کچھ پرانے محاورے جدید ورشن کے ساتھ پیش خدمت ہیں۔ محاورے گفتگو کو بڑا دلچسپ اور پر اثر بنا کر مخالف کو زچ کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بھلے اس کی زد میں آنے والا کوئی جانا مانا وکیل ہی کیوں نہ ہو چنانچہ منہ سے نکلے یہ محاورے مخالف سمت کھڑے شخص کی بحث و تکرار کے تجربے پرسوالیہ نشان لگا دیتے ہیں اور بعض اوقات وہ اس کاٹ دار جملے کو دل پر بھی لے لیتا ہے اور اس معمولی محاورے کی تاب نہ لاتے ہوئے وہیں آپ کے "گلے پڑ" سکتا ہے لہذا بے سر و پا محاورے کا استعمال بھی عام آدمی کی سکت کے مطابق ہونا چاہئے۔۔
گلے پڑنا: خبر تھی کہ مودی کے اصلی والے گلے پڑے ہوئے ہیں ڈاکٹر نے اسے غصہ پی کر اپنے ہاتھ کی بنی "چائے" پینے سے نا صرف منع کیا تھا بلکہ لکھ کر اس کے گلے میں بھی ڈالا تھا۔ چنانچہ اس پرہیز کو گلے لگا کر اس نے اپنے دفتر میں یہ بورڈ لگوایا، خبردار! میرے گلے پڑے ہوئے ہیں کہیں میں آپ کے گلے نہ پر جاؤں: ہر کس و ناقص کی کوئی مصیبت اگر کسی تندرست کے گلے پڑ جائے تو مخالف خامخواہ دھوم دھڑکا شروع کردیتا ہے اور ان مخالفین کا آپس میں گلے ملنا بھی محال ہو جاتا ہے۔۔ بعض اوقات ایک نیک سیرت انسان محلے میں دوسروں کے لئے کنواں کھودوانے کا انتظام کرتا ہے لیکن ترلے مارنے کے باوجود اس میں سے پانی برآمد نہیں ہوتا تو الٹا محلے دار اس کے گلے پڑنا شروع ہو جاتے ہیں حالانکہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ کم از کم نو من پانی تو نکل آئے تاکہ رادھا کے دھوم دھڑکے کے لئے کچھ نہ کچھ انتظام ہوپائے۔۔
دھوم دھڑکا: ہر پاکستانی شہری دھوم دھڑکے کے انتظار میں ہوتا ہے اورخاص طور پر لاہور کراچی والے اس میں خاصے آگے دکھائی دیتے ہیں بھلے یہ ان کے اپنے خلاف ہی کیوں نہ جا رہا ہو ویسے دھوم دھڑکا کرنے والے شہری پلس ہوتے ہیں ورنہ عام شہری کو تو ہر وقت کوئی نہ کوئی دھڑکا ہی لگا رہتا ہے۔ دوسری جانب چین نے اپنے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی پہلی شادی پرجتنا چاہیں دھوم دھڑکاکریں لیکن انہیں دوسری بار اس کی اجازت نہیں دی جائے گی اور قانون از خود دھوم دھڑکا کرکے اس فضول خرچی و نمود نمائش کے درمیان حائل ہو کر سرکار سے اپنا وعدہ نبھائے گا۔
وعدہ نبھانہ: وعدہ ایک ایسی دلچسپ اوردل لبھانے ولی شئے ہے جو صرف فارغ وقت میں بیکاروقت کو خوب صورت انداز میں گزارنے کے لئے کارآمد شئے ہے جیسا کہ آپ ہلکی پھلکی موسیقی سنتے ہیں یا کسی دوست کو لطیفہ سناتے ہیں جوہوتا تو کوئی جھوٹ موٹ واقعہ ہی ہے لیکن کسی نہ کسی کے لئے اس میں دلچسپی ضرور ہوتی ایسے ہی کچھ لو گ نقل میں سے اصل تلاش کرنے کی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ویسے اگر آپ کے پاس فارغ وقت ہے تو کسی سے چھوٹا موٹا وعدہ کر لیں وقت اچھا گزر جاتا ہے۔
