Tuesday, 05 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Peshawarana Muhavare 2

Peshawarana Muhavare 2

پھیری لگانا: ایک محنت کش کے لئے پھیری لگا کر گھر والوں کے لئے روزی روٹی کا اہتمام کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن وہ بھی آسانی سے ٹیکس والوں کی نظروں میں آ سکتا ہے۔ اگر وہ نظروں کی بجائے کسی کے ہاتھ چڑھ جائے تو اس پھیری والے کو دفتروں کے پھیرے لگانے پڑتے ہیں اس وقت وہ اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے یہ شعر گنگناتا ہے؎

سفر کا خوف ہو اور ہو گھر بھی رابطے میں
ہوا کیا جو اک اور دریا آئے راستے میں

دوسری طرف مالدار لوگ ٹیکس والوں سے کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ میں اتنا دولت مند تو نہیں ہوں لیکن میرا ایک مہینے کا خرچہ صرف ایک ملین ہے۔ لہذا کہا جاتا ہے کہ کسی دیانت داری کا اندازہ اس کی ٹیکس ریٹرن یا اس کی شیخی سے نہیں لگانا چاہئے کیونکہ اس ریٹرن کی دیو مالائی کہانی کے لکھاری ٹیکس کا نمائندہ اور مالدار دونوں ہی ہوتے ہیں جوسفید دھن کی بجائے دکھ بھری ہوتی ہے یو ں وہ ایک نئی طرح کے معاشی فلاسفر بھی ہوتے ہیں جو سرکار کی ان آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں ہوتے ہیں لیکن وہ بھی ان کی عادی ہوتی ہے؎

چھانی تھی عشق دیاروں میں خاک
جھونکی تم نے ان آنکھوں میں خاک

لہذا مالداروں کو یہ بیماری ہوتی ہے کہ وہ پھیری کی بجائے ہیرا پھیری سے مال آگے پیچھے کرکے ٹیکس دینے سے بچ رہتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں ٹیکس دینے والے ہمیشہ مینارٹیز یا شیڈول کاسٹ میں شمار ہوتے ہیں اور شیڈول کاسٹ کو مظاہرہ کرنے پر جلدی سے اپنا حق بھی مل جاتاہے۔ بیماری اور ٹیکس میں یہ قدر مشترک ہوتی ہے کہ سال میں ایک دفعہ اس کے موسمی اثرات ضرور ہوتے ہیں۔ ٹیکس کی مد میں تمام امراء عالمی آزادی کے خواستگار رہتے ہیں ان کی نظر میں ٹیکس موم کی ناک کی مانند ہونا چاہئے تاکہ اعداد و شمار کو من چاہی شکل دی جا سکے۔ سرکار کے پاس بھی اس دھول کو دھونے کا تجربہ ہوتا ہے اور وہ Non-fouler" "ایک نہ ایک دن "سچ اگل" دیتا ہے اور fouler سے فائلر بن جاتا ہے کیونکہ اسے بار بار اس کا مزید وقت دیا جاتا ہے۔

سچ اگلنا:

ایک عورت نے سچی بات کی کہ وہ دل کی بہت کمزور ہے اس نے جب بھی اپنے خاوند کو سیڑیوں سے گرایا اسے بہت دکھ ہوا۔ اس کا یہ سچ ایک نفسیاتی ڈاکٹر نے اُلٹا فیس لے کے اُگلوایا جب وہ اس کے پاس "علاج سے گئی" اور اسے کہنے لگی ڈاکٹر صاحب میں خود کو ہاتھ کا پنکھا تصور کرتی ہوں۔ ڈاکٹر گویا ہوئے محترمہ ذرا سا جھولیں بجلی گئی ہوئی ہے اور جھولتے ہوئے انہوں نے سچ اُگلا۔ ایک بات اہم ہے کہ جب بھی بندہ جھومتا ہے تو مادری زبان بھول جاتا ہے وہ نہ صرف سچی بات کرتا ہے بلکہ راز بھی اگل دیتا ہے۔

دوسری طرف خبر اور سچ کے درمیان تھوڑا فرق رکھا جاتا ہے ورنہ پھرو ہی ہوتا ہے جو سچ کا حشر معاشرے میں ہوا کرتا ہے۔ ویسے بھی لوگ مطلب کی مقصد کی مضحکہ خیزی بات سننا پسند کرتے ہیں لیکن سچ نہیں۔ کئی دفعہ انسان کسی دوسرے کا سچ سن کر بھی متاثر ہو جاتا ہے اور اپنے سچ کے ساتھ دوسرے کے جھوٹ بھی اگل دیتا ہے۔

