Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Wusat Ullah Khan/
  3. Din Nisar Kiye Ja, Sab Pe Waar Kiye Ja

Din Nisar Kiye Ja, Sab Pe Waar Kiye Ja

مجھے واقعی سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومتوں کو گڈگورننس کی خاطر ریاستی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات اور عوام دوست قوانین بنا کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہیں۔ اتنی انتھک محنت کرنے کی ان حکومتوں کو آخر کیا ضرورت ہے جب انھیں یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کل وہ رہیں نہ رہیں۔

مثلاً دوسری عالمی جنگ میں دو ایٹم بم گرائے جانے کے نتیجے میں پندرہ اگست انیس سو پینتالیس کو ہتھیار ڈالنے کی تاریخ سے لے کر آج تک جاپان میں پچھتر برس کے دوران اڑتیس حکومتیں آئیں۔ یعنی اوسطاً ہر حکومت نے دو برس سے بھی کم وقت گذارا۔ پھر بھی جاپان جنگ کے خاتمے کے بیس برس بعد پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور تادمِ تحریر بھی امریکا اور چین کے بعد تیسری بڑی عالمی اقتصادی طاقت ہے۔

حالانکہ ہر جاپانی وزیرِ اعظم بڑی آسانی سے افسردہ شکل بنا کر کہہ سکتا تھا کہ ایک راکھ ہونے والے ملک میں پھر سے امنگ زندہ کرنے کے لیے ہمارے پاس الہ دین کا چراغ نہیں۔ ہمیں تو کبھی اپنی مدت ہی پوری نہیں کرنے دی گئی۔ سارا کیا دھرا تو ان حکومتوں کا ہے جھوں نے جاپان کو جنگ میں جھونک دیا۔ ہم انھی کا پھیلایا ہوا گند ہی صاف کر لیں تو بڑی بات ہو گی۔

مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہتھیار ڈالنے کے بعد بننے والے پہلے وزیرِ اعظم ناروہیکو ہیگا شکونی کی چون دن کی حکومت سے لے کر دو ہزار بارہ سے دو ہزار بیس تک آٹھ برس وزیرِ اعظم رہنے والے شنزو آبے تک کسی کو بھی حال بہتر کرنے اور مستقبل کے بارے میں سوچنے سے اتنی فرصت نہیں ملی کہ وہ ماضی کے ماتم میں وقت گذار کر یہ کہہ کر چلتے بنتے کہ ہمیں تو گورننس بہتر کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔

ابھی کل ہی کی بات ہے۔ انیس سو پچھتر میں ویتنام سے جب امریکا نکلا تب تک تیس لاکھ ویتنامی مر چکے تھے اور پورے ملک کا انجر پنجر ڈھیلا ہو چکا تھا۔ یہ سنہری موقع تھا کہ ویتنامی قیادت پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتی کہ ہم اگلے پچاس برس میں ٹوٹی ہوئی ریاست کی ہی مرمت کر لیں تو اسے معجزہ جانیے گا۔ امریکا کی مسلط کردہ جنگ نے توہمیں کسی قابل ہی نہیں چھوڑا۔ ہمارے مسائل کی جڑ ہی امریکا ہے۔

مگر ویتنامی قیادت جنگ بندی کے اگلے دن ہی بھول گئی کہ ان کے ملک پر کیسی قیامت گذر گئی۔ جنگ کے ہیرو جنرل گیاپ سے لے کر میکانگ ڈیلٹا کے نیم عریاں کسان تک سب کی ایک ہی سوچ تھی۔ ماضی پر فاتحہ پڑھو اور شروع ہوجاؤ۔

ویتنامیوں نے کسی الہ دین کے چراغ کی تلاش میں وقت ضایع کرنے کے بجائے اپنے جذبے کو ہی الہ دین کے چراغ میں ڈھال دیا۔ کہاں انیس سو پچھتر کا ٹوٹا پھوٹا ویتنام جہاں کے لوگ بدحالی سے تنگ آ کر ہزاروں کی تعداد میں کشتیوں میں فرار ہو رہے تھے اور کہاں آج پتنتالیس برس بعد کا ایشین ٹائیگر۔ جس کے غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر اس وقت لگ بھگ نوے ارب ڈالر ہیں۔

گزشتہ ستر برس میں آنے والی جنوبی کوریا کی ہر حکومت کے پاس کمال جواز تھا کہ جب کوئی شہری اچھی زندگی کا مطالبہ کرے تو اسے یہ لوری سنا کے سلا دیا جائے کہ بیٹا شمالی کوریا کی دس لاکھ فوج سر پر کھڑی ہے۔ ہم تیرا تحفظ کریں یا تیرے نخرے پورے کریں، مگر شمالی کوریا سے تین برس کی خونی لڑائی کے بعد سے اب تک کشیدگی بھی برقرار ہے اور جنوبی کوریا بیس سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں بھی شامل ہے۔

یہی حال بنگلہ دیش کا بھی ہے۔ سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے بعد کی ہر حکومت اپنی پسماندگی کا ذمے دار پاکستان اور بعد میں آنے والی حکومتوں کو قرار دے کر آسانی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے وقت کاٹ سکتی تھی۔ مگر دونوں کام ساتھ ساتھ کیے گئے۔ پاکستان کی زیادتیوں کا نوحہ بھی جاری رہا اور اقتصادی ترقی کا سفر بھی۔ آج بنگلہ دیش کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کی مثال خود پاکستانی بکثرت دے رہے ہیں۔

