Thursday, 17 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Rauf Klasra
    4. Helen Of Troy Aur Tik Tok

    Helen Of Troy Aur Tik Tok

    ہر معاشرے میں کبھی ایک سا سکون نہیں رہتا۔ روز کچھ نہ کچھ چل رہا ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں اگر گھر میں تین چار بھائی بہن سکون سے نہیں رہ سکتے تو محلے، شہر یا ملک میں کچھ نہ کچھ برا نہ چل رہا ہو۔ لیکن قانون بنائے گئے ہیں کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایک برا واقعہ بھی نہ ہو لیکن پھر بھی ہوتے ہیں۔ سب کو علم ہے کہ کس کو مارنے کی سزا موت ہے لیکن پھر بھی قتل ہورہے ہیں۔ یورپ میں سزائے موت نہیں ہے لیکن وہاں قتل نہیں ہوتے۔ ہوتے ہیں تو کوئی آدھ واقعہ اور وہ بھی زیادہ تر چاقو حملے سے۔

    ہمارے ہاں جتنی آبادی زیادہ ہے اتنے جرائم بھی زیادہ ہیں جس کی وجوہات مختلف ہیں۔ لیکن ایک آدھ واقعے کو بنیاد بنا کر ہم پوری قوم کو ملزم بنا کر سامنے کھڑا کر دیتے ہیں اس پر حیرانی ہوتی ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے منہ چھپا رہا ہوتا ہے جیسے وہ جرم کسی دوردراز بندے نے نہیں خدانخواستہ ہم سے سرزد ہوگیا ہے لہذا ہم ذمہ دار ہیں چاہے اس واقعے کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔

    ابھی دو تین حالیہ واقعات پر بات کر لیتے ہیں۔

    ٹک ٹاکر ثنا صاحبہ کے قتل نے سب کو دہلا کر رکھ دیا۔ ایک خوبصورت نوجوان بچی اتنی جلدی قبر میں جا سوئی۔ یقیناََ اس پر سب کا دل دکھا۔ سب نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا۔ لیکن تاثر دیا گیا اس سے لگا یہ جرم کسی اکیلے مجرم کا نہیں تھا اس میں ہم سب پچیس کروڑ عوام ملوث تھے۔ معاشرے اور ہم سب کی اتنی لعن طعن کی گئی اور اپنے ملک بارے جو الفاظ کہے گئے حیرانی ہوئی۔

    کہا جاتا ہے پچیس کروڑ میں سے ساٹھ فیصد نوجوان ہیں۔ مطلب تقریباََ چودہ کروڑ آبادی نوجوان ہیں۔ ایک گمراہ نوجوان نے قتل کیا تو کیا باقی کے چودہ کروڑ بھی قاتل ہیں کہ سب کو برا بھلا کہا جائے اور مرد ذات کو ایک monster بنا کر پیش کیا جائے؟ اس نوجوان کی مذمت ہونی چاہئے اور اسے سخت سزا ملے نہ کہ سب نوجوانوں کو ایک ہی صف میں اس قاتل کے برابر کھڑا کر دیا جائے۔

    دوسرا واقعہ ایک ماں بارے بتایا جارہا ہے کہ اس نے بیٹی کو قتل کر دیا کیونکہ اس کی شادی میں روکاوٹ تھی۔ یا ایک دادی نے تین بچوں کو زہر کھلا دیا جو وہ کھلانا بہو کو چاہ رہی تھی۔

    یقیناََ ان واقعات سے بندہ دہل جاتا ہے۔ بندے کا ماں یا دادی کے رشتے سے ایمان اٹھ جاتا ہے۔ تو کیا اب ہمیں ہر ماں کو مشکوک نظروں سے دیکھنا ہےیا اسے ایک نفسیاتی مریض عورت کا عمل سمجھنا چاہئے؟ ایک ایب نارمل عورت جس نے بچی کی جان لے لی۔

    کہا جاتا ہے باون فیصد خواتین کی آبادی ہے۔ تو کیا ایک ماں اگر قاتل نکلی تو باقی کی باون فیصد فی میل بھی قابل بھروسہ نہیں ہیں لہذا سوشل میڈیا پوسٹوں سےببھر گیا کہ بس قیامت قریب ہے؟

    کہاں جرائم نہیں ہوتے، گوگل کرکے دیکھیں روزانہ لندن میں کیا کچھ نہیں ہورہا، بھارت کے دلی کو خواتین کے لیے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ لاس اینجلس میں اس وقت کیا چل رہا ہے۔ آج اسٹریلیا میں اتنا دل کو دہلا دینے والا واقعہ ہوا۔ دس سکول بچے۔۔

    واقعات کی مذمت ضرور کریں۔ دکھ کا اظہار بھی کریں۔ متاثرہ خاندان ساتھ ہمدردری دکھائیں۔ ان کا دکھ بانٹیں لیکن پورے معاشرے یا ملک کو ایک دو ایب نارمل عورت یا مرد کی وجہ سے برا بھلا کہنا نہ شروع کر دیا کریں۔ تشدد انسانی جبلت میں ہے اور رہے گا۔ باقی جنہیں لگتا ہے سوشل میڈیا کی وجہ سے بے راہروری پھیل گئی ہے وہ بھول جاتے ہیں یہ بے راہروری بھی انسانی جبلت کا حصہ ہے اس لیے تو مذہبی کتابوں سے لے کر قانونی کتابوں میں سزائیں رکھی گئی ہیں۔ خدا کو بھی پتہ تھا انسان یہ سب غلط کام کرے گا۔ معاشرے کی تشکیل دینے والوں کو بھی پتہ تھا کہ انسان کی جبلت پر قابو رکھنا آسان نہیں ہے لہذا سزائیں رکھی گئیں۔

    باقی جب دو بھائی لڑے اور کائنات کا پہلا قتل ہوا تھا تو اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا اور وجہ شادی تھی۔

    اور جب ہزاروں سال پہلے دنیا کی خوبصورت خاتون ہیلن آف ٹرائے کو اغوا کیا گیا اور اس کے لیے سات سال جنگ لڑی گئی جس میں دونوں اطراف سے ہزاروں خوبصورت نوجوانوں نے جانیں دی، اس وقت ٹک ٹاک نہیں تھا اور نہ ہی ہیلن ٹک ٹاک پر اپنی ویڈیو ڈالتی تھی کہ اس کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اسے محبت کے جال میں پھنسا کر اغوا کر لیا گیا تھا۔

    About Rauf Klasra

    Rauf Klasra

    Rauf Klasra is a Pakistani journalist and Urdu language columnist. He files stories for both the paper and television whereas his column appears in Urdu weekly Akhbr-e-Jahaan and Dunya newspaper. Rauf was earlier working with The News, International where he filed many investigative stories which made headlines.