21 اپریل، ایک ایسی ہستی کا یومِ وصال ہے جس کے سیاسی افکار نے ایک عالم کو روشنی بخشی۔ آپ ایک روشن خیال مفکر اور فلسفی تھے۔ آپ کی شاعری نے امتِ مسلمہ کو ایک جھنڈے تلے اکٹھا کیا، آپ کے نظریہ خلافت اور نظریہ سیاست سے جمہوریت کے راہیں ہموار ہوئیں، آپ کے سیاسی افکار نے ہندوستان کا مستقبل بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے دنیائے عالم کے تمام بڑے سیاسی نظریات کو پڑھا، ان سے حسبِ ضرورت استفادہ بھی کیا مگر وہ خود اسلامی سیاسی فکر سے متاثر تھے، ان کے سیاسی افکار اور فلسفہ خودی، آپس میں گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
وہ عالم اسلام کو ایک عالمی برادری کے طور پر دیکھ رہے تھے، اس کا اظہار انھوں نے پروفیسر نکلسن کے نام ایک خط میں بھی کیا تھا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ "اس عالمی برادری کے لیے جو راستہ اسلام نے مہیا کیا ہے، اس سے وہ چشم پوشی نہیں کر سکتے"اس سے صافٖ ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ کا خواب ایک عالمی برادری کا اکٹھ تھا، اتحاد تھا اور مساوات بھی۔ آل احمد سرور نے اقبال اور مارکس کے نظریات میں مماثلت پر بات کرتے ہوئے کہا تھا "دونوں ایک عالم گیر انسانی برادری کا خواب دیکھ رہے تھے، دونوں سرمایہ داری کو انسانیت کے لیے ایک عذاب تصور کرتے تھے، دونوں قومیت اور نیشنل ازم کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے"۔
اقبال اور مارکس، دونوں جمہوریت کے قائل تھے مگر اس کی خامیوں پر بھی گہری نظر رکھتے تھے، ان دونوں ہستیوں میں ایک اختلاف بھی ہے، مارکس مذہب کو افیون سمجھتا ہے اور اقتصادی رشتوں کو اہمیت دیتا ہے جب کہ اقبال مذہب کو بنیادی اہمیت دیتا ہے، اقبال اقتصادیات کو بھی اہمیت دیتے ہیں مگر تہذیب اور ثقافت کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔
آج جب ہم 21 اپریل کی مناسبت سے علامہ کو یاد کر رہے ہیں تو ہمارے لیے یہ بھی اہم ہے کہ موجودہ تکلیف دہ سیاسی صورت حال میں علامہ کے سیاسی افکار کو بھی یاد کریں، ایک طرف پاکستان میں جہاں گزشتہ چار دہائیوں سے جمہوریت کے نام پر آمریت کا کھیل جاری ہے، جہاں الیکشن اور ووٹرز مذاق بن چکے اور جہاں عالمی اسٹیبلشمنٹ اور عالمی طاقتوں نے مقامی اداروں اورسرمایہ کاروں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے، وہاں اقبال کے سیاسی افکار پر عمل کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
ایک ایسا ملک جو پہلے برطانیہ کی کالونی تھی اور آج برطانیہ کی جگہ امریکہ سمیت کئی عالمی سرمایہ داروں اور طاقتوں نے لے لی ہے، ایسے میں اقبال کے نظریہ سیاست اور نظریہ جمہوریت پر بات کرنا نہایت ضروری ہے۔ اقبال کے سیاسی نظریے کا مرکز وہ نظامِ خلافت ہے جس کی بنیاد نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ نے رکھی تھی اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر ہم اس نظامِ سیاست اور نظامِ خلافت پر عمل پیرا ہوتے تو جو ہمیں فلسطین اور کشمیر کے معاملے میں پوری دنیا میں ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے، یہ کبھی نہ اٹھانا پڑتی۔
