Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Orya Maqbool Jan/
  3. Hazara Qabeela, 132 Saal Se Aqubat Zada (3)

Hazara Qabeela, 132 Saal Se Aqubat Zada (3)

ہزارے افغانستان کا تیسرا بڑا نسلی گروہ ہیں جن کی تعداد تقریباً چالیس لاکھ کے قریب ہے۔ افغانستان کے علاوہ یہ پاکستان میں نو لاکھ اور ایران میں بھی تقریباً پانچ لاکھ ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے مہاجرین کی 2005ء کی رپورٹ کے مطابق تقریباً پچاس ہزار" افغان ہزارے"کوئٹہ میں موجود تھے۔ آج پندرہ سال بعد ان کی تعداد یقینا کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ افغانستان میں ان کا علاقہ "ہزارہ جات " تقریباً دو لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ صفوی حکمران شاہ عباس نے جب ایران کا سرکاری مذہب شیعہ قرار دیاتو ہزاروں کی اکثریت نے اپنے جدِاعلیٰ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شیعت قبول کر لی اور ان کاعلاقہ ایک ٹیکس فری زون قرار دے دیا گیا۔ افغان بادشاہ امیر دوست محمد نے پہلی دفعہ ان پر ٹیکس نافذ کیا تو اسے سخت ردِ عمل کا سامنا ہوا۔ افغانستان جب برطانیہ کے ساتھ لڑائی میں فتحیاب ہوا اور"گندمگ معاہدہ" طے پاگیا تو امیر عبد الرحمٰن نے ہزاروں پر قابو پانے کے لیے جنگ شروع کی۔

یہ ایک شدید نسلی اور مسلکی بنیادوں پر لڑی جانے والی لڑائی تھی جس کے زخم آج تک افغان معاشرے میں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امیر حبیب اللہ عام معافی کے باوجود بھی افغان بادشاہ نادر شاہ کو 8نومبر 1933ء کو ایک ہزارے لڑکے عبد الخالق ہزارہ نے اسوقت قتل کر دیا جب وہ ایک جلسے میں ایوارڈ تقسیم کر رہا تھا۔ عبد الخالق ہزارہ کو سزا کے لیے میدان میں لایا گیا۔ اس سے پوچھا گیا تم نے پستول کس انگلی سے چلائی، اس نے شہادت کی انگلی کی جانب اشارہ کیا، اسے کاٹ دیا گیا، پھر پوچھا تم نے نشانہ کس آنکھ سے لگایا، اس نے دائیں آنکھ کی طرف اشارہ کیا جسے خنجر سے نکال دیا گیااور یوں اسے بادشاہ کو قتل کرنے کے جرم میں اذیت ناک موت سے دوچار کیا گیا۔ اس واقعے کا ہزاروں پر وہی اثرہوا جیسا اثر اندراگاندھی کے قتل کے بعد سکھوں پر بھارت میں ہوا تھا۔ پشتون معاشرے میں یہ خلیج آج بھی موجود ہے اور افغانستان کے ہزارے دو وجوہات کی بنیاد پر وہاں ایک جزیرے کے طور پر آباد ہیں، ایک نسلی اور دوسری مسلکی۔ یوں تو وہاں بدخشانی شیعہ بھی ہیں جو طالبان کے ساتھ حکومت میں بھی شریک تھے، لیکن ہزاروں کی تقسیم گہری اور دہری ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سوویت افغان جنگ میں یہ علاقہ پرسکون بھی رہااور دیگر جہادی تنظیموں سے الگ بھی۔ البتہ ان کے ہاں ایک سیکولر لبرل گروہ" تنظیم نسلِ نو ہزارہ" نے اسقدر جڑیں مضبوط کر لیں کہ وہ شیعہ علماء اور مذہبی طبقے سے برسرِ پیکار ہوگئی۔ ان کی لڑائی افغانستان تھی لیکن اس تنظیم کا ہیڈکورٹر پاکستان میں تھا۔ سوویت یونین آیا تو اسلامی گروہ نے مضبوطی پکڑی اور انہوں نے اس سیکولر تنظیم کا خاتمہ کر کے اپنے علاقے کو خودمختار بنالیا۔ جس طرح افغان جہاد نے پورے افغانستان میں نوجوانوں کو مسلح کیا، انہیں ٹریننگ دی، اسی طرح ہزارے بھی مسلح جدوجہد کا حصہ بنے لیکن ان کا تعلق اور رشتہ ایران سے رہا جبکہ باقی گروہ پاکستان سمیت دیگر ملکوں سے تعلق بناتے رہے۔ روس کے جانے کے بعدتمام ہزارہ گروہ "حزبِ وحدت" کے نام پر اکٹھے ہوئے اور شمالی اتحاد کا حصہ بن گئے۔ طالبان نے 1998ء میں ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ کی کہانیاں دونوں جانب بڑی خونچکاں ہیں۔ جب طالبان نے ان کے علاقے پر قبضہ کیا تو ان کے مظالم بھی ناقابلِ بیان تھے۔

