Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Adnan Adil/
  3. China Ka Urooj

China Ka Urooj

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست کا مرکز و محور چین کے خلاف مسلسل الزام تراشی، بیان بازی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا پچہترواں سالانہ اجلاس ہوا تو ٹرمپ نے چین کے خلاف زہر اُگلنے کا یہ موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ انہوں نے چین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ہمیں اس ریاست کاا حتساب کرنا چاہیے جس نے دنیا میں یہ وبا پھیلائی۔ اس پر وائٹ ہاوس کے پریس سیکرٹری نے گرہ لگائی کہ جہاں تک کورونا وبا کا تعلق ہے تو چین سے بڑا کوئی بدمعاش نہیں۔ تاہم امریکہ جتنا بھی تلملائے، جو شور مچائے، عالمی سیاست کی بساط پر اب چین اسکا مدمقابل اور ہمسر ہے۔ چین کا دنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر عروج ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے۔ وہ وقت گزر گیا جب امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ معاشی میدان میں چین امریکہ سے آگے نکل چکا ہے۔ چین کے پاس اتنے معاشی وسائل ہیں جو امریکہ کے پاس نہیں۔ دنیامیں ہونے والی صنعتی پیداوارکا تیس فیصد چین میں پیدا ہوتا ہے جبکہ امریکہ میں صرف سترہ فیصد۔ دنیا کے تین چوتھائی ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چین ہے۔ یورپی ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چین ہے جو پہلے امریکہ ہُوا کرتا تھا۔ جرمنی کی سب سے زیادہ برآمدات چین جاتی ہیں جو پہلے امریکہ جاتی تھیں۔ سائنسی، ٹیکنالوجیکل، انجینئرنگ، ریاضی کے میدانوں میں مہارت رکھنے والے دنیاکے ایک چوتھائی کارکن، ماہرین چین کے شہری ہیں۔ جرمنی کی مشہور کار ساز کمپنی واکس ویگن چین میں بجلی سے چلنے والی کاریں بنانے کے لیے ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جارہی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی منڈی چین ہے جہاں کے لوگ سب سے زیادہ چیزیں خریدتے ہیں۔ دنیا کا ہر ملک چین سے تجارت کرکے مال بنانا چاہتا ہے۔ اگر قوتِ خرید کے اعتبار سے امریکہ اور چین کی مجموعی قومی دولت (جی ڈی پی) کا موازنہ کیا جائے تو چین کی دولت امریکہ سے ایک تہائی زیادہ ہے۔

تاہم چین کی برتری معاشی اعتبار سے ہے، فوجی اعتبار سے امریکہ کو چین سے کوئی خطرہ نہیں۔ چین نے اپنی عسکری طاقت صرف اتنی بنائی ہے کہ وہ اپنا دفاع مو ٔثر طریقہ سے کرسکے۔ اسکے ایٹمی ہتھیاروں، میزائلوں اور دیگر ہتھیاروں کا ذخیرہ دفاعی نوعیت کا ہے کہ اگر اس پر حملہ ہو تو وہ جوابی وار کرسکے۔ چین کی فوجی طاقت اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ امریکہ پر پہلا وار کرسکے۔ چین اپنی مجموعی قومی دولت کا صرف دو فیصدفوجی امور پر خرچ کرتا ہے جبکہ امریکہ آٹھ فیصد۔ امریکہ نے کھربوں ڈالر کے قرضے لیکر دنیا بھر میں جنگیں کیں اور اپنی معیشت کا بیڑا غرق کرلیا۔ دنیا کے مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے ممالک چین سے تعلقات بڑھانے میں امریکہ کی نسبت زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں کیونکہ امریکہ دنیا میں اپنا طرز زندگی، کلچراور نظام ِاقدار مسلط کرنا چاہتا ہے لیکن چین کو ان باتوں سے کوئی غرض نہیں کہ کسی ملک میں جمہوریت ہے یا آمریت، وہ دوسرے ملکوں سے صرف اپنے قومی، معاشی مفادات کے تحت تعلقات قائم کرتا ہے۔ امریکہ جس طرح دوسرے ملکوں میں حکومتوں کی تبدیلی کے منصوبے بناتا ہے، انکے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے چین یہ کام نہیں کرتا۔