ایک تقریب کے دوران وقار مجروح یوں گویا ہوا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سگریٹ پینے کی عادت رکھنے والے کو ہر شئے مانگنے یا یوں کہہ لیجئے درخواست کرنے کی عادت ہوتی ہے لیکن میں نے آج تک اسموکنگ کے لئے کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگا اگر میرے پاس سگریٹ یا ماچس نہ بھی ہو تو میں صبر سے کام لیتا ہوں پھر یہ کہہ کر کچھ لمحات کے لئے خاموش ہوگیا اور کہنے لگا اس ہال میں عورتیں اور بچے بیٹھے ہیں اور میں یہاں سگریٹ نہیں پی سکتا لہذا میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے چند لمحوں کی"اجازت" دیں تاکہ میں چند کش لگا آؤں یوں اس نے کم از کم "اجازت" مانگ لی۔ لگتا ہے اس نے بھی ٹو اسٹروک سگریٹ پیا ہوا تھا جس کے باعث اردگرد سیاہ دھواں پھیلنے کا احتمال تھااور اس کا پردہ فاش ہونے کا بھی ڈر تھا۔

پردہ فاش کرنا:

انسان کا کردار جب تک قسمت کے ساتھ جڑا رہے کام چلتا رہتا ہے اور اس کی شرافت کی دھاک اس کی ساکھ پر خاک کی طرح سایہ فگن رہتی ہے اکثر اوقات بدقسمتی کی وجہ سے پردہ فاش بھی ہوجاتا اور کئی دفعہ حمایتی برے سے برے کردار پر پردہ پوشی کرکے اسے بچا لیتے ہیں لیکن جن پر زیادہ تکیہ کر لیا جائے وہ بیچ چوراہے ہنڈیا بھی پھوڑ دیتے ہیں۔ آپ کسی سے کوئی سوال کریں یا اپنا مسئلہ بیان کریں یہ اس کا فرض ہے کہ وہ ان تمام باتوں کو اپنے پاس امانت رکھے لیکن آپ کسی شاعر سے قرض کے طور پر اس کی ایک دو غزلیں مانگ لیں تو اسے چاہئے کو وہ اس راز کو راز کے طور پر رکھے لیکن وہ آگے سے یہ شعر سنا دے تو انسان پسینے میں شرابور ہو سکتا ہے؎

گیا جب قرض مانگنے تو یہ اس نے بات سمجھائی
جو قرضہ لیتا ہے وہ ساتھ ہی لیتا ہے رسوائی

لیکن کسی کی ضرورت کا پورا نہ کرنا یہ کون سی ادبی خدمت ہے اور اس بچارے ضرورت مندکو غزل کی بجائے ایک شعر پر ٹرخانہ بھی اخلاقی طور پر درست نہیں لیکن مانگے والے کے ہاتھ کچھ لگ جائے تو وہ بھی یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتا ہے کہ؎

دیکھو بکرا نہیں تو بوٹی سہی
بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی

مگر جہاں اٹھنا بیٹھنا ہو وہاں ایسی کنجوسی زیب نہیں دیتی۔۔

اٹھنا بیٹھنا:

جنگل میں بھیڑ کا بھیڑیے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بعید القیاس نہیں ہے جب مودی کو ٹرمپ کے ساتھ بیٹھے دیکھا تو یقین پختہ ہوتا چلا گیا اور جب اس کی تقریر میں اس کے ساتھ کھڑا دیکھا تو جنگل محسوس ہوا۔ اگر کسی کا کہیں اٹھنا بیٹھنا ہو تواس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں دوستی بھی پکی ہو سکے ہاں اگر اٹھنا بیٹھنا پکا ہو تو پھر دوستی کا مطلب پورا ہو سکتا ہے۔ بس یہ یاد رہے کہ اونٹ سے دوستی لگانے والے گدھے کو اپنے دروازے بڑے رکھنے پڑتے ہیں تاکہ اس کے دلان میں بیٹھ کر وہ اونٹ دو گھونٹ شہد تو پی سکے اور اس کے اٹھنے بیٹھنے کا سلسلہ مزید چلتا رہے ورنہ وہ اسے چلتا کرے گا۔ دوستی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اندازے نہیں۔ یہاں صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ کہاں نرندر اور کہاں مچھندر۔۔ انہیں یہ بھی نصیحت کی جانی چاہئے

When you are in a zoo do like animals do.

فکر نہ کیجئے بس ایک نابینا beach پر گیا تھا اور بس ویسا ہی واپس آ گیا۔۔