Thursday, 17 July 2025
    1.  Home
    2. 92 News
    3. Aaghar Nadeem Sahar
    4. Makhsoos Nashisten

    Makhsoos Nashisten

    عمران خان سے شدید اختلاف کے باوجود آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ وہ اس وقت پاکستان کا مقبول ترین لیڈر ہے، اس کی پارٹی فارم پینتالیس 2024ء کا الیکشن جیت چکی، فارم سینتالیس کے تحت اگر جمہوری نظام پر شب خون نہ مارا جاتا توآج تحریک انصاف اقتدار میں ہوتی اور عمران خان وزیر اعظم۔

    پاکستان دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں جمہوری قدروں کی پامالی اور انصاف کا قتل عام کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا، یہاں جمہوریت کے ٹھیکیدا ہی جمہوری رویوں کا قلع قمع کرتے ہیں، انصاف کے علم بردار ہی نظام انصاف کا گلا گھوٹتے ہیں، سو ایسے میں یہاں کے ناخدائوں سے کسی بھی جمہوری فیصلے کی امید محض فانوس خیال کے سوا کچھ نہیں، تحریک انصاف کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کے نام پر جس انداز میں چلتی حکومت پر شب خون مارا گیا، یہ کہانی رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے اور اس سارے عمل میں عدلیہ اور پارلیمان کا کردارانتہائی افسوس ناک رہا۔

    تحریک عدم اعتماد کے بعد معزز عدالت12؍ جنوری 2024ء تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لیتی ہے، الیکشن کمیشن ایک قدم آگے بڑھتا ہے اور تحریک انصاف کو الیکشن سے روک دیتا ہے، یہ معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ جاتا ہے تو عدالت 12؍جولائی کو فیصلہ دیتی ہے کہ تحریک انصاف بطور سیاسی پارٹی تحلیل نہیں ہوئی تھی، الیکشن کمیشن نے ہمارے بلے کے نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کی، لہٰذا تحریک انصاف کوتقریباً 80 مخصوص نشستیں واپس دی جائیں۔

    ہمارے نظام انصاف کی حالت دیکھیں، 12؍ جولائی2024ء کا فیصلہ ہے، آج 31 ؍مئی 2025ء ہوگیا یعنی پورا ایک برس بیت چکا مگر تاحال اس فیصلے پر عمل نہیں ہوا، یہ عمل کیوں نہیں ہوا، اس کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔ حکومت نے اس فیصلے پر عمل درآمد روکنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، چھبیسویں آئنی ترمیم ہو یا آئینی بنچ کی تشکیل، حکومت حتی الامکان کوشش کررہی ہے کہ تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ دی جائیں۔ اس کے ساتھ ہی نو مئی کے کیسز میں سزائوں کا سلسلہ شروع کر وادیا، پہلے فیز میں تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی عبدالطیف چترالی سمیت 11 مجرمان کو سزائیں سنا دی گئیں، یہ دوسرا حربہ ہے تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کا۔

    پارٹی کے ممبران قومی اسمبلی کو پہلے سزائیں دی جائیں گی، پھر انہیں ڈی سیٹ کیا جائے گا اور یوں یہ دوسرا منصوبہ بھی کام کر جائے گا۔ ایک طرف مخصوص نشستوں پر شب خون مارا جا رہا ہے اور دوسری طرف نو مئی کے کیسز میں ڈی سیٹ کیا جارہا ہے۔ نو مئی کے کیسز میں تحریک انصاف بار بار کہتی رہی کہ پہلے یہ تو دیکھ لیں کہ ان کیسز پر دہشت گردی ایکٹ لگتا بھی ہے یا نہیں، تحریک انصاف اس بات کا بھی شور مچاتی رہی کہ ایک ہی ملزم، ایک ہی وقت میں چار پانچ جگہوں پر کیسے ہو سکتا ہے، اس کا پانچ ایف آئی آر میں نام بیک وقت کیسے آ گیا، تحریک انصاف یہ بھی تقاضا کرتی رہی کہ ہماری بریت کی درخواستیں پینڈنگ ہیں، ایسے میں ان کیسز پر فیصلہ کیسے آ سکتا ہے مگر حکومت اور بضد تھی کہ ہم سزائیں سنائیں گے، ہم تحریک انصاف کا جینا حرام کر دیں گے، ہم ان کے ممبران کو ڈی سیٹ بھی کریں گے اور مخصوص نشستیں بھی نہیں دیں گے، ہم انھیں اس طرح دیوار سے لگائیں گے کہ کل کوئی پی ڈی ایم ون اور ٹو سے لڑائی کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔

