Sunday, 13 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Abdullah Tariq Sohail
    4. Bharti Misre Par Pti Ki Ghazal

    Bharti Misre Par Pti Ki Ghazal

    غزہ کی ایک وڈیو میں دکھایا گیا کہ کوئی بچہ زمین پر لیٹا ہوا بری طرح رو رہا ہے۔ وڈیو کے کیپشن میں لکھا تھا بچہ اپنی ماں کی قبر پر رو رہا ہے جو ایک روز قبل اسرائیل کی بمباری سے ماری گئی لیکن لیکن وڈیو میں کوئی قبر نظر نہیں آ رہی تھی، بچہ تو زمین پر لیٹا ہوا تھا۔

    دراصل اب غزہ میں قبریں نہیں بنتیں۔ ہر روز ایک ہی جیسا گڑھا کھود کر درجنوں، بیسیوں یا پچاسوں لاشیں وبا دی جاتی ہیں، اوپر مٹی پھیلا دی جاتی ہے، وہ بھی ٹھیک طریقے سے نہیں۔ آس پاس کی زمین کے مقابلے میں زمین ذرا سی اونچی ہو جاتی ہے لیکن وہ ڈھیری نہیں بنتی جسے "قبر" کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ذرا سی اونچی زمین بھی اگلی بمباری میں بے ترتیب ہو جاتی ہے یا اسرائیلی ٹینک آتے ہیں اور نشان تک نہیں رہتا کہ یہاں کچھ ہی دیر پہلے بہت سے لوگ دفن کئے گئے ہیں۔

    حضرت بے خود دہلوی مرحوم کا ایک شعر یاد آیا:

    شمع مزار تھی نہ کوئی سوگوار تھا
    تم جس پہ رو رہے تھے، یہ کس کا مزار تھا؟

    بیخود مرحوم کی شمع اور سوگواروں سے محروم قبر دیکھ کر حیرت ہوئی تھی، غزہ والوں کے نصیب میں تو نشان مزار تک نہیں ہے۔ مرنے والوں کے سوگوار غزہ میں نہیں ہوتے، مرگ انبوہ کے نظارے ہیں، جس نے جس پر رونا ہوتا ہے خود بھی اسی کے ساتھ چلا جاتا ہے۔ بالکل ساتھ نہ سہی، اگلے گھنٹے میں یا اگلے دن۔ کل ہی ایک ہاتھ پاؤں کٹی سات سالہ بچی کی تصویر بھی آئی۔ ایک بمباری میں اس کے ماں باپ مرے، دوسری میں بھائی بہن، خود بچ گئی لیکن ہاتھ پائوں کٹ گئے، تیسری بمباری میں خود بھی ماری گئی۔

    بیخود دھلوی لہجے کے شاعر تھے ہر شعر میں لہجہ جُداگانہ ہوتا تھا، کبھی سوالیہ، کبھی استعجابیہ، کبھی بے ضرر طنزیہ۔ اپنے وقت کے دیوقامت استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد خاص تھے۔ زندہ ہوتے اور غزہ کی سدابہار کربلا کے ماجرے دیکھ پاتے تو لہجہ کیا، سرے سے شاعری ہی بھول جاتے۔

    ***

    کتابوں کا تو ٹھیک کہ الماریاں ہیں، ردّی کے ڈھیر کہاں محفوظ کئے جائیں۔ کھلے ریک ہیں اور ردّی ہے، دن بدن بوسیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ رسالے تو پھر بھی، قدرے سلامت ہیں، اخبارات ہیں کہ جب بھی کھولو، پھٹ جانے کے منتظر پڑے ہوتے ہیں۔ جہاں ہاتھ لگائو وہیں سے ایک ٹکڑا پھٹ جاتا ہے۔

    ردّی کے یہ ڈھیر ماضی کے قبرستان ہیں، اخبا گزرے دور کے مزار، رسالے کاروان سرائے ہیں۔ یہ ردّی کے ڈھیر ٹائم کیسپول ہیں، ان لوگوں کے نشان ان ڈھیروں میں موجود ہیں جو کبھی تھے، گمشدہ تمدّن جھلک دکھاتے ہیں۔ زمانے کو تہہ و بالا کرنے والے واقعات کے "لاشے" سطروں میں مستور ہیں۔

    گاہے گاہے نہیں، اکثر ان ڈھیروں میں کھو جاتا ہوں، یوں کہیئے کہ اس شعر پر عمل پیرا ہوں کہ

