کچھ دنوں کے وقفے بعد ایک ناول کا ترجمہ شروع کیا ہے تو کسی نے کہا اب تو یہ سب کچھ بڑا آسان ہے۔ اسے چیٹ جی بی ٹی /گوگل میں ڈالیں۔ وہ سارا ترجمہ نکال دے گا۔ اس کی نوک پلک ٹھیک کر لیں ناول تیار۔
میں نے اس اہم بندے کی طرف دیکھا اور اتنا کہا آپ کو ان برسوں میں اتنا بھی پتہ نہیں چلا کہ یہ کام میں اپنے شوق کے لیے کرتا ہوں۔ مجھے یہ کام اچھا لگتا ہے۔ میرے دل کے قریب ہے۔ آپ مجھے اس مزے اور لذت سے کیوں محروم کرنا چاہتے ہیں جو اس ناول کو ختم کرکے مجھے محسوس ہوگی اور ملکیت کا احساس ہوگا کہ یہ کام میں نے کیا ہے کسی مشین نے نہیں۔
میں اس ناول کا ایک ایک لفظ پڑھتا ہوں۔ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر کسی جگہ مناسب اردو کا لفظ ذہن میں نہیں آتا تو اسے فون میں گوگل پر جا کر تلاش کرتا ہوں۔ اپنے ذخیرہ الفاظ میں اردو انگلش کے نئے لفظوں کا اضافہ کرتا ہوں۔ وہاں اس لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک چنتا ہوں۔ پھر دوبارہ سائیڈ پر رکھے اس ناول کی نئی سطر پڑھتا ہوں۔ کبھی کبھار پھنس بھی جاتا ہوں۔ ایک صحفہ بھی ایک گھنٹہ لگاتا ہے تو کبھی ایک گھنٹے میں دس بارہ صحفات کرلیتا ہوں۔
اس دوران میرا دماغ مسلسل لکھنا پڑھنا سیکھتا رہتا ہے۔ اس عظیم ادیب کے لفظوں کی گہرائی اور ان میں چھپے جذبات کو اپنے اندر دور تک محسوس کرتا ہوں، کہیں اداس تو کہیں خوش۔۔ ان کرداروں کے ساتھ وقت گزارتا ہوں، ان کے ساتھ سفر کرتا ہوں، ان کی مشکلات کا حصہ بنتا ہوں۔ ان کی سوچ کا حصہ بنتا ہوں، ان کے دکھ درد کا حصہ بنتا ہوں۔ ان کی ناکامیوں پر دکھی اور خوشی پر خوش ہوتا ہوں۔
ان کے ساتھ مختلف زمانوں کا سفر کرتا رہتا ہوں۔ ذہین اچھے برے سب کرداروں سے ملتا ہوں۔ ان سے سیکھتا ہوں۔ ان سے دوستیاں دشمنیاں کرتا ہوں۔
ایک تجسس مسلسل میرے اندر رہتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ ان کرداروں کی شکلیں میرے اپنے ذہن میں بنتی بگڑتی رہتی ہیں، ان کرداروں کا حلیہ میرا ذہن خود بناتا ہے کہ وہ کیسے نظر آتے ہیں، ان کی شخصیت کیسی دکھتی ہے۔ وہ کیسے بات کرتے ہیں غصہ یا محبت کرتے ہیں یا تنہائیوں میں اداس۔ مشکلات سے کیسے لڑتے ہیں، اپنی زندگی کے جنہم میں کیسے زندہ رہتے ہیں۔
آخرپر اس ناول کو ختم کرکے مجھے جو لٹریری اطمینان ملتا ہے اور اختتام پر ایک گہرا سانس لیتا ہوں کہ ہاں میں نے کچھ اچھا کام ہے۔۔
میں بولتا رہا اور پوچھا کیا یہ گوگل یا جی پی ٹی مشین یہ سب کچھ مجھے دے سکتی ہے؟