15 جون کو ریلوے کے ذریعے راولپنڈی سے لاہور آنا تھا، لاہور سے ہی ایڈوانس بکنگ کروائی تاکہ عین وقت پر خجل خواری سے بچا جا سکے مگر ایسا کیسے ممکن ہے۔ ریلوے بدحالی اور تباہی کا واویلا ہر دور میں مچایا جاتا رہا، اس کے خسارے کو بہتر کرنے کی کوششں بھی ہوتی رہیں، سعد رفیق ہوں یا پھر شیخ رشید اور اب حنیف عباسی، یہ تینوں وزرا پریس کانفرنسز میں ریلوے کی بدحالی پر پریشان اور دکھی تو نظر آئے مگر اس کی بہتری کے امکانات ہمیشہ مفقود رہے۔
آج جب دنیا کی ٹرانسپورٹ اس درجہ ترقی کر چکی ہے کہ برطانیہ میں بغیر ڈرائیو کے کیپس متعارف کروا ئی جاس چکیں، دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں سب سے آسان، تیزترین اور سہولت سے بھرپور سفر ریلوے کا ہوتا ہے، ایسے میں پاکستان ریلوے کو دیکھ کر دل تڑپ اٹھتا ہے۔
میں جب بھی سفر کا سوچوں، میرے دل میں پہلا خیال ریلوے کا آتا ہے کیوں کہ ٹرین کا رومانوی سفر مجھے بہت پسند ہے، پھر اس ادارے سے مجھے ہم دردی بھی ہے، نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اس ادارے کے ساتھ ہمیشہ یتیموں والا سلوک کیا گیا، نہ اس ادارے کا کبھی خسارہ ختم ہوا اور نہ اس کی ابتر حالت کبھی بہتر ہوئی، اگر حکومتیں اور ادارے، اس کی بہتری کی کوشش کرتے رہے مگر یہ کوششیں کبھی عوام کو نظر نہیں آئیں۔
سبک رفتار ٹرین کی ایڈوانس بکنگ تھی، فیملی میرے ساتھ تھی، راولپنڈی اسٹیشن پر ایک لمبے انتظار کے بعد جب ٹرین پہنچی تو معلوم ہوا کہ جس ڈبے کا ٹکٹ ہے، وہ ڈبہ توٹرین کے ساتھ موجود ہی نہیں۔ میرے ساتھ درجنوں مسافر جن کا ٹکٹ ڈبہ نمبر 5 کا تھا، وہ پریشانی میں شور شرابہ کرنے لگے، کوئی ٹی سی آر دفتر بھاگ رہا ہے تو کوئی بکنگ آفس، کوئی شفٹ انچارج کو پکڑ رہا ہے توکوئی اسٹیشن ماسٹر کو، ہر طرف سے ایک ہی جواب مل رہا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم ایسا کیوں ہوا؟ میں نے بھی ان تمام دفاتر کے چکر لگائے، کرسی پر بیٹھے افسران سے گزارش کی کہ محترم ٹرین نکلنے میں پانچ منٹ باقی ہیں، آپ ہمارے ٹکٹوں کو اوپن کر دیں تاکہ ہم سفر توکر سکیں یا پھر ہمیں اگلی ٹرین میں ایڈجسٹ کر دیں مگر سامنے سے ایک ہی جواب تھا، آپ اپنا ٹکٹ ری فنڈ کروا لیں۔
اب جب ریزرویشن کائونٹر پر ری فنڈ کے لیے پہنچے تو معلوم ہوا کہ جب احباب نے آن لائن ایپ یا کسی دوسرے شہر سے بکنگ کروائی تھی، ان کے پاس اگر اصل ٹکٹ نہیں تو ری فنڈ کی سہولت بھی موجود نہیں۔ اب مرتے کیا کرتے، اصل ٹکٹ لاہور تھا، ہم یہ سوچ کر تصویر لیے پھرتے تھے کہ بقول وزرا، جب ریلوے ترقی کا سفر کر رہی ہے اور سب کچھ آن لائن اور ڈیجیٹل ہو چکا تو پھر ایشو کیسا، تصویر دکھائیں گے، کائونٹر والے صاحب چیک کر لیں گے کہ بکنگ ہے یا نہیں مگر جب کائونٹر پر موجود شخص نے انتہائی بدتمیزی سے بحث کرنا شروع کی اور کہا کہ آپ ری فنڈ کے لیے لاہور سے رابطہ کریں تو میں نے اصل ٹکٹ کے ساتھ لاہور بکنگ آفس بھیجا، اسی کائونٹر پر جہاں سے بکنگ ہوئی تھی مگر ظلم دیکھیں کہ لاہور والوں نے کہا ہم ری فنڈ نہیں کر سکتے، یہ راولپنڈی سے ہی ہوگا۔