    الیکشن کمیشن نے 12 ؍جولائی کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دی تھی، اس درخواست کی سماعت تیرہ رکنی بینچ کر رہا ہیعدالت میں مکالمے سے یہ بھی محسوس ہوا کہ بلے کے نشان والے فیصلے کو تاحال بھولنانہیں چاہ رہیں، اس میں بالکل دو رائے نہیں کہ قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں دیا جانے والا فیصلہ، پورے ملک میں آئینی بحران کا سبب بنا، یہ آئینی بحران پورے نظام کو درہم برہم کر گیا، رہی سہی کسر چھبیسویں ترمیم نے نکال دیں اور ایگزیکٹو اداروں کو پاورل فل کر دیا، ایسے میں تحریک انصاف کی شنوائی کیا ہوگی۔ تحریک انصاف کے ساتھ ایک اور ظلم بھی ہوا، ان کے مقدمات کو التوا کا شکار کیا گیا، ان کی ضمانتوں کی درخواستوں کو روکا گیا، عمران خان کے فیملی ممبران کو ملاقات سے روکا گیا، پارٹی ورکرز کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا گیا، ایسے میں اس نظام انصاف سے کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے؟

    اب سپریم کورٹ کے لیے ایک بڑا امتحان ہے، اگر تو سپریم کورٹ الیکشن کمیشن اور حکومتی خواہش کے مطابق فیصلہ دیتی ہے تو پھر 12؍جولائی والے فیصلے پر سوال اٹھے گا کیوں کہ وہ فیصلہ بھی اسی عدالت اور انہی میں سے کچھ معزز جج صاحبان نے دیا تھا اور اگر سپریم کورٹ 12؍ جولائی کا فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو پھر الیکشن کمیشن کو جواب دہ ہونا پڑے گا، ایسے میں اگر سکند ر سلطان راجا کو عدالت بلاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ جناب آپ نے بلے کے نشان والے فیصلے کی غلط تشریح کیوں کی تو آگے سے وہ کیا جواب دیں گے؟ کیا وہ ان لوگوں کا نام لیں گے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس فیصلے پر اثر انداز ہوئے؟ سپریم کورٹ ہر دو صورتوں میں مشکل میں پھنس چکی ہے، اگر تو عمران خان کو نشستیں دی جاتی ہیں تو پھر حکومت ناراض ہوتی ہے اور اگر عمران خان کو نشستیں نہیں دی جاتیں تو اپنے ہی فیصلے پر ضرب پڑتی ہے۔

    مجھے لگتا ہے تحریک انصاف کو مخصوس نشستیں مل بھی گئیں تو نو مئی کی سزائوں میں ان کے ممبران کو ناہل کیا جا سکتا ہے، معاملہ پھر وہیں آ جائے گا۔ مزید رانا ثناء اللہ کا بیان بہت کچھ واضح کر گیا کہ "عمران خان اگلے دو تین سال باہر آتے نظر نہیں آ رہے، کچھ کیسز میں مزید سزا ہو سکتی ہے"۔ اس کا مطلب ہے حکومت طے کر چکی ہے کہ عمران خان ابھی اندر ہی رہیں گے کیوں کہ جنگ کے بعد فوج اپنا امیج بہت بہتر کر چکی اور حکومت بھی، سو اب بظاہر توگیند عدالت کی کورٹ میں ہے، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے۔