اس وقت بنگلہ دیش کے غیرملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر بیالیس ارب ڈالر ہیں۔ اس میں سے اسی فیصد زرِ مبادلہ دنیا کی دوسری بڑی گارمنٹ انڈسٹری نے کما کر دیا ہے۔ حالانکہ بنگلہ دیش کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل نہیں ہے۔

سری لنکا کی حکومتوں کے پاس بھی اپنی ذمے داریوں سے پہلو تہی کرنے کے لیے تیس برس تک جاری تامل سنہالہ خانہ جنگی کی شاندار مثال موجود تھی۔ مگر کسی حکومت نے اس خانہ جنگی کو اپنی سست روی اور نااہلی کی ڈھال نہیں بنایا۔ خانہ جنگی سے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی یعنی سیاحت کو بچانے کے لیے ہر جتن کیا گیا، اگر کوئی شے سیاحت پر اثرانداز ہوئی تو وہ کورونا تھا۔

ایران نے تو حد ہی کر دی۔ آٹھ سال ایران عراق جنگ اور اس کے بعد سے آج تک امریکا کی جانب سے مسلسل اقتصادی ناکہ بندی۔ مگر اسی فضا میں ایران کی فی کس آمدنی بھی دگنی ہوئی۔ صحت اور تعلیم تک ہر شہری کی پہنچ یقینی بنائی گئی، جوہری پروگرام بھی جاری رہا اور علاقائی سطح پر مولا جٹ بننے کی تمنا اور کوشش بھی کم نہ ہوئی۔ حالانکہ سنہری بہانہ تھا کہ جب سے انقلاب آیا ہے ہمیں تو ایک لمحہ سانس لینے کی فرصت بھی نہیں ملی۔ جب تک ماضی اور حال کے مسائل سے فرصت نہیں ملتی۔ ترقی چھو ڑ بنیادی سہولتیں بھی بھول جاؤ مگر انقلاب زندہ باد کے نعرے لگاتے رہو۔

مجھے دکھ ہے کہ ان میں سے کسی ملک اور حکومت نے پاکستان سے کچھ نہیں سیکھا۔ یہ تک نہیں سیکھا کہ حالت بہتر کرنے کی کیا جلدی ہے جب برے حالات کو ہی وعدوں کے ترازو میں رکھ کے بیچا جا سکتا ہے۔ جب اپنے آلکس کو ماضی کی حکومتوں کی نااہلیوں کے سر منڈھ کے ایک یا دو برس نہیں پوری پوری اقتداری مدت کاٹی جا سکتی ہے۔

اور جیسے ہی ماضی کی نااہلیوں اور کرپشن اور ٹیکس چوری کی نوحہ گری کا گراف گرنے لگے تو پھر دہشت گردی کی تباہ کاری، افغان خانہ جنگی کے خرابے کے پاکستانی ریاست پر کمر توڑ بوجھ، بھارت کی سازشوں، یہود کی مکاریوں، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، عالمی کساد بازاری، غیرملکی قرضوں پر سود کا رونا، دفاعی اخراجات، اٹھارویں ترمیم کے تحت مرکز کی بے دست و پائی سمیت ہر بہانے ہزار راستے میسر ہیں۔ روتے ہوئے آئیے روتے ہوئے جائیے اور ہائے واویلا کی ڈگڈگی اگلے آنے والے کو تھما جائیے۔

کاش یہ گیدڑ سنگھی ان ممالک کے رہنماؤں کی بھی سمجھ میں آ جائے جو نہ جانے کس صلے کی تلاش میں اپنے اقتدار کے ہر دن کو آخری دن سمجھ کر کام کرتے ہیں اور بنا ریں ریں ہائے وائے کرتے باوقار انداز میں رخصت ہو جاتے ہیں۔ اور آنے والا بھی مڑ کر دیکھنے اور دم لینے کے بجائے آگے کی طرف دوڑنے کی رفتار اور بڑھا دیتا ہے۔

انھیں یہ یقین کہ قومی ترقی کا سفر ریلے ریس کی طرح طے ہوتا ہے اور ہمیں یہ گمان کہ کیا پتہ زندگی کا، کیا بھروسہ ہے کسی کا، دن نثار کیے جا، سب پے وار کیے جا، کام ہی وار ہے آدمی کا۔

بقول جمال احسانی مرحوم " جتنی محنت ہم نے خود کو غریب رکھنے میں کی۔ اس سے آدھی محنت میں ہم امیر بھی ہو سکتے تھے"۔ ہمارے ہاں ترقی دکھائی نہیں جاتی صرف بتائی جاتی ہے۔

سرائیکی کی ایک مثال ہے " کم (کام) جوان دی موت ہے"۔ یہ مثال نہیں ہر حکمران کا غیر علانیہ عملی منشور ہے اور اس منشور کے بوجھ تلے محمد علی جناح کا یہ قول کب کا کچلا جا چکا کہ کام کام اور صرف کام۔

About Wusat Ullah Khan

Wusat Ullah Khan

Wusat Ullah Khan is associated with the BBC Urdu. His columns are published on BBC Urdu, Daily Express and Daily Dunya. He is regarded amongst senior Journalists.