سوال بہت دلچسپ تھا۔ اُس روز سماعت گاہ اِس سرے سے اُس سرے تک سراسر ساکت تھی۔ کیوں نہ ہوتی؟ نظیر اکبر آبادی کی معرکہ آرا نظم "آدمی نامہ" کے اِس بند کی چٹخارے دار تشریح جو کی جارہی تھی:
اِک آدمی ہیں جن کے یہ کچھ زرق برق ہیں
روپے کے جن کے پاؤں ہیں، سونے کے فرق ہیں
جھمکے تمام غرب سے لے تا بہ شرق ہیں
کمخواب، تاش، شال، دوشالوں میں غرق ہیں
اور چیتھڑوں لگا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
خطبہ ختم کرکے باہر نکلے تو دروازے ہی پر ایک شاگرد دامن گیر ہوگیا:
"اُستادِ محترم! فرق اورفرق میں کیا فرق ہے؟"
"بیٹا! بہت فرق ہے"۔ اُس وقت تو بس اتنا کہہ کر اُس سے دامن چھڑا لیا۔ مگر علم کے پیاسے کو ایسا تشنہ جواب دینے پر بڑی ندامت ہوئی۔ کیا کرتے؟ اِس قدر بھیڑ بھڑکّے میں اِس کے سوا اور کِیا بھی کیا جا سکتا تھا؟ باہر مجمع لگا کر نیا خطاب کرنے کی ہمت نہ تھی۔
نظیرؔ کے مذکورہ بند کے دوسرے مصرعے میں جو فرق، آپڑا ہے، اُس کا مطلب ہے سَر، بالوں کی مانگ، اوپری حصہ یا چوٹی۔ نظیریؔ نیشا پوری کا مشہور شعر ہے جو ہمارے ہاں تو کسی اور طرح مشہور ہے، مگر ہم نے اِس طرح پڑھا ہے۔ درست و نادرست اہلِ فارس جانیں:
زِ فرق تا قَدَمَش ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جاست
"اُس کے سر سے اُس کے پاؤں تک جہاں بھی نگاہ ڈالتا ہوں، وہیں رعنائی دامنِ دل کھینچنے لگتی ہے کہ دل دینے کی جگہ تو یہ ہے"۔
خدائے سخن، بلکہ ناخدائے سخن، میر تقی میرؔ کے سرِ غرور کے ساتھ جو حادثہ پیش آیا اُس کی رُوداد بھی سن لیجے:
کیا کوئی زیرِ فلک اونچا کرے فرقِ غرور
ایک پتھر حادثے کا آ لگا، سر چِر گیا
چچا غالبؔ مرضِ عشق میں مبتلا ہونے کے نتیجے میں بے خوابی کے مرض کا بھی شکار ہوگئے تو محض اتنی سی بات پر اپنا سر پھوڑنے کو دیوار ڈھونڈتے پھرے کہ میں تو جاگ جاگ کر راتیں گزار رہا ہوں اور محبوب (کم بخت) کمخواب کے تکیے پر سر رکھے سو رہا ہے:
یاں سرِ پُر شور بے خوابی سے تھا دیوار جُو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب تھا
اب آئیے اُس سوال پر کہ اِس فرق اور اُس فرق میں کیا فرق ہے؟ تو جیسا کہ وہاں عرض کیا، یہاں بھی عرض ہے کہ بہت فرق ہے۔ دوسرے فرق کا مطلب ہے جدائی، علیٰحدگی، فاصلہ، دُوری، تفاوت، اختلاف، کمی، کسر، کوتاہی اور خلل وغیرہ وغیرہ۔
خلل پر یاد آیا کہ اتنے سادہ اور آسان سے لفظ کے تلفظ میں بھی ہمارے برقی ذرائع ابلاغ کے اکثر میزبان خلل انداز ہوگئے ہیں۔ فرق کا ر، ساکن ہے۔ مگر ہمارے بے سکون میزبانوں کی حرکت دیکھیے کہ ر، کو حرکت میں لاکر اس پر زبر ڈال دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ستم یہ کرتے ہیں کہ جہاں حرف متحرک ہو اُسے ساکن کردیتے ہیں، مثلاً صِفَت کے ف، کو ساکن کرکے اُسے صِفُت، بولنے لگتے ہیں۔