    بیکار مباش کچھ کیا کر
    ردّی ٹٹول کر پڑھا کر

    ہر بار کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ مل جاتا ہے اور کبھی تو "حالات حاضرہ" سے تعلق رکھنے والی کوئی شے بھی۔ مثلاً 1898ء کا پیسہ اخبار دیکھا، کیسی دلچسپ سنگل کالم سرخی تھی "وزیرستان میں فوجی کارروائی" انگریزی فوج نے دو باغی پکڑ لئے، دو مار دئیے اس وقت صرف وزیرستان تھا، شمالی اور جنوبی تو مدّتوں بعد بنے۔ سوا سو سال پرانی یہ خبر آج بھی تازہ ہے۔

    تو اس وقت حیدر آباد دکن کا اخبار "مملکت" سامنے ہے۔ یکم اپریل 1944ء کی تاریخ لکھی ہے اور خبر اسرائیل کے بارے میں ہے۔ ابھی اس کے بننے میں چار سال باقی تھے، تب کی خبر ہے۔ پہلے صفحے کی شہ سرخی کے الفاظ یوں ہیں۔

    فلسطین سے متعلق پریسیڈنٹ روزولٹ کا اعلان اور اس کا ردّعمل۔

    معلوم ہوا تب پریزیڈنٹ کو پریسیڈنٹ لکھتے تھے اور روز ویلٹ کے ویلٹ سے "ی" غائب ہوئی تھی۔ خیر، خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکی صدر نے برطانیہ کا یہ فیصلہ مسترد کر دیا ہے کہ فلسطین میں مزید 75 ہزار یہودی آباد نہیں کئے جائیں گے۔ صدر روز ویلٹ نے کہا کہ امریکہ کو یہودیوں سے ہمدردی ہے اس لئے برطانیہ کی یہ پالیسی قبول نہیں۔ خبر میں ہے کہ امریکہ کے اس اعلان پر مسلمان ممالک ناراض ہیں اور مصر، عراق اور نجد کی حکومتوں نے اس پر احتجاج کیا ہے اور ہندوستان کی جمعیت علماء ہند نے 17 مارچ کو ملک بھر میں یوم فلسطین منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ مسٹر جناح (قائد اعظم) نے بھی مذمت کی ہے اور 30 مارچ کو صوبجات متحدہ (یعنی یو پی) میں یوم فلسطین منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    یعنی یوم فلسطین منایا جانا بھی ایک سدابہار روایت ہے اور معلوم ہوا کہ امریکہ اسرائیل بننے سے پہلے ہی اس کے محافظ ہونے کا اعزاز حاصل کر چکا تھا۔

    فرق یہ ہے کہ تب فلسطین تھا جس میں یہودیوں کو آباد کیا جاتا تھا، آج اسرائیل ہے جہاں سے فلسطینیوں کا نام و نشان مٹانا مقصود ہے۔ مسلمان تب بھی یوم فلسطین مناتے تھے، آج بھی مناتے ہیں۔

    ***

    اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد پوری دنیا کا نقشہ بدلنے والا ہے، عرب دنیا کا نقشہ تو معمولی بات ہے۔

    بہت بڑا دعویٰ ہے۔ اتنا بڑا دعویٰ اس سے پہلے اسرائیل نے کبھی نہیں کیا۔ اسرائیل کیا، ایسا تو امریکہ نے بھی نہیں کہا۔

    کیا ہونے والا ہے۔ اسرائیل کو فی الحال تل ابیب کی فکر کرنی چاہیے جس کا نقشہ ایرانی میزائلوں نے بدل دیا ہے، تہران اجڑ رہا ہے، مزید اجڑے گا لیکن پھر بس جائے گا، تل ابیب ایک با ر اجڑا تو پھر بس نہیں پائے گا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا ہے اگلے تین سال اسرائیل کے وجود کا فیصلہ کر دیں گے۔

    ***

    بھارتی میڈیا نے سراسر جھوٹی خبر چلائی کہ امریکہ نے ایران پر حملوں کیلئے پاکستان سے فضائی اور بحری اڈے مانگ لئے ہیں۔ یہ گویا طرح مصرعہ تھا جس پر پی ٹی آئی نے لندن نیویارک سے لے کر پاکستان تک غزلوں دو غزلوں کا طومار باندھ دیا۔ کسی دل جلے نے کہا، پی ٹی آئی بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ میرا خیال ہے، اس فقرے میں گرائمر کی غلطی ہے۔ درست فقرہ یوں ہوا کہ پی ٹی آئی بھارت کا کھیل کھیل رہی ہے اور اس کھیل میں خود کھلواڑ بنتی جا رہی ہے۔