گیا، یہی سلوک جنرل مشرف کے ساتھ بھی روا رکھا گیا۔ کسی کو اچھا لگے یا برا، یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیا اپنی بعض شخصی خوبیوں اور صفات کے باوجود اپنے مجموعی کردار کے بل بوتے پر تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ ہی بنے ہیں۔ جنرل مشرف کو البتہ یہ" امتیاز" حاصل ہے کہ ان کے حصے میں کوڑے دان کا زیادہ نچلا اور گندا حصہ آیا۔

میری ذاتی رائے میں دو تین باتوں پر اب اجماع کی سی صورتحال بن چکی ہے، ہماری اجتماعی قومی دانش اس پر یکسو ہوچکی۔ یہ کہ ملک میں مارشل لا نہیں آنا چاہیے، یہ ہر حال میں قوم کے لئے تباہ کن اور مضر ہے۔ پاکستان میں آنے والے تمام فوجی ڈکٹیٹروں نے مجموعی طور پر ملک وقوم کو نقصان زیادہ پہنچایا ہے۔ ان کے ادوار میں کچھ اچھے کام ہوئے یا ملکی ترقی ہوئی تب بھی آخری تجزیے میں انکے نقصانات زیادہ گہرے اور تباہ کن رہے۔

تیسرا یہ کہ سیاسی ڈیڈلاک پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی صورتحال ہرگز نہ آئے کہ ایک فریق اپنے سروائیول کے لئے عسکری قیادت کی جانب دیکھنے اور ان سے سازباز کرنے پر مجبور ہوجائے۔ خیر ہمارا اصل موضوع یہ ہے کہ پانچ جولائی 1977ء کے حوالے سے بعض سوالات ایسے ہیں جوہنوز تشنہ ہیں۔ ان کے جواب ابھی ملنا باقی ہیں۔

ان میں سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا کیوں لگایا؟ کیا واقعی چار اور پانچ جولائی 77کی درمیانی رات حکومت اور پی این اے کے مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے اور ایک حتمی معاہدہ طے پا گیا تھا، اگلی صبح اعلان ہوجاناتھا، مگر نصف شب کو جنرل ضیا نے شب خون مار کر تختہ الٹ دیا۔ کیا یہ بات درست تھی؟

کیا واقعی بھٹو صاحب جنرل ضیا کو ہٹانا چاہتے تھے، کوئی اور چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرنے کے خواہش مند تھے، مگر جنرل ضیا نے انہیں اس کا موقعہ ہی نہیں دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مختلف فریق اس حوالے سے مختلف موقف رکھتے ہیں۔ ہر ایک کی بات دوسرے کے متضاد اور انتہائی مختلف ہے۔

پانچ جولائی 77اور جنرل ضیا کے مجموعی دور حکومت کے حوالے سے زیادہ مواد نہیں لکھا گیا، چند ایک کتابیں ہیں اور بعض تواریخ کی کتب میں شامل ابواب۔ ہمارے ریٹائرجرنیلوں میں کتابیں لکھنے کا رواج نہیں یا شائدا نہیں اجازت نہیں ملتی۔ مغرب میں اور خود ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں صورتحال مختلف ہے۔ وہاں اس طرح کے ادوار پر بہت سی کتب مل جاتی ہیں، جن سے تاریخ کے مسنگ لنک مل جاتے ہیں، کڑیاں جوڑنے میں آسانی رہتی ہے۔ جنرل ضیا کے مارشل لا کے حوالے سے دو اہم کتابیں ان کے کئی برسوں تک چیف آف سٹاف رہنے والے جنرل کے ایم عارف کی ہیں، جنرل ضیا کے ہمراہ (ورکنگ ودھ ضیا)اور خاکی سائے(ملٹری شیڈو)۔ یہ دونوں کتب آئوٹ آف پرنٹ تھیں، خوش قسمتی سے کچھ عرصہ قبل علم وعرفان پبلشر، لاہور نے ان کے نئے ایڈیشن چھاپ دئیے ہیں۔

ورکنگ ودھ ضیا کا پہلا ایڈیشن 1996میں شائع ہوا، اس کا اردو ترجمہ کرنل ریٹائر غلام جیلانی نے کیا جو 97 میں چھپا۔ کے ایم عارف صاحب کی کتاب ضیاکی فوجی حکومت کا ایک طرح سے موقف ہے۔ وہ جنرل ضیا کے بہت قریب رہے اور انہوں نے اپنی اس کتاب میں کوشش کی کہ جنرل ضیا کے دور کے حوالے سے بعض غلط فہمیوں اور الزامات کا جواب دیا جائے۔ خاکی سائے میں البتہ جنرل عارف نے ضیا الحق پر تنقید زیادہ کھل کر کی، تاہم اس کتاب میں بھی انہوں نے کئی اہم ایشوز کو کلیئر کیا۔

