Wednesday, 10 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Ali Raza Ahmed
  4. Ezazi Awara Gard (2)

Ezazi Awara Gard (2)

سرکاری اسکول کے استاد کے پاس ایسے نامناسب الفاظ سننے کا کب حوصلہ ہوتا ہے؟ اسے تو بس اپنے یا اپنے ہیڈ ماسٹر کے بارے میں توصیفی کلمات پسند ہوتے ہیں چنانچہ پلک جھپکتے ہی استاد نے ان پر ایسا استادی وار کیا کہ انہیں اپنے ٹلی کے الفاظ واپس لینا پڑے اور پھر انہیں فوری جعفرزٹلی کا مزاح یاد آ گیا۔

بی اے میں داخلہ لیتے وقت سب نے مشورہ دیا کہ سیاسیات کا مضمون رکھو لیکن انہوں نے کسی کی نہیں مانی کیونکہ ان میں اپنے شہر کے معاشرے کو سدھارنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کھا کر بھرا تھا اور وہ اسے شرطیہ ٹھیک کر نا چاہتے تھے اس لئے صرف سیاسی طور پر "معاشرطیہ" علوم کا مضمون چنا۔۔ اسی دوران گھر والوں کو ایک اور سیاسی وارننگ دے دی تھی کہ میں نے ہرحال میں شادی کرنی ہے لیکن ان کی دانشمندی کی وجہ سے کسی ہال میں بھی قرار نہ پاسکی ہے کیونکہ "چاولوں" کے اتنے شوقین نہیں ہیں۔ کوئی دعوت بھی دے دے تو اسے ماش مونگ اور مونگرے کی گریوی تیار کرنے کا کہتے ہیں۔ دستر خوان پر ان کی شخصیت بڑی متناسب لگتی ہے۔ یعنی اگر ان کے سامنے دس فرائی انڈے رکھ دیے جائیں تو پراٹھے بھی اتنے ہی ایک ساتھ اور توازن سے ختم کرتے ہیں۔

اپنے ایک دیرینہ دکھی دل دست شناس کو سال میں ایک بار ہاتھ دکھاتے ہیں اور اس کا کوئی نہ زائچہ لے بھاگتے ہیں پیٹ میں خرابی بھی اسی کے پاس لے آتی ہے۔ دشت شناس کے مطابق ان کی دل، دماغ اور دولت کی لکیریں ایک ہی جگہ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ موصوف نے اپنی قسمت ریکھاؤں کو بھی محفوظ مقام کر منتقل کر رکھا ہے۔ دست شناس اس بارے میں دوبئی اور سوئٹزرلینڈ اندازہ لگاتا ہے لیکن اسے کہتے ہیں تو میرے منہ میں جتنے مرضی ملک ڈال دے میں تجھے اس کے گاؤں میں بھی گھسنے نہیں دوں گا کیوں کہ دماغ اور دل کی وجہ سے ساری دولت کسی اور محفوظ مقام پر بہانا پڑے گی۔

اپنے دور کے بڑے اہم ذمہ دار اور لاجواب وزیر علم و ادب تھے اس لئے کبھی ان کی جواب دہی نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ اپنے محلے کی دوکان میں دخل اندازی کرکے اپنی ہی نشان دہی پر جعلی دہی برآمد کروا دیا تھا۔ بالوں کی کٹنگ کی ایک عرصے سے ضرورت ہی نہیں پڑی مگر اپنی وجاہت قائم رکھنے کے لئے اپنے محلے کے حجام روزانہ شیو کرواتے ہیں۔ آج کل ان کے گال ذرا پچکنے لگے ہیں مگر اس کا حل بھی حجام نے دو عدد لٹو کے ذریعے نکال رکھا ہے۔ وہ اسے گالوں کے اندر اطراف میں رکھ کر آسانی سے شیو کر دیتا ہے۔ پوچھنے پر بتایا کہ اگر غلطی سے کوئی انہیں نگل لے تو؟

حجام کہنے لگا کوئی بات نہیں ایسا اکثر ہو جاتا ہے اور لوگ اگلے ہی دن مجھے واپس کر جاتے ہیں۔۔ ہفتے میں ایک بار تھوڑا سفر کرکے شفقت شکنجوی سے بھی شیو کرواکر کندھے دبواتے ہیں تو انہیں بڑا مزا اور سکون ملتا ہے کیونکہ اس سے ان کا پرانا یارانہ ہے۔ شکنجوی کہتا ہے کہ مجھے بھی ان کی شیو کرکے بڑا مزا آتا ہے۔ اپنے سب دوستوں سے کہتے ہیں کہ تم ایک بار وہاں جاؤ گے تو بار بار جاؤ گے۔ بس ذرا یہاں پنڈی سے کچھ دور شاہدرہ موڑ جانا پڑتا ہے وہاں اس کا حمام ہے اور واپسی پر ٹرکوں سے بچنا بھی پڑتا ہے۔۔

