Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Zahir Akhter Bedi/
  3. Kisan Conferencon Ki Zaroorat

Kisan Conferencon Ki Zaroorat

ہماری آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ہاریوں اورکسانوں پر مشتمل ہے لیکن ہاریوں اورکسانوں کا شمار ملک کے پسماندہ ترین طبقات میں ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام موجود ہے یا ختم ہو گیا ہے۔

اس سوال کے عام طور پر دو جواب آتے ہیں۔ ایک طبقہ فکر یہ کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں جاگیردارانہ نظام ختم ہوگیا۔ دوسرا طبقہ فکر اصرارکرتا ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا، جنوبی پنجاب اور سندھ میں قبائلی اور وڈیرہ شاہی نظام موجود ہے جو جاگیردارانہ نظام ہی کی ایک زیادہ پسماندہ شکل ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری دیہی زندگی پر ابھی تک جاگیردارانہ نظام کی چھاپ ہے حتیٰ کہ ہماری سیاست میں بھی ابھی تک بڑے جاگیردار اور قبائلی عمائدین موجود ہیں اور اپنی اس حیثیت سے خوب فائدے اٹھا رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیر اثر جو علاقے ہیں ان علاقوں میں وڈیرہ شاہی کلچر ابھی تک مضبوط ہے جس کا ایک بہت بڑا فائدہ جاگیردار اور وڈیرے عام انتخابات کے موقع پر اٹھاتے ہیں۔

وڈیروں اور جاگیرداروں کے زیر اثر علاقوں کے ووٹر آنکھ بند کرکے اپنے وڈیروں اور جاگیرداروں کو ووٹ دیتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ علاقے وڈیروں اور جاگیرداروں کا حلقہ انتخاب بنے ہوتے ہیں۔ اس کا دوسرا حوالہ سیاست میں وڈیروں، جاگیرداروں کا اثر و رسوخ ہے۔ سیاست میں جو بڑے جاگیردار متحرک ہیں انھیں عوام اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس نظام کی پسماندگی اور منفی پہلوؤں کی وجہ صنعتکاروں نے اسے اپنے میدان سے باہر دھکیل دیا اور جاگیردارانہ نظام کو ختم کردیا گیا۔

دنیا کے ملکوں میں ایسے اہم قومی مسائل کو تشنہ نہیں چھوڑا جاتا لیکن پاکستان غالباً واحد ملک ہے جہاں جاگیردارانہ نظام ابھی تک متنازعہ بنا ہوا ہے۔ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے۔ اس حوالے سے فطری طور پر جاگیرداروں اور وڈیروں کے اثر و رسوخ سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے اور اس کے مظاہرے دیہات کی عملی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ ایک کسان یا ہاری کو اگر وڈیرے یا جاگیردار کی خدمت میں حاضر ہونا ہوتا ہے تو اسے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور اگر باریابی کی اجازت مل جائے جو بڑی مشکل سے ملتی ہے تو مین گیٹ ہی پر اپنے جوتے چھوڑ کر ننگے پاؤں وڈیرے کی خدمت میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اس روایت سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں وڈیرا کلچر ابھی تک کس قدر مضبوط ہے۔

معاشرتی حوالے سے بھی ہمارے دیہی علاقے خاص طور پر حلقہ ہائے انتخاب ابھی تک مکمل طور پر جاگیرداروں اور وڈیروں کے زیر تسلط ہیں۔ ہمارے جاگیرداروں کی ملکیت میں ابھی تک ہزاروں ایکڑ زمین موجود ہے ہماری پارلیمنٹ میں ایک جاگیردارنی نے فخر سے کہا تھا کہ ہماری زرعی زمین اتنی بڑی ہے کہ اس میں دو ریلوے اسٹیشن آتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت بڑی تعداد میں ایسے وڈیرے اور جاگیردار موجود ہیں جو ہزاروں ایکڑ زمین کے مالک ہیں اگر ہمارے حکمران طبقے ایماندار ہوتے تو سب سے پہلے یہ تحقیق کرواتے کہ کس کے قبضے میں کتنے ایکڑ زرعی زمین ہے۔

ترقی پسند سیاستدان ابھی تک کسانوں اور ہاریوں میں شعور پیدا کرنے اور انھیں باقی ماندہ جاگیردارانہ تسلط سے آزاد کرنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں کسان کانفرنسوں کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ پنجاب میں جاگیردارانہ نظام کے خلاف چوہدری بہت متحرک رہے، ان کے علاوہ نیپ یعنی نیشنل عوامی پارٹی جاگیردارانہ نظام کے خلاف متحرک رہی۔ سی آر اسلم اس حوالے سے پیش پیش رہے۔ خیبر پختونخوا میں میجر اسحق کی مزدور کسان پارٹی غیر معمولی طور پر فعال رہی۔"ہشت نگر تحریک" کسانوں کے حوالے سے بہت مشہور تحریک رہی۔ یہ سب بہت پرانی نہیں بلکہ آزادی یعنی تقسیم ہند کے بعد کی تحریکیں ہیں۔ سندھ میں ہاری تحریک جاگیردارانہ نظام کے خلاف مشہور تحریک رہی ہے۔

یہ 1968کی بات ہے مولانا بھاشانی کراچی آئے تھے اور مختلف بیٹھکوں کے دوران بھاشانی صاحب بار بار کہتے تھے کہ مغربی پاکستان سے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنا ضروری ہے۔ بھارت ہمارا پڑوسی ملک ہے لیکن دنیا کے دوسرے نو آزاد ملکوں کی طرح ہندوستان میں بھی آزادی کے فوری بعد جاگیردارانہ نظام کو ختم کر دیا گیا۔ اس نظام کے حوالے سے اختلاف رائے شدید رہا ہے۔ جی ایم سید سخت بیمار تھے، اس حال میں ہماری جی ایم سید سے ایک طویل ملاقات رہی۔ دوران گفتگو جی ایم سید نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اب پاکستان میں جاگیردارانہ نظام کہاں رہا۔ ہو سکتا ہے جی ایم سید اس حوالے سے زیادہ سنجیدہ نہیں رہے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جاگیردارانہ نظام سندھ اور جنوبی پنجاب میں موجود ہے۔

2005 میں عابد حسن منٹو سے ہماری تفصیلی بات رہی جب وہ کسان کانفرنس میں شرکت کے لیے ٹوبہ ٹیک سنگھ آئے تھے۔ یعنی 2005 تک ملک میں جاگیردارانہ نظام موجود تھا جس کا ثبوت وہ کسان کانفرنسیں ہیں جو ملک کے مختلف حصوں میں ہوتی رہی ہیں۔ اس حوالے سے حیدر آباد میں ہونے والی کسان کانفرنس ایک بہت بڑا ریفرنس ہے جس میں سارے سندھ سے ہاری کسان کے علاوہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد آتی تھی۔ اس کانفرنس کا سن ہمیں یاد نہیں، لیکن یہ کانفرنس 2005 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہونے والی کسان کانفرنس کے کئی سال بعد ہوئی تھی۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ہاری اور کسان کے سرے سے کوئی حقوق نہیں ہیں کسانوں، ہاریوں کے حوالے سے ملک کے مختلف علاقوں خصوصاً جنوبی پنجاب اور سندھ میں مسلسل کسان کانفرنسوں کی ضرورت ہے۔