وعدہ دو اشخاص کے درمیان ایک زبان ہوتی ہے اور زبان ہلانے کے لئے کسی جمناسٹک کی ضرورت بھی نہیں ہوتی اکثر لوگ وعدے سے انحراف یا اسے توڑتے نہیں بس بڑے آرام سے یہ کہتے ہوئے زبان ہلا دیتے ہیں کہ بات ایسے نہیں ہوئی تھی اور پھر ان میں سے ایک وعدہ معاف بن کر معاملہ اندیش بن جاتا ہے اور ہمارے یہاں آئے روز ٹوٹنے کے لئے وعدے ہوتے رہتے ہیں جو دوسروں کے لئے بھی ایک نئی دلچسی کا سامان بھی پیدا کرتے رہتے ہیں وعدہ نہ نبھانے کے اس معمولی جرم کا انجام بھی بلآخر صلح کی صورت میں ہی ہوتا ہے کیونکہ معاشرے کو وعدہ نہ نبھانے کی "ہوا لگ چکی" ہے۔۔ اصل میں جب بات وعدے سے نکل کر وعدوں میں اوربیماری نسخے سے نکل نسخوں کی زد میں آ جائے تو بات دور نکل جاتی ہے۔۔
ہوا لگنا: وقار مجروح کے نزدیک ہوا دو قسم کی ہوتی ہے ایک عام ہوا ہے جو ایک عام شخص کو نظر بھی نہیں آتی اورکہلاتی عوامی ہوا ہی ہے لیکن یہ ٹائیفائڈ کے مریض کو خاص طور پر لگ جاتی ہے اور مریض کے کسی نہ کسی اعضاء کو زنگ لگا دیتی ہے اور دوسری زمانے کی ہوا ہوتی ہے جو کسی کو لگ جائے تو انسان دوسروں کو ذرا علیحدہ نظر آنے لگتا ہے اور پھر اتنا نظر آتا ہے کہ اسے نظر انداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جیسے تیز ہوا چلنے سے درخت جھومتے نظر آتے ہیں اسی طرح زمانے کی ہوا لگنے سے لوگوں میں جھومنے کی جبلت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ میئر کراچی نے
حلف اٹھانے کے فورا بعد کہا تھا کہ سب کو ساتھ لے کر چلوں گا " اورپھر میڈیا کی آنکھ نے دیکھا کہ وہ اکیلے جیل روانہ ہوگئے۔۔ اسے کاوش کو آپ وعدہ خلافی کی کون سی قسم کہیں گے۔۔ کئی دفعہ صلع کرانے والے بیچ میں سے بھاگ جاتے ہیں وہ کون سا حقیقت میں بھاگتے نظر آتے ہیں لیکن محاورے کے کیمرے میں تو صاف نظر آ جاتے ہیں ؎
دیکھو بکرا نہیں تو بوٹی سہی
بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی
بہرحال آپس میں کیا ہوا وعدہ دوسرے لوگوں کو بھی نہیں بھاتا اور یہ وعدہ نہ بھانہ کی عادت فضا میں پڑی رہتی ہے اور اخلاقیات کو منہ چڑاتی ہے اور لوگ وعدے توڑ کر نا جانے"کس منہ سے" دوسروں کے سامنے اپنا سا منہ لیکر جاتے ہیں۔۔
کس منہ سے: یہ محاورہ بڑا اپنا سا منہ لئے ہوئے ہے یعنی بندہ اس محاورے سے کم از کم یہ تو پوچھ سکتا ہے تم کس منہ سے اردو زبان میں گھس آئے ہو۔ یہ تو بالکل ایسے ہی ہے جیسا کہ برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں سے برطانیہ نے اب تک نہیں پوچھا کہ تم ایسے لوگوں نے کس منہ سے ہماری طرف منہ کیا ہے۔ کئی لوگوں کو تو بیوٹی پالر والے بھی نہیں پوچھتے کہ وہ کس منہ سے ادھر آئے ہیں حالانکہ پارلر کا بل دیکھ کر ان کا اپنا سا منہ بن جاتا ہے اور بلآخر "تیاری" کے مراحل کے بعد ساری محنت پر یہی منہ بولا "منہ" پھِر جاتا ہے حالانکہ انہوں بڑی محنت سے منہ سے دو ہاتھ کیے ہوتے ہیں اور وہ اسی وجہ سے ایسے گاہک کو منہ بھی نہیں لگاتے حالانکہ وہ اگلے ماہ ہی بجلی کے بل کی طرح منہ اٹھائے آ جاتا ہے۔
یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ ہمارے کئی اشتہاری نما لوگ اپنی بات برطانیہ کے منہ میں ڈال کر قوم اور ملک کا منہ چڑاتے ہیں بہرحال اپنے سوالیہ جملے کا آغاز"کس منہ سے"کرنے سے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور اگلا آستینیں چڑھا نا شروع کر سکتا ہے اور بندہ اس سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتا کہ دوست تم کس منہ سے آستینیں چڑھا رہے ہو؟