Friday, 19 April 2024
    1.  Home/
    2. Abdullah Tariq Sohail/
    3. Sang Uthaya Tha Ke

    Sang Uthaya Tha Ke

    سلسلہ عباسیہ کے جملہ بادشاہ ظالم اور خونخوار تھے(ماسوائے ہارون الرشید کے اور آدھے پونے کسی اور کے) خوب جنگیں کرتے، اپنے ہی شہروں کو بعداز خراج ختم کرتے اور لاشوں کے ڈھیر لگا دیتے۔ اوسطاً پرخلیفے نے لاکھوں مارے اور یہ ماجرا کئی صدیاں چلا۔ ایک لحاظ سے تو انہوں نے اچھا ہی کیا۔ دیکھئے۔ آج دنیا بھر میں ڈیڑھ پونے دو ارب مسلمان ہیں اور سب کے سب غلام(ماشاء اللہ، کیا تاریخی اعزاز ہے)۔ عباسی ایسا قتل عام نہ کرتے تو آج ان غلاموں کی تعداد تین ساڑھے تین ارب سے بھی زیادہ ہوتی۔ کیا اچھا لگتا کہ دنیا کی آدھی یا آدھی سے بھی زیادہ آبادی غلام ہوتی۔ چنانچہ ان کا احسان ہی مانئے۔

    علاوہ اس ظلم کے، اکثر ان میں دیگر عادات کے اعتبار سے بھی عجوبہ تھے۔ ایک خاص عجوبے کا نام معتضد باللہ تھا۔ عیاشی کے دوام سے مرض الموت میں مبتلا ہوا۔ حکیم صاحب نے نبض دیکھنا چاہی تو ناراض ہو گیا اور ایسی دولتی رسید کی کہ حکیم صاحب دور جاگرے اور گرتے ہی مر گئے عجیب بات یہ ہوئی کہ ادھر حکیم صاحب نے دم دیا اور ادھر عین اسی لمحے اس دولتی باز خلیفے کا بھی دم نکل گیا۔ یعنی ایک ساتھ، دونوں راہی راہ آخرت ہوئے۔ حکیم صاحب تو غالباً جنت سدھارے، یہ اغلباً کسی اور سمت کو نکل گئے ہوں گے(289ھجری)

    مطلب یہ کہ اختیار و اقتدار، بے خوف و خطر ہو تو عین عالم نزع میں بھی دولتی رسید کرنے کی عادت نہیں جاتی۔ واللہ اعلم! یہ واقعہ آج کے اس دور میں کیوں یاد آیا جب ہر طرف ہر کوئی شہر آشوب لکھ رہا ہے۔

    ٭٭٭٭٭

    پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کے فیصلے نے زلزلہ سا برپا کر دیا۔ زلزلہ بھی ایسا کہ 16دسمبر 1971ء کو آنے والا زلزلہ اس کے سامنے ہوا کی سرسراہٹ لگتا ہے، حالانکہ پرویز مشرف کو کسی ہونی انہونی کا اندیشہ ہی نہیں۔ وہ نیک پاک بندے ہیں جس کی ایک نہیں کئی مثالیں ہیں۔ دیکھ لیجیے، ایک نیک پاک بندے رائو انوار کے خلاف کیسا میڈیا ٹرائل ہوا، لیکن اس کا بال تک بیکا نہیں ہوا۔ سانحہ ساہیوال میں بھی کچھ نیک پاک بندوں کے خلاف طوفان اٹھا، اتنا زیادہ کہ وزیر اعظم بھی جو وساور تھے بول اٹھے کہ وطن آتے ہی ان سے نمٹ لوں گا لیکن وہ صاف بچ گئے۔ پرویز مشرف کو بھی ڈر کا ہے کا کہ ان پر سایہ فگن ہیں۔

    ٭٭٭٭٭

    لکھنے والوں نے ٹھیک لکھا ہے کہ مشرف کے خلاف فیصلے کی حیثیت محض علامتی ہے۔ لیکن بات پوری تب ہو گی جب فیصلے کو علامتی ہونے کے ساتھ ساتھ ملامتی بھی لکھیں۔ علامت اور ملامت کتابوں میں درج ہو جائیں تو تاقیامت ان کا ذکر جاری اور باقی رہتا ہے۔ ہو گا کچھ نہیں البتہ اتنا ہو گیا کہ کتابوں میں آ گیا۔ کتابوں کا لکھا مٹانا عمران خاں کے بس میں ہے نہ فروغ نسیم کے۔ کیا کیا جائے دوستو، تقدیر کی سائنس کا یہ بھی ایک فارمولا ہے۔

    ٭٭٭٭٭

    کوئی آنیوالے زمانے کی خبر دے اور وہ خبر سچی نکلے تو ایسے شخص کو یا تو کالے علم والا کہا جاتا ہے یا اللہ کا ولی۔ نواز شریف کو ان دونوں میں سے کون سا خطاب دیا جائے؟ ہر ایک اپنی صوابدید، پسند ناپسند سے فیصلہ کر لے۔ مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ کرتے وقت نواز شریف نے ایک خطاب کیا تھا۔ فرمایا (کوٹ ان کوٹ)"آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، سال نہیں تو چھ سال بعد مشرف کا ٹرائل ضرور ہو گا۔ کوئی بھی اس مقدمے کو نہیں روک سکتا"غور فرمائیے، مقدمہ چھ سال بعد ہی فیصل ہوا۔ اور اس چھ سال کی سماعت کو اٹارنی جنرل نے "عجلت" کا نام دیا۔ خیر یہ تو الگ بحث ہے۔

    ٭٭٭٭٭

    فیصلے سے ایک دن پہلے تک مشرف قطعی غیر اہم لگتے تھے۔ فیصلے کے ساتھ ہی اچانک اہم بلکہ اہم ترین ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ نظام کے محور ہیں، پاکستان انہی کے دم سے ہے، ان پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے۔ فیصلے کی تائید مختلف الخیال جماعتوں، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جے یو آئی، اے این پی، بی این پی، جماعت اسلامی وغیرہ نے کی۔ متفق الخیال اور متحد الحال جماعتوں کی جان پر بن آئی، تینوں جماعتیں "پیر بہنیں " ہیں۔ ایک ہی زندہ پیر کی درگاہ کی مجاورین ہیں۔ مشرف"اہم ترین" ہوئے تو ان کے دور کی اوجھل ہوتی یادیں بھی تازہ ہو گئیں۔ پاکستانی سرزمین کی امریکہ کو سپرداری، عافیہ صدیقی، چار ہزار پاکستانیوں کی شیر خوار بچوں سمیت امریکہ کے ہاتھ فروخت، لال مسجد کی سینکڑوں زندہ جلائی جانے والی بچیاں، ہزاروں افراد کا لاپتہ ہونا، اکبر بگٹی کا قتل، بلوچستان میں دارو گیر، وزیر ستان میں مارا ماری۔ الخ بہت ہی طویل سلسلہ ان یادوں کا ہے اور یہ ساری کارگزاریاں، جیسا کہ اب معلوم ہوا قوم کی خدمتیں تھیں۔

    ٭٭٭٭٭

    خبر ہے، فیصلہ سنانے والے منصف کے دماغی معائنے کے لئے درخواست دائر کرنے کا ارادہ حکومت نے واپس لے لیا ہے۔ کیوں؟شاید اس لئے کہ سلسلہ چل نکلا تو جانے کہاں کا رخ کر لے۔