اچھے بھلے سمجھداراور پڑھے لکھے لوگوں میں جنہوں نے نئے پاکستان اورتبدیلی کی کھل کر حمایت کی ان میں ہمارے ڈاکٹرزاورٹیچرزنہ صرف سرفہرست بلکہ پیش پیش تھے۔ ان ڈاکٹروں اور ٹیچروں میں کئی توکپتان کی محبت اورتبدیلی کے نشے میں یوتھیوں سے بھی زیادہ ایسے پاگل اوردیوانے ہوگئے تھے کہ تعلیم، شعوراورسمجھداری کے باوجود کپتان اورپی ٹی آئی کے معاملے پریہ سیاسی مخالفین پرچڑھ دوڑنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔
ہم نے خوداپنی ان گناہ گارآنکھوں سے کئی اچھے بھلے ڈاکٹروں اورٹیچروں کوکپتان اوران کے کھلاڑیوں کا سینہ تان کر دفاع کرتے دیکھا۔ ہمارے پیارے ماسٹر محمد حنیف اور فیصل استاد کی طرح کئی ڈاکٹرز اور ٹیچروں پر تو تبدیلی کا سحر اتنا طاری ہوگیاتھاکہ وہ اٹھتے بیٹھتے تبدیلی کاوردکرنے کے ساتھ مریضوں کی چیک آپ پرچیوں اوربچوں کی سکول کاپیوں پرتبدیلی اب نہیں توکب اورووٹ صرف پی ٹی آئی کاجیسے نعرے اور نسخے بھی تجویزکرکے تحریرکرتے۔ خیبرپختونخوا میں تبدیلی کے پچھلے دس سال اورحالیہ تاریخی بجٹ کودیکھ کر تحریک انصاف اورتبدیلی کے لئے پاگل ہونے والے یہ ڈاکٹراورٹیچرز یادآنے لگتے ہیں۔
سننے میں آرہاہے کہ مریضوں کی پرچیوں اورسکول بچوں کی کاپیوں پر جو ڈاکٹر اور ٹیچرز "تبدیلی اب نہیں توکب" اور "ووٹ صرف پی ٹی آئی کا" جیسے نعرے اورنسخے تجویزکرتے رہے ہیں اب ان کے ہوش بھی آہستہ آہستہ ٹھکانے آنے لگے ہیں۔ کپتان کے اناڑی کھلاڑیوں کے پچھلے دس سالہ کارناموں کی روشنی میں ہمیں توپہلے ہی ان سے کسی خیراوربھلائی کی کوئی امیدنہیں تھی لیکن ان کو دوبار آزمانے کے بعدبھی جنہوں نے تیسری باران سے خیر، ترقی اورتبدیلی کی امیدیں باندھ لی تھیں کہنے والے کہتے ہیں کہ اب وہ لوگ بھی ان سے مایوس اورتوبہ تائب ہوکرکانوں کوہاتھ لگانے لگے ہیں۔ عام ووٹروں اورسپورٹروں
کاتبدیلی والانشہ توتبدیلی والی سرکار نے پرویزخٹک اورمحمودخان کے ادوارمیں نکال دیاتھالیکن وہ جوکچھ خاص خاندانی یوتھیے اورڈاکٹروں وٹیچروں جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ وباشعوردیوانے رہ گئے تھے ان کاشافی علاج اب مونچھوں والی سرکارکے ہاتھوں بخوبی سرانجام دیاجانے لگاہے۔ حالیہ صوبائی بجٹ میں توسرکاری ملازمین کے ساتھ وہ کام اورسلوک کیاگیاہے کہ سرکاری ملازمین بھی کیایادرکھیں گے کہ ان کا کن سے واسطہ پڑا ہے؟
وہ جو تبدیلی کی چادراوڑھ کراپنے لئے مراعات اورتنخواہوں میں ایک دن کے اندر دوسو اور تین سو فیصداضافہ کرتے نہیں تھکتے تھے انہوں نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پنشن اورڈی آراے میں چند فیصد کا اضافہ سرکاری ملازمین کے منہ پردے مارا ہے۔ تنخواہوں وپنشن میں اس تاریخی اضافے پرڈاکٹروں اورٹیچروں سمیت اس وقت خیبرپختونخواکے تمام سرکاری ملازمین رو رہے ہیں۔ ملازمین کااحتجاج اوریہ رونادھونادیکھ کر لگتا ہے کہ تبدیلی والاکیڑاآئندہ کسی سرکاری ملازم اور افسر کو کبھی تنگ نہیں کرے گا۔
