Thursday, 18 April 2024
  1.  Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Bohran Ke Maze

Bohran Ke Maze

کسان اتحاد کے عہدیدار چودھری انور نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ کھاد کے بحران کی وجہ سے اس سال چالیس سے پچاس فیصد تک گندم کی پیداوار کم ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کاشت سے پہلے ڈی پی اے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اتنی مہنگی کردی کہ کسان خرید ہی نہ سکے اور اب یوریا چاہیے تو وہ غائب ہو گئی ہے (گرائمر کی غلطی، دراصل غائب کردی گئی ہے)۔ ایک اور کسان رہنما بلال خان نے کہا کہ پیداوار اتنی تو کم نہیں ہوگی لیکن جتنی بھی کم ہوگی، وہ تباہ کن ہوگی۔

ایک اور رہنما خالد محمود کھوکھر نے بھی اسی ہی بات کہی۔ کھاد کا بحران پیدا کرنے والے مزے لے رہے ہیں۔ مزے کیوں لے رہے ہیں، اس لیے کہ مزے میں ہیں اور مزے میں کیوں ہیں؟ وہ اس لیے کہ چاروں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہے۔ کچھ کھاد سمگل کردی، وہاں سے مزا آیا، کچھ بلیک کردی، کچھ مزا یہاں سے آ گیا۔ سندھ میں سنا ہے لوگوں نے بنا کھاد ہی کے گندم بو ڈالی۔ بہرحال پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

پیداوار چالیس فیصد کم ہوئی تو چالیس فیصد درآمد کرلیں گے، پچاس فیصد کم ہوئی تو پچاس فیصد درآمد کرلیں گے۔ رہا کسان رہنمائوں کا یہ خدشہ کہ اربوں کا نقصان قومی معیشت کو ہو جائے گا تو عرض ہے کہ آئی ایم ایف سے ایک اور قرضہ لے لیں گے۔ مزے ہی مزے۔ کسان رہنما نے مزید کہا کہ کسان جتنی مشکلات کا آج شکار ہے، ماضی میں کبھی نہیں تھا۔ ایسی بات نہیں کہنی چاہیے، ابھی تو چار روز پہلے وزیراعظم کی طرف سے دیئے گئے اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی کہ میری حکومت کسانوں کو ریلیف دے رہی ہے۔

اطلاعات ہیں کہ ریلیف ابھی مزید کچھ عرصہ جاری رہے گا اور اس کے نتیجے میں ربیع کی باقی فصل بھی متاثر ہوگی اور چنے اور مٹر کی پیداوار بھی تسلی بخش حد تک گم ہو جائے گی۔ کوئی بات نہیں مٹر اور چنا کھانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔

٭اپوزیشن رہنما بلاول بھٹو اور بعض دیگر نے مطالبہ کیا ہے کہ کھاد کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ میری بات، دنیا میں کون وزیراعظم ہے، جو اپنی ہی کابینہ کے خلاف کارروائی کرتا ہو۔ بہت ہی بری بات بلاول میاں۔

٭قومی اسمبلی میں منی بجٹ والے اجلاس کے دوران حکومت کے ایم این اے نے معاشی بحران، مہنگائی اور سرکاری ذخیرہ اندوزی کے خلاف دھواں دار تقریر کی۔ خراب حالات پر تشویش ظاہر کی اور ایک دلچسپ مطالبہ کیا۔ فرمایا کہ یہ اگلی تین روز (Rows) میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ان کو پکڑیں، ان کے نام ای سی ایل پر ڈال دیں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ان اگلی تین صفوں میں وفاقی وزیر، مشیر تشریف فرما ہوئے ہیں چنانچہ وہی تشریف فرما تھے اور وزیراعظم بھی ان اگلی تین قطاروں میں سے پہلی کے اندر تشریف رکھا کرتے ہیں۔ اس مطالبے کے بعد ان کے ساتھ نیا معاملہ ہوا۔ کچھ ہوا بھی یا نظر انداز کردیا گیا (کہ بعض معاملات پر چپ کرو۔ مٹی پائو والے اصول پر عمل کرنا ہی پڑتا ہے)ابھی واضح نہیں ہوا۔ بہرحال مطالبہ دلچسپ ہے۔ حیرت ہے، اپوزیشن نے بھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔

٭تحریک انصاف کے نصف درجن رہنمائوں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ منی بجٹ والی رات وزیراعظم اور وزیر دفاع میں کوئی تلخ کلامی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ تلخ کلامی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تلخ کلامی نہیں تو خوش کلامی کا سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی نہیں؟ اصل بات یہی ہے کہ اس رات تلخ کلامی نہیں، خوش کلامی ہوئی تھی یعنی کڑوے کسیلے فقروں کا تبادلہ نہیں ہوا تھا، ٹھنڈے، میٹھے، شیریں جملوں کا اول بدل ہوا تھا۔ نصف درجن رہنمائوں کی بات درست ہے، قابل یقین ہے عہمیں یقین ہوا، ہم کو اعتبار آیاجو شیریں کلمات پریس میں رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں ایک فقرہ ایسا ہے جو وزیر دفاع کو نہیں کہنا چاہیے تھا۔ وہ یہ کہ وزیر دفاع نے وزیراعظم کو بتایا کہ آپ کو ہم نے وزیراعظم بنایا ہے۔ خٹک میاں، کسی نے سن لیا ہوتا تو؟ ، آئندہ کے لیے محتاط رہیے گا۔

٭سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ مہنگائی کا شدید ترین طوفان ہے۔ عوام بہت پریشان ہیں، عوام کی پریشانی کم کرنا اورانہیں ریلیف دینا ہوگا۔ کامل علی آغا کے گھر آمد کے موقع پر یہ بات چیت انہوں نے کی اور بات چیت کا بس اتنا ہی حصہ نذر پریس کیا گیا۔ جو حصہ روک لیا گیا، شاید اس طرح کا ہوگا کہ:محض اور محض عوام کو ریلیف دینے، مہنگائی اور پریشانی میں کمی کے لیے ہم نے منی بجٹ کا بھر پور ساتھ دیا۔ امید ہے آنے والے دنوں میں ریلیف کا شدید ترین طوفان آئے اور عوام کی زندگی باغ و بہار ہو جائے گی اور سات سو ارب کے ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد وہ ہر طرح سے ہلکے پھلکے ہو جائیں گے۔