Wednesday, 24 April 2024
    1.  Home/
    2. Abdul Qadir Hassan/
    3. Hukumat Ke Khair Khwa Pareshan Hain

    Hukumat Ke Khair Khwa Pareshan Hain

    ہمارے حکمرانوں کو ان کے کسی خیر خواہ نے نیک مشورہ دیا تھا کہ دو اداروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سے گریز کیا جائے، ایک عدلیہ اور دوسرا میڈیا۔ عدلیہ کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ترجمانوں اور وزراء سمیت پارٹی کے تما م عہدیداروں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ میڈیا میں عدلیہ کے بارے میں متنارعہ بیان بازی سے سختی سے گریز کریں اور کوئی ایسا بیان نہ دیا جائے جس سے عدلیہ کی دل آزاری ہو۔

    اس کے تنبیہ کے پس منظر میں شاید اٹارنی جنرل انور منصور کا وہ بیان بھی ہے جس کی وجہ سے ان کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا، گو کہ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان بار کونسل کے مطالبے پر اپنے عہدے سے استعفٰی دیا ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ عدالت میں حکومت کا موقف درست طور پر پیش نہ کرنے کی وجہ سے ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے۔ بہرحال اٹارنی جنرل کے استعفیٰ کی صورت جو بھی بنی اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ حکومت ملک کے اداروں کے ساتھ کسی قسم کی کوئی غلط فہمی پیدا نہیں کرنی چاہتی اور ہر ادارے کا وقار بحال رکھنا چاہتی ہے۔ اٹارنی جنر ل کاا ستعفیٰ ان حلقوں کے لیے حکومت کی جانب سے واضح پیغام ہے جو حکومت اور مختلف کے اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے ان کو دست و گریبان کرنا چاہتے تھے۔

    ہماری نئی حکومت کے اقتدار کو ڈیڑھ برس ہوا ہے، اس دوران ان کا کوئی کارنامہ تو سامنے نہیں آیا البتہ کئی ایسے واقعات ضرور ہوئے ہیں جن سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ آٹے اور چینی کا حالیہ بحران حکومت کی انتظامی صلاحیتیوں کو بے نقاب کر گیا ہے اور خود وزیر اعظم پاکستان نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس بحران کی ذمے دار حکومت ہے۔ یہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی حکمران نے خود اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے ورنہ اس طرح کے کئی بحرانوں کا ماضی میں حکومتیں سامنا کرتی رہی ہیں لیکن کس نے اعتراف جرم کی جرات نہیں کی۔ عمران خان کی بطور حکمران صلاحیتیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے اور کی بھی جارہی ہے لیکن ان کی دیانت دارانہ شخصیت کے بارے میں ان کے سیاسی مخالفین بھی معترف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مختصر عرصہ میں حکومت کی بے شمار کوتاہیوں کے باوجود حکومت کا بھرم اگر قائم ہے تو وہ عمران خان کی کرشماتی شخصیت ہے جس نے کسی نہ کسی طرح عوام کو اپنے ساتھ جوڑ رکھا ہے اور وقتاً فوقتاً وہ کوئی نہ کوئی ایسی بات یا عمل ضرور کر گزرتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کے دلوں میں ان کا مقام مزید بڑھ جاتا ہے۔

    پہلے بھی کئی بار عرض کیاہے کہ وہ روائتی حکمران نہیں ہیں اگر یہ کہا جائے کہ وہ سیاست سے ناواقف ہیں تو بھی بجا ہو گا لیکن ان کی حب الوطنی اور ملک کے ساتھ وفاداری کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے وہ حقیقت میں پاکستانیوں کی زندگیوں میں انقلاب لانے کے خواہشمند ہیں لیکن ان کے انقلابی ارادوں کے راستے میں رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں، ان کا انقلاب کا سفر بہت دشوار گزار ہے۔ ان کے راستے میں مسلسل روڑے اٹکانے کی کوشش ہورہی ہے لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور اپنی کامیابی یا ناکامی کا نتیجہ اﷲ پر چھوڑ چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل کا استعفیٰ حکومت کا بروقت اقدام ہے جس کی وجہ سے حکومت مزید کسی بحران اور غلط فہمیوں کے طوفان سے بچ گئی ہے۔