صوبائی بجٹ کے خلاف جون کی اس تپتی دھوپ اور آگ برساتی گرمی میں چوکوں اور چوراہوں پر احتجاج، جلسے، جلوس اور مظاہرے کرنے والے سرکاری ملازمین کویہ دن یادہوں تو آئندہ یہ اپنی زبان پرتبدیلی کانام لینابھی گوارہ نہ کریں۔ وہ جس تبدیلی کے نام پرسادہ لوح عوام کوگمراہ کرکے ان سے ووٹ لئے گئے تھے اس تبدیلی کا خیبرپختونخوا میں کہیں نام ونشان تک نہیں۔ صوبائی حکومت کے پاس دیگر صوبوں کے وکلاکوخوش کرنے کے لئے پیسے ہیں لیکن صوبے کی تعمیروترقی، عوامی خوشحالی اور صوبائی ملازمین کی تنخواہوں وپنشن میں اضافے کے لئے پیسے نہیں۔
اپنی تنخواہوں اور مراعات میں راتوں رات دوسو سے تین سو فیصد اضافہ کرنے والے وزیروں اور مشیروں کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں چند فیصد اضافہ کرتے ہوئے ذرہ بھی شرم نہیں آئی؟ غریب ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا اگر خزانے پر بوجھ ہے توکیا وزیروں، مشیروں اور ممبران اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں دوسے چارگنااضافہ کرنا یہ عوام اور خزانے پر بوجھ نہیں؟ خیبرپختونخوا میں کسی کو مسلسل دو بار حکمرانی نہیں ملی لیکن تبدیلی کے چکر اور ریاست مدینہ کے خواب میں یہاں کے عوام نے تحریک انصاف کو دو نہیں بلکہ مسلسل تین بارصوبے کی حکمرانی سونپی۔
پی ٹی آئی نے پچھلے دوپانچ سالوں اوراس جاری پانچ سالہ میں عوام اورصوبے کے لئے کیاکیا؟ کام کرنے والے ایک واری اورایک پانچ سالہ میں بھی کچھ نہیں بہت کچھ کرلیتے ہیں لیکن نہ کرنے والے پھرکپتان کے کھلاڑیوں کی طرح دس پندرہ سال میں بھی کچھ نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کے ریکارڈ میں تو خیبرپختونخوا نہ صرف مثالی صوبہ بلکہ پیرس بن چکا ہے پرحقیقت میں یہاں پسماندگی، مایوسی، اندھیرنگری اوربے انصافی کے سواکچھ نہیں۔ جس صوبے کوتبدیلی کامرکزاورماڈل بننا تھا وہ صوبہ آج مسائلستان بن چکا ہے۔
مہنگائی، غربت، بیروزگاری اوربدامنی جیسے مسائل تویہاں کے غریب وبدقسمت عوام کووراثت میں ملے ہیں لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ ان وراثتی مسائل سے ہٹ کربھی یہاں عوامی مسائل کاکوئی شمار نہیں۔ ہمارے آبائی ضلع بٹگرام سمیت کئی اضلاع ایسے ہیں جہاں آج بھی تعلیم، صحت، صاف پانی اوربجلی جیسی زندگی کی بنیادی سہولیات سے عوام محروم ہیں۔ پرویز خٹک اور محمودخان کے ادوارمیں پھربھی تعمیروترقی کے چھوٹے موٹے کام ہوتے تھے لیکن اس حکومت میں تواحتجاج، جلسے، جلوس اورمظاہروں کے سواکچھ ہوہی نہیں رہا۔
پہلے صوبے کے بلدیاتی ممبران اپنے حقوق کے لئے چوکوں اورچوراہوں پرچیختے وچلاتے رہے اب سرکاری ملازمین دہائیاں دینے لگے ہیں۔ مانا کہ خیبرپختونخوا کے لوگ عمران خان سے آج بھی پیار اور محبت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجودہروہ شخص اورفردجس میں تھوڑی سی بھی عقل، شعور اور بصیرت ہوآئندہ وہ تحریک انصاف کوووٹ اور سپورٹ دینے سے پہلے ایک نہیں ہزار بار ضرور سوچے گاکیونکہ کپتان کے کھلاڑیوں نے نہ صرف ہزاروں بلکہ خیبرپختونخوا کے لاکھوں لوگوں کے خواب چکناچورکردیئے ہیں۔