Sunday, 13 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Tayeba Zia
    4. 10 May Ke Baad Ka Pakistan

    10 May Ke Baad Ka Pakistan

    ائیرپورٹ پر بیٹھی سوچ رہی تھی پاکستان کس قدر بدل گیا ہے۔ جس طرح امریکہ کے حالات پر جب بات ہوتی ہے تو عموماً واقعہ نائن الیون سے پہلے والے امریکہ اور نائن الیون کے بعد کے امریکہ کا موازنہ نا گزیر ہو چکا ہے۔ اسی طرح دس مئی سے پہلے کے پاکستان اور دس مئی کے بعد کے پاکستان کی ٹرم استعمال ہونے لگی ہے۔ دو سال قبل سانحہ نو مئی سے پہلے کے پاکستان اور نو مئی کے بعد کے پاکستان کا موازنہ کیا جاتا ہے۔

    پندرہ صدیاں پیچھے چلے جائیں تو قبل از اسلام بعد از اسلام کی تاریخ لکھی پڑھی جاتی ہے۔ بلا شبہ کچھ واقعات و سانحات تاریخ اور جغرافیہ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ ہمارا ہوائی و بری سفر بھی برسوں سے بدستور جاری ہے اور ملک ملک نگر نگر دنیا کے سیاسی و سماجی تغیر کے مشاہدات و تجربات بھی جاری رہتیہیں۔ دس مئی 2025ء سے پہلے تک سبز پاسپورٹ بے وقعت تھا، فوج کا احترام اندرونی بغاوت اور بیرونی سازش کی نذر ہو رہا تھا کہ رب کو اپنے کلمہ پاک کے نام پر معرض وجود میں آئے خطہ پر ایک بار پھر رحم آگیا اور تحریک انتشار کی دو سالہ فوجی نفرت کو ایک دن میں پھونک کر رکھ دیا اور یوں دس مئی کے فضائی بدر نے پاک سر زمین اور اس کی فوج کو اندرونی بیرونی دشمنوں کے سامنے فاتح بنا کر تاریخی عزت و تکریم سے نواز دیا۔

    آج دنیا سبز پاسپورٹ کو پہچانتی ہے جانتی ہے۔ ہم نے بین الاقوامی سفور کے دوران وہ دور بھی دیکھا جب امریکہ میں پاکستان کو کوئی نہیں جانتا تھا، پاکستانیوں کو انڈین کہہ کر پکارا جاتا تھا اور یہ دور بھی دیکھا جب واقعہ نائن الیون کے بعد افغان جنگ میں پاکستان کی امریکی سپورٹ نے پاکستان کی پہچان کرائی اور پھر بدنصیب دور بھی آیاجب اسی امریکہ کی وجہ سے پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ ہنود و یہود و نصاری کی ملی بھگت نے بلوچستان کو دہشت گردی کا اڈہ بنا دیا۔

    دہشت گردی میں مارے جانے والوں کے اکثر خاندانوں کو وطن عزیز کے خلاف غداری اور بغاوت پر مجبور کر دیا جاتا، ضمیر خریدے جاتے، اغوا المعروف غائب کر دیا جاتا مار دیا جاتا۔ مقصد پاک فوج اور ملک کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات پیدا کرنا تھا۔ دشمن اپنے ناپاک عزائم میں کسی حد تک کامیاب ہوگئے، دہشت گردی کاسلسلہ بلوچستان سے خیبر پختونخوا سے ہوتا ہوا پورے ملک میں پھیلا دیا گیا۔ اسی عرصہ کے دوران خان صاحب المعروف "طالبان خان "افغان دوستی میں ابھر کر سامنے آئے۔ اچھے برے طالبان میں تمیز مٹنے لگی۔ پاکستانی پختونوں اور افغان مہاجرین کو ایک سمجھا جانے لگا جبکہ وقت نے ثابت کر دیا کہ جس کم ظرف پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ افغان مہاجرین اسلحہ منشیات اور دہشت گردی میں دشمنوں کے آلہ کار ثابت ہوئے۔ سابق جنرل فیض نے افغانستان جا کر چائے کا جو کپ نوش فرمایا اس کے پس پشت ایران افغان خفیہ معاہدہ نے غداری

    ثابت کر دی، سانحہ نو مئی انہی دہشت گردوں کی معاونت کا نتیجہ ثابت ہوا اور آج فیض گروپ کورٹ مارشل کی نذر ہو چکا ہے۔ جب وقت کیڈی جی آئی ایس آئی کو معافی نہیں تو " طالبان خان کو " کیوں کر معاف کیا جا سکتا ہے؟ اندھی شخصیت پرستی برین واشنگ جہالت کا نتیجہ ہے مگر وقت با شعور ہوتا ہے کسی کو معاف نہیں کرتا۔ فوج کے خلاف بغض اور نفرت کی مہم اس شخص نے شروع کی جو خود جرنیلوں کی بیساکھیوں کا محتاج رہا ہے اور آج بھی ڈیل اور ڈھیل کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ کبھی بال بچوں سے انٹرویو کراتا ہے کبھی بہن سے ترلے کراتا ہے مگر ٹرین چھٹ چکی ہے۔

    رعونت نے دماغ میں ڈال رکھا تھا کہ تیری مقبولیت کی ریڈ لائن عبور کرنے والا کوئی مائی کا لال جمیا نہیں۔ لیکن وقت بڑا ظالم ہوتا ہے اور آج رعونت کی مقبولیت بوٹوں تلے روند کر رکھ دی گئی۔ کل جسے ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر برداشت نہ کر سکا، اس کے آرمی چیف بننے کے خلاف لانگ اور خونی مارچ کرتا رہا وقت نے اس شخصیت کو نہ صرف آرمی چیف بنایا بلکہ آج فیلڈ مارشل بنا دیا۔ رعونت کا طمانچہ عبرتناک ثابت ہوتا ہے۔

    دنیا کے مختلف ہوائی اڈوں پر دوران سفر رنگ برنگ پاسپورٹ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سبز پاسپورٹ پر خواہ امریکی ویزہ کا ٹھپہ کیوں نہ لگا ہو، پاکستانی مسافروں میں وہ اعتماد دکھائی نہیں دیتا تھا جو دس مئی 2025ء کے بعد دکھائی دے رہا ہے۔ البتہ انتشاری طبقہ ہزیمت کا شکار ہے کہ جس فوج اور آرمی چیف کے خلاف غلاظت بکتے رہے رب تعالیٰ نے اچانک کن فیکون کرکے انتشاریوں کو کسی سے نظریں ملانے کے لائق نہیں چھوڑا۔

    یہ وہ انتشار ی بیمار طبقہ ہے جس کے لئے لفظ رحم یا معافی کو حرام سمجھا جائے، انہیں جب موقع ملا غدار ثابت ہوں گے۔ نو مئی کے بعد پاکستان آستین کے سانپوں کے ہاتھوں لہو لہان تھا، رب نے کرم کر دیا اور دس مئی کے بعد پاکستان گل و گلزار بن گیا۔ گو کہ دشمن ملک اور غداران وطن دن رات سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ کب اور کہاں سے بدلہ لیا جائے۔ مگر واہ سبحان تیری قدرت۔ آج اپنے والد محترم کے مرشد گرامی حضرت نیاز بہ نیازؒ کے اشعار گنگنانے کو من کرتا ہے۔۔

    یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
    کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا

    کہیں ممکن ہوا کہیں واجب
    کہیں فانی کہیں بقا دیکھا