اپنے سپورٹر شمیم کوثر خان تبسم کی کسی دل چبتی بات کا جواب اسی لہجے میں دیتے ہوئے کہتے ہیں (اس کی بولی بھی اس کے نام جیسی ہے) "ہم پگلا نہیں ہوں بلکہ تم اجڈ ہوں اور تم تربیلے کے گیٹ نمبر آٹھ کی پیداوار ہوں" انہیں ویسے بھی ہر شہر کے ہر گیٹ کا راستہ اور آواز کی لوکیشن معلوم ہے بعض دفعہ heels کی آواز سن کر ہمیشہ تعریفی جملہ بولتے ہیں حتیٰ کہ اس کی بازگشت سن کر منہ بنا لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں۔

Your gate is so great just like my granny، یہ تجربہ بھی انہیں چپلوں کی آواز سن سن کر ہوا۔۔

باتوں کی تراش خراش کے Fun سے کافی آگاہ ہیں۔ اب کسی کو بھی اپنی "ماہرانہ رائے" دیں تو اسے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں "میری یہ بات اپنے پلو سے باندھ لو" اگر اُس کے پاس ایسی سہولت نہ ہو تو اسے ڈھائی میٹر کا پلو بھی تھما دیتے ہیں کہ ان کی کہی ہوئی High Rated بات کہیں اس کے کند ذہن سے ڈیلیٹ نہ ہو جائے مگر ان کو کسی سے پلو ملانے کا خوف نہیں ہوتا کیونکہ اس کام میں یہ سب کے سردار ہیں۔ جمشید دستی کو بڑی چابکدستی سے اپنی ادبی پارٹی میں لانے کی کوشش میں رہے مگر جب عدالت نے اسے دستی فارغ کیا تو پھرِ انہوں نے بھی اپنا "زبر۔ دستی" ہاتھ کھینچ لیا۔

اپنے لیے حتی الوسع صیغہ جمع حاضر استعمال کرتے ہیں بلکہ گانا بھی گنگنانا ہو تو اس کے لیے یہی بارعب لہجہ استعمال کرتے ہیں جیسے "ہم جس دن بھلا دیں ترا پیار دل سے وہ دن آخری ہو۔۔ ہم نے لاکھوں کے بول سہے۔۔ وے اک تیرا پیار سانوں ملیا اسی دنیا تے۔۔ اگر ان کو کہا جائے کہ آپ گانے میں غلط الفاظ استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے شاعر اپنے ہی غصے تلے دب سکتا ہے تو اس کا جوا ب یوں دیتے ہیں کیا تم نے یہ گانا نہیں سنا یہ تو شاید لکھا ہی ہمارے لیے ہے "ہم پیار میں جلنے والوں کو چین کہاں۔۔

آج کل وہ وائرل ہونے کے لئے سبزی والے کے پاس کھڑے ہو کر وڈیو بنواتے ہیں اور کبھی پھلوں والے کے پاس۔ وہاں آلو، مٹر اور گوبی سے جذباتی خطاب کرتے ہیں دریں اثناء انہیں آگ لگا دو ں گا۔۔ کی دھمکی دے کر ہلکی آنچ پرٹینڈے سے ٹینڈہ بجانے کانعرہ لگاتے ہیں اور پھر آخر میں آداب بجا لا کر وڈیو بند کر دیتے ہیں۔ وہ خود بھی سبزی کی وہ قسم ہیں جسے پکانے سے پہلے نمک لگا کر دھوپ میں رکھا جاتا ہے اور اگر وہ نیم کے درخت پر چڑھی ہو تو پھر اسے مزید دھوپ دینا پڑتی ہے۔

سبزیوں کے استعمال سے وہ اپنا جسمانی وزن کم کرنے کی کوشش میں اپنا سیاسی وزن بھی کم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ آج کل ان کے مشورے سے کئی مریض خوراک سے ہی تھائی رائیڈ کی بیماری کو"کھائی رائیڈ" میں بدل چکے ہیں۔ گوشت کے شوقین توہیں ہی۔۔ ایک دن پائے کھاتے ہوئے میزبان سے کہنے لگے یہ "ہڈیم" کہاں سے اٹھا لائے ہو؟ حالانکہ چوس چوس کر ہڈیوں کو ایسے کیا ہوا تھا جیسے ان پر سرامک پینٹ کیا ہو۔ نتیجہ ً اس کے بعد"سیر وTuffریح" کے 15 بیس راؤنڈ بھی۔۔