اب انسان کدھر جائے، لاہور والے راولپنڈی اور راولپنڈی والے لاہور سے ری فنڈ کی بات کرتے ہیں اور ہم دو لوگ(ایک لاہور اور دوسرا راولپنڈی بکنگ آفس)بحث کر رہے ہیں کہ بھائی کوئی حل تو نکالیں۔ میں شفٹ انچارج سے ملا، اسٹیشن ماسٹرسے ملا، ٹی سی آر سے ملا، بکنگ آفس سے رابطہ کیا مگرجواب میں صرف انکار، یہی کارروائی لاہور کے بکنگ آفس میں کروائی مگر یہاں سے بھی ایک ہی جواب، انکار۔
یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا، جن مسافروں نے بھی آن لائن بکنگ (رابطہ ایپ سے)کروائی تھی یا دوسرے شہروں سے، وہ وہاں ری فنڈ کے لیے رو رہے تھے، انتظامیہ کا سر پھاڑ رہے تھے اور آئی ٹی سیکشن میں بیٹھی خاتون پریشان حال تھی، مجھے شفٹ انچارج کہنے لگے کہ سر! جب سے رابطہ ایپ آئی ہے، ہم ذلیل ہو گئے ہیں، اب ڈبہ انتظامیہ نے نہیں لگایا، مسافر ہمارا سر پھاڑ رہے ہیں، ری فنڈ کا ایشو ایپ میں ہے کیوں کہ ہم اتنے ڈیجیٹل نہیں ہوئے، اب ہم کسے کیا جواب دیں۔
خیر میں نے کچھ افسران بالا سے رابطہ کیا، انھیں ساری صورت حال سے آگاہ کیا اور یوں مجھے تو اگلی ٹرین میں ایڈجسٹ کر دیا گیا مگر میرے ساتھ بہت سے لوگ خجل خوار ہو کر رخصت ہو گئے۔ پولیس والے پاس سے گزر رہے ہیں مگر کوئی انھیں پوچھ نہیں رہا۔ جب انتظامیہ کو معلوم ہے کہ ٹرین میں جگہ نہیں، ڈبے کی کیپسٹیی بھی ختم ہو چکی تو ان لوگوں پر رحم کرنا چاہیے جو ٹکٹ لے کر بیٹھے ہیں، انھیں کس بات کی سزا مل رہی ہے کہ وہ پیسے بھی دیں اور اپنی فیملیز کے ساتھ ذلت و رسوائی والا سفر بھی کریں۔ میں نے جب جب ریلوے کا سفر کیا، مسافروں کو رش دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ریلوے کیسے خسارے میں ہے؟
جب ریلوے کا اسی فیصد بجٹ پنشن ہولڈر کو جائے گا اوربیس فیصد ریلوے پر لگے گا تو حالت یہی ہوگی۔ مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں کہ بجٹ کتنا لگتا ہے اور کتنا کھایا جاتا ہے، مجھے صرف اس سے پریشانی ہے کہ خدارا! عوام کو تو سہولت دیں، جو لگ ریلوے پر بھروسہ کرتے ہیں اور سفر کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ انھیں ایسے ٹریٹ کریں گے جیسے وہ مجرم ہیں اور کسی جیل منتقل کیے جا رہے ہیں تو کوئی اس ادارے پر بھروسہ کرے گا؟ میں نے اسی لیے شروع میں گزارش کی، جب جب ریلوے کا سفر کیا، ایک افسوس ناک تجربہ میرا منتظر تھا، اس بات کی سمجھ شاید حنیف عباسی صاحب کو آ جائے۔