پانچ جولائی کے مارشل لاء کے حوالے سے ایک موقف مولانا کوثرنیازی کا ہے، جو پیپلزپارٹی پی این اے مذاکرات میں پی پی کی طرف سے شامل تھے، ان کے ساتھ دوسرا دو ارکان خود وزیراعظم بھٹو اور حفیظ پیرزادہ تھے۔ کوثرنیازی کی کتاب" اور لائن کٹ گئی "بھی آج کل آئوٹ آف پرنٹ ہے۔ بھٹو صاحب نے جیل میں لکھی اپنی تصانیف اور سپریم کورٹ کیس میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے اپنا موقف بیان کیا۔ حفیظ پیرزادہ نے کتاب نہیں لکھی، البتہ انٹرویوز وہ دیتے رہے۔ رائو رشید تب آئی بی کے سربراہ تھے، ان کا ایک طویل انٹرویو کتابی شکل میں ممتاز مصنف، محقق منیر احمد منیر نے چھاپا۔ رائو رشید مگر بعد میں پیپلزپارٹی کے اتنے سرگرم اور اہم رہنما بن گئے تھے کہ ان کی بات کی غیر جانبدارانہ حیثیت ختم ہوگئی۔

پی این اے کی تین مذاکراتی کمیٹی کی قیادت مفتی محمود کر رہے تھے، ان کے ساتھ نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفوراحمد شامل تھے۔ مفتی صاحب اپنی گوناگوں مصروفیت کے باعث تصانیف کی طرف متوجہ نہیں ہوسکے۔ نوابزادہ نصراللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت باقاعدگی سے روزنامچہ لکھتے تھے، اپنی ان ڈائریوں کو انہوں نے چھپوایا نہ محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ باقاعدہ تصنیف لکھنے سے بھی گریز کیا۔

پروفیسر غفوراحمد نے البتہ اپنی زندگی کے آخری برسوں میں پاکستانی سیاسی تاریخ پر کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں ایک کتاب جنرل ضیا کے مارشل لاء پر بھی تھی۔ پروفیسر غفور احمد ایک درویش صفت نہایت اعلیٰ کردار کے آدمی تھے، ان کا بے حد احترام ہے۔ ان کے مداحین میری اس بات سے ناخوش ہوں گے، مگر مجھے ایک قاری کے طور پر پروفیسر صاحب کی کتابیں متاثرکن نہیں لگیں۔ ان کا انداز تالیف کا سا تھا، جیسے کسی نے مختلف خبروں کو اکھٹا کرکے چھاپ دیا ہو۔ بہت کچھ وہ بیان کر سکتے تھے، خاص کر تب پی این اے کے اندرونی معاملات، حکومت کے ساتھ مذاکرات کی ان سائیڈ سٹوری وغیرہ۔ کھل کر وہ نہیں لکھا پائے، شائد جماعتی ڈسپلن آڑے آیا ہو یا وضعداری مانع رہی۔

آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم خان نے بھی ایک کتاب لکھی تھی، غالباً مارشل لا سے مارشل لا تک۔ جنرل ضیا کے حوالے سے بعض چیزیں روئیداد خان کی عمدہ کتاب" پاکستان انقلاب کے دھانے پر "میں موجود ہیں، اسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے انگریزی، اردو دونوں میں چھاپا۔ شجاع نواز کی کتاب کراس سورڈز میں بھی پاکستانی تاریخ کے مختلف ادوار کے حوالے سے جھلکیاں ملتی ہیں، یہ کتاب انگریزی میں او یوپی نے جبکہ اردو میں مسٹر بکس اسلام آباد نے چھاپی۔

جنرل ضیا کے قریبی ساتھی جنرل فیض علی چشتی نے بھی کتاب لکھی، جس میں پانچ جولائی کے حوالے سے بعض تفصیلات بیان کیں۔ جنرل غلام جیلانی تب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، کاش وہ کتاب لکھتے تو بہت کچھ سامنے آتا، وہ بعد میں طاقتور گورنر پنجاب رہے، میاں نواز شریف کو انہوں نے صوبائی وزیر بنا کر بریک تھرو دیا تھا۔ غلام اسحاق خان پاکستانی تاریخ کے بہت اہم ادوار کے عینی شائد تھے، مگر اپنی محتاط طبیعت کے باعث انہوں نے کچھ لکھا اور نہ ہی کسی کو انٹرویو دیا۔ (جاری ہے)