فرق، سے بننے والے الفاظ کی اُردو میں بھرمار ہے۔ صرف لفظ فرق، سے متفرق محاورے اور تراکیب بنا لی گئی ہیں (متفرق، کا مطلب ہے جدا جدا، الگ الگ۔ اس کی جمع متفرقات، ہے) فرق آنا یا فرق آجانا، سے مراد ہے پہلی سی بات نہ رہنا، اَن بن ہوجانا جیسے "تعلقات میں فرق آگیا"، رنگ یا شکل و صورت اور ہیئت کا بدل جانا، مثلاً "محلے کی عمارتوں میں بڑا فرق آگیا ہے"۔ اس طرح کے اور بھی کئی محاورے اور بہت سی تراکیب مستعمل ہیں جیسے: فرق پڑجانا، فرق مٹ جانا، فرق کرنا، فرق نکلنا یا فرق نکالنا اور فرق ڈالنا، وغیرہ وغیرہ۔
فرق ڈالنا، بالعموم جدائی ڈالنے کے معنوں میں آتا ہے۔ فراق، کا مطلب جدائی اور دوری ہے، جو قربت کی ضد ہے۔ مصطفیٰ زیدی خدا جانے کس کس سے دل لگا بیٹھے تھے کہ آخر انھیں تنگ آکر کہنا پڑا:
شفق نظر کا فریب ہے، تتلیوں کی رنگت میں کچھ نہیں ہے
فراق میں کیا طلسم ہوگا، جب اُس کی قربت میں کچھ نہیں ہے
فرقت، اورمفارقت، بھی جدائی، علیٰحدگی، بچھڑ جانے اور ہجر کے معنوں میں بولے جاتے ہیں۔ آسیؔ غازی پوری کا شعر ہے:
کلیجا منہ کو آتا ہے، شبِ فرقت جب آتی ہے
اکیلے منہ لپیٹے روتے روتے جان جاتی ہے
لوگ "شبِ فرقت" تو بولتے ہیں، مگر "شبِ قربت" نہیں بولتے۔ شاید کہ شبِ قربت میں بولتی بند ہوجاتی ہو۔ فراقؔ گورکھپوری کو قربت نصیب ہوئی تو فراقؔ صاحب اِس تفرقے میں پڑ گئے کہ "تم مخاطب بھی ہو، قریب بھی ہو، تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں؟"
فرق کرنے والے کو فارِق، کہتے ہیں اور جو حق و باطل میں فرق کردینے والا ہو وہ بارگاہِ نبویﷺ سے فاروقؓ کا لقب پاتا ہے۔ فرقان، وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ اسی وجہ سے قرآن بھی فرقان ہے اور یومِ بدر بھی یوم الفرقان، ہے۔
فرقہ، یوں تو لوگوں کی جماعت کو کہتے ہیں، مگر اصطلاحاً مذہبی تعبیرات میں فرق کی بنیاد پر اپنے آپ کو الگ کرلینے والے گروہوں کو فرقہ، کہا جاتا ہے۔ اس سے تفرقہ، پیدا ہوتا ہے۔ تفرقہ، میں ف، ساکن ہے۔ تفرقہ، جدائی ڈالنے، اختلاف پیدا کرنے اور پھوٹ پڑوانے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ مذموم حرکت ہے، یعنی اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ دیکھیے جرأتؔ نے کس جرأت سے مذمت کی:
کیا کہوں دل نے مرے کوفت اٹھائی کیسی
بت ترے تفرقہ پرداز کی ایسی تیسی
بُت کو پہلے پہل ہم نے ہَت پڑھا تھا۔ تصحیح ہوئی تو دوسرے مصرعے کا سارا لطف ہی غارت ہوگیا۔
تفریق، بھی جدا جدا اور الگ الگ کرنے یا نکال باہر کرنے کو کہتے ہیں۔ جن لوگوں میں جدائی پڑ جائے اور وہ الگ الگ ہوجائیں بلکہ نوبت دشمنی تک جا پہنچے تو وہ ایک دوسرے کے فریق، بن جاتے ہیں۔ فریق، دو ہوں تو فریقین، کہلاتے ہیں۔ مگر ہمارے ذرائع ابلاغ پر "دونوں فریقین" کہنا بہت عام ہوگیا ہے، بلکہ اب تو "تمام فریقین" بھی کہا جانے لگا ہے۔ کاش کوئی جائے اور انھیں سمجھائے کہ
"اے تفرقہ پردازو! فریقین، فقط دو ہی ہوتے ہیں"۔
مگر یہ نکتہ ذرائع ابلاغ کے تمام فریقوں کو اچھی طرح سمجھانا اب مشکل معلوم ہوتا ہے۔