    حکومت کا دوسرا محاذ میڈیا کا محاذ ہے جس کے بارے میں جب موجودہ حکمران اپوزیشن میں تھے تو وہ میڈیا کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے اور حقیقت میں میڈیا نے اور خاص طور پر الیکڑانک میڈیا نے جس طرح تحریک انصاف کا ساتھ دیا ا س کی مثال مشکل سے ہی ملے گی لیکن جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت اقتدار کی مسند پر براجمان ہوئی اور میڈیا نے اس کے ساتھ ہلکی پھلکی موسیقی شروع کی تو وہی لوگ جو میڈیا کے گن گاتے تھے ان کو اچانک میڈیا میں خرابیاں نظر آنے لگ گئیں اور میڈیا کی گوشمالی کے نت نئے منصوبے بنائے جانے لگے، جتنے منہ اتنی باتیں اور مشورے۔ معلوم نہیں ہمارے حکمرانوں کے مشیروں کی کھوپڑی میں کتنی عقل ہے کیونکہ میڈیا کے بارے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بلا وجہ اور بلا ضرورت ہو رہا ہے، اس میں اور کچھ ہو یا نہ ہو عقل اور دانائی کی کوئی بات نہیں ہے۔

    حکمرانوں کو اس بات کا اچھی طرح علم ہے کہ میڈیا میں ان کے حامیوں کی تعداد بہت کم ہے اور جو حامی سمجھے جاتے ہیں، ان میں بھی کمٹ منٹ برائے نام یا نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے انھیں میڈیا کے بارے میں زیادہ محتاط رہنا چاہیے اور ان میں اپنے دوستوں کی تعداد بڑھانے کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ ایک پنجابی محاورے کے مطابق بھوک، نیند، لسی اور دشمنی میں جتنا چاہئیں اضافہ کر لیں، بہت آسان ہے۔ بجائے اس کے کہ میڈیا حکمران جماعت اپنے حلقے قائم کرے اور عوام میں اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے ان سے مدد حاصل کرے وہ الٹا انھیں بھی اپنی اپوزیشن تصور کر کے ان کے خلاف کاروائیوں میں لگی ہوئی ہے اور ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

    اپنی مرضی کے قوانین کے تحت میڈیا کو پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بہتر حکمت عملی اور سوجھ بوجھ سے میڈیا اور حکومت کے تعلقات کو معمول پر رکھا جاتا لیکن میڈیا کو حقیر اور کمزورسمجھ کر اس پر حملے شروع کر دیے گئے۔ جتنے اخبار نویس اس دور میں بیروزگار ہوئے ہیں اس سے قبل کوئی ایسی مثال نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے اور حکومت کو اس کا دراک کرنا چاہیے کہ میڈیا سے زیادہ طاقت کسی اورا دارے کے پاس نہیں ہے۔

    ریاست کی بہادری یہ نہیں کہ کسی اخبار نویس کو ڈرا دھمکا لیا جا ئے بلکہ حکومت کو تو میڈیا کے ساتھ مستقل اچھا رابطہ رکھنا چاہیے۔ جناب وزیر اعظم اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی پسند کے دو چار پیشہ ور صحافیوں کی سر پرستی سے پورے ملک کے میڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر ہو گئے ہیں، آنکھیں بند کر لینے والی بات ہے، اس وجہ سے حکومت اور میڈیا میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔

    میں ذاتی طور پر عمران خان کو پسند کرتا ہوں۔ وہ ناموافق اورپیچیدہ حالات میں ان کی کامیابی بہت ضروت ہے، یہی ملک کا مفاد ہے لیکن صرف ڈیڑھ برس میں حکومت کا جو حال ہو گیا ہے وہ تشویشناک ہے اگر ڈیڑھ برس کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ایسا ہونا کوئی مجبوری نہ تھی بلکہ گزشتہ حکومتوں کی مشہور زمانہ بد عنوانیوں کی وجہ اور ان کی مدد سے وہ بڑے آرام سے حکومت کر سکتے تھے اور بہت بڑی حکومت کے مقابلے میں تھوڑی اچھی حکومت دے کر عوام کی امنگوں کی لاج رکھ سکتے تھے۔ کہیں اس حکومت کو کوئی بددعا تو نہیں لگ گئی ورنہ اور تو کوئی بات نظر نہیں آتی۔ خالصتاً حکومت کے نقطہ نظر سے سوچا جائے تو حالات تشویشناک ہیں اور ان کے خیرخواہ پریشان ہیں۔