کمیونسٹ سوویت یونین سے سرد جنگ کے زمانہ میں یورپ امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی تھا۔ امریکہ نے یورپی ممالک کے ساتھ فوجی اتحاد نیٹو بنایا۔ امریکی خارجہ پالیسی، بین الاقوامی تعلقات کا محور یورپ تھا۔ لیکن اب یورپ کے تجارتی، معاشی مفادات چین کے ساتھ گہرے وابستہ ہوچکے ہیں۔ کہنے کو چین ایک کمیونسٹ ملک ہے لیکن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا لازمی حصہ ہے۔ یورپی یونین صدر ٹرمپ کی امریکہ مخالف پالیسی کا ساتھ دینے سے گریزاں ہے۔ یورپی یونین کو اس بات کا ادراک ہے کہ ایک معاشی سپر پاور ہونے کی بنا پر چین کا عالمی سیاست میں ایک بڑے کھلاڑی کے طور پر ابھرنا ایک قدرتی امر ہے۔ اسلیے یورپی یونین اور اسکے بڑے بڑے ممالک صدر ٹرمپ کی چین کو تنہا کرنے کی پالیسی کا ساتھ نہیں دے رہے حالانکہ روس جو یورپ کا حریف سمجھا جاتا ہے اسکے چین کے ساتھ گہرے تزویراتی تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپیو گزشتہ ماہ یورپ کے دورہ پر گئے تو ویٹی کن میں کیتھولک چرچ کے سربراہ پوپ نے ان سے ملنے ہی سے انکار کردیا۔ یکم اکتوبر کو برسلز میں یورپی یونین کا اجلاس ہوا جس میں چین سے تعمیری تعلقات کی پالیسی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ حکمت عملی یورپی یونین اور چین دونوں کے مفاد میں ہے۔ کچھ یہی حال مشرق بعید کے ممالک کی تنظیم آسیان کا ہے۔ فلپائن امریکہ کا قریبی اتحادی ہوا کرتا تھا۔ اب وہ چین اور امریکہ دونوں کے درمیان غیرجانبدار رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تھائی لینڈ امریکہ کی نسبت چین کے قریب ہوچکا ہے۔ کوئی بھی ملک امریکہ کے چین سے تنازعہ میں فریق بننے کو تیار نظر نہیں آتا۔ حتی کہ جنوبی کوریا بھی جو امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایران کو چین کی قریب ترین حلیف کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان امریکہ کا دیرینہ قریبی حلیف تھا لیکن اب وہ چین کا قریبی اتحادی ہے۔ بنگلہ دیش بھی بیجنگ کے قریب ہوتا جارہا ہے۔ دونوں ملکوں میں معاشی تعاون فروغ پذیر ہے۔ سری لنکا پر امریکہ کا شدید دباؤ ہے کہ وہ چین سے دوری اختیار کرے اور امریکہ کے ساتھ کواڈ نامی اتحاد میں شامل ہوجائے لیکن سری لنکا اسکی مزاحمت کررہا ہے۔ سری لنکا کی ایک اہم بندرگاہ ہم بن توتا، ـپرایک معاہدہ کے تحت چین کا کنٹرول ہے۔

چین کے عروج سے عالمی سیاست میں بنیادی تبدیلی آچکی ہے۔ امریکہ چین کی طاقت کو دبانے کے لیے انڈیا، جاپان کی مدد سے کواڈ نامی تنظیم کو فعال کرنا چاہتا ہے تاکہ جنوبی بحیرہ چین میں اسکے تجارتی راستے پر کنٹرول قائم کرسکے، بحر الکاہل میں اپنی تھانیداری برقرار رکھ سکے۔ پاکستان پر بھی دباؤڈالا جارہا ہے کہ سی پیک کو ترک کرکے امریکی بلاک کا حصہ بنے۔ ہمارے ریاستی اداروں کو یکسو ہوکر چین کے ساتھ اپنے اتحاد کو ہر سازش سے محفوظ بنانا ہوگا۔ امریکی بلاک میں شامل ہونے کا مطلب ہوگا کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں انڈیا کی بالادستی تسلیم کرکے اسکی طفیلی ریاست بن جائے، اپنا جداگانہ مسلم تشخص قربان کردے۔ پاکستان کے وقتی اور طویل مدتی مفادات چین کے ساتھ قریبی اتحادسے وابستہ ہیں۔