ایک طرف فلسطین، جو دنیا کے نقشے پر اپنی آخریں سانسیں لے رہا ہے، دوسری طرف اتحادِ عالمِ اسلام، جو پوری دنیا میں شدید تنقید کی زد میں ہے، یہ دونوں صورتیں انتہائی تکلیف دہ ہیں، ہم جس سیاسی نظام کے دل دادہ ہیں، اس نے اتحاد اور یگانگت کی بجائے ہمیں مزید فرقوں میں تقسیم کر دیا، تقسیم در تقسیم کی سیاست نے اس نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی، نظامِ خلافت کے خاتمے کے پیچھے بھی یہی سازشی ذہن تھا، عالمی طاقتیں اور عالمی سرمایہ دار نے خلافت کے نظام کو پچاس مزید خطوں میں بانٹ دیا، پھر اس پر ظلم یہ ہے ہمیں مسلکی طور پر تقسیم کر دیا، جغرافیائی اور مذہبی تفریق نے ہمیں اندر سے کمزور کر دیا، ہم ذہنی طور بھی مفلوج ہو گئے اور سیاسی اور جمہوری طور پر، اب ہمارے پاس نہ سیاست کی طاقت ہے اور نہ اداروں کی طاقت، آج ہم کبھی آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو کبھی اقوام متحدہ کی دھمکیوں کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔
ہم امریکہ سے بھی دوستی چاہتے ہیں اور ایران سے بھی، ہم روس سے بھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں اور یوکرائن سے بھی۔ ہم چین سے بھی سرمایہ کاری لانا چاہتے ہیں اور یورپ و جاپان سے بھی۔ ہم سعودی عرب کو امت مسلمہ کا سربراہ کہتے ہیں مگر اس سربراہی نے بھی ہمیں رسوا کیا، جب اس سربراہی کی ضرورت تھی، اس وقت یہ اقتصادی جنگ کا حصہ بن گیا، آج غزہ رو رہا ہے، آج غزہ پکار رہا ہے اور امت مسلمہ بھی خواب خرگوش میں ہے اور اس کا سربراہ بھی۔
علامہ اقبال جس جمہوری اور سیاسی نظام کے خواہاں تھے، وہ پاکستان میں کبھی نہیں پنپ سکا، یہاں جمہوری لبادے میں آمروں نے وہ ستم ڈھائے کہ اللہ اللہ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ظاہری طور پر جمہوری طریقے سے وجود میں آنے والی حکومت بھی بنیادی طور فارم سینتالیس کی پیداوار ہے اور یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ جب عالمی طاقتیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے بڑے انویسٹرز کے ذریعے اس خطے میں اپنے قدم مضبوط کر رہی تھیں، ہم اس وقت بھی اندرونی مداخلت کا رونا رو رہے تھے۔ ہمیں یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ مداخلت بیرونی ہو یا اندرونی، نظام کا ستیا ناس کر دیتی ہے، ہمارے اداروں کے مفلوج ہونے کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اس ہر طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکے جس سے ہمیں ایک وقت کی روٹی میسر آ سکتی تھی، سچ پوچھیں تو یہ بھکاری پن ہمیں لے ڈوبا۔
آج پوری دنیا میں ایک ہی بحث ہے، حکومت فارم پینتالیس کی ہونی چاہیے یا سینتالیس کی۔ وہ طاقتیں جنھوں نے نظامِ سیاست اور نظامِ جمہوریت کو ہائی جیک کیا، وہی آج انسانی حقوق کے نعرے لگا رہی ہیں، اس سے بڑی انسان حقوق کی خلاف ورزی کیا ہوگی کہ رائے دہندہ کا ووٹ اس ڈبے سے نکلتا ہے، جس میں اس نے ڈالا ہی نہیں ہوتا، یعنی ایک جادوئی طریقے سے ایسا ماحول بنایا گیا، جس سے ادارے اور ملک تو مضبوط نہ ہو سکا، ہاں چند طاقتور لوگ اور سرمایہ دار اور ان کے عالمی دوست، ضرور طاقتور ہوگئے۔