اس مسلسل جنگ کا آخری ایندھن "ہزارے" اس وقت بننا شروع ہوئے جب عراق سے امریکہ روانہ ہوا اور عراق میں ایرانی اثر و نفوذ کی کہانی کا آغاز ہوا۔ عرب بہار کے آتے آتے شام و عراق کا سارا علاقہ میدانِ جنگ بن چکا تھا۔ داعش وجود میں آئی جس نے دنیا بھر کے ان جہادیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا جو ابھی تک صرف مسلکی نفرت میں الجھے ہوئے تھے۔ افغان ہزاروں میں ایک گروہ "سپاہ محمد" کے نام سے 1980ء سے موجود تھا جو سوویت یونین کے خلاف لڑے، پھر ایران کی طرف سے ایران عراق جنگ میں لڑے اور آخر میں طالبان کے ساتھ بھی جنگ کرتے رہے۔ جب شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز ہواتو اس گروپ کے سربراہ علی رضاتوسلی اور ہزارہ مذہبی رہنما محمد باقر علی علوی نے ایرانی حکومت سے درخواست کی کہ ان کے گروپ کے "25جنگجو ہزارے" مشہد میں موجود ہیں، انہیں اگر قبول کیا جائے تو وہ سیدنا زینبؓ کے مزار کے تحفظ کے لیئے شام جانا چاہتے ہیں۔ ایرانی حکومت نے فوراً یہ درخواست قبول کی اور "فاطمیون" کے نام سے ایک گروپ تشکیل کرکے انہیں وہاں روانہ کر دیاگیا۔ یہ گروپ انتہائی تیزی سے بڑھنے لگاکیونکہ ایران میں موجود مہاجرین ہزاروں کو بھی فوراًشامل کر لیا گیاتھا۔ لڑائی جب زوروں پر تھی تو اس وقت اس گروپ میں بیس ہزار جنگجو ہزارے موجود تھے جو شام اور عراق میں ہونے والی آپس کی لڑائی لڑ رہے تھے۔ ان کی بھرتی کے لیئے 2015ء میں باقاعدہ مساجد سے مہم چلائی گئی۔

ایران میں موجودہ ہزاروں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں موجود نوجوان لڑکوں کو خاص طور پر اس تنظیم میں بھرتی کیا جاتا۔"ایسوسی ایٹڈپریس" کی افغانستان کی نمائندہ کیتھی گینن (Keth Gannan)نے مہدی نامی ایک ہزارہ لڑکے کا انٹرویو کیا جو سترہ سال کی عمر میں اپنے شہر ہرات سے شام لڑنے کے لیے گیا تھا اور اب پانچ سال بعد حالات ٹھیک ہونے پر واپس آیا تھا۔ وہ افغانستان میں خود کو غیر محفوظ سمجھتا تھا۔ سرکاری فوج اسے ایرانی ایجنٹ سمجھتی تھی اور اس کے کئی سو ساتھیوں کو پکڑ کر بند کر دیاگیا تھا، جبکہ طالبان ان پرکسی صورت اعتبار نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افغان ہزارے ہیں جو جنگوں کے خاتمے کے بعد اپنے گھرافغانستان واپس آچکے تھے انہیں کسی کی طرف سے کوئی بھی امان میسر نہیں تھی۔ آج یہ "ہزارے" افغان حکومت کے نزدیک دہشت گرد ہیں اور طالبان کے نزدیک ناقابلِ بھروسہ۔ مہدی جیسے ہزاروں افغان ہزارے "القاعدہ" اور "النصرہ فرنٹ"کے ساتھ حلب کی مشہور لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔ اس لڑائی میں ایک جانب شام، عراق، چیچن، ازبک اور دیگر قوموں کے لوگ شامل تھے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں شام کی سرکاری فوج، ایرانی پاسداران، عراقی اور افغان گروہ شامل تھے، اس گروپ کو روس کے جنگی طیاروں کی مددبھی حاصل تھی۔ شام کی جانب سے مرنے والوں میں دوسرے نمبر پر افغان ہزارے تھے۔ یہ مکمل طور پر ایرانی کمانڈ اینڈ کنٹرول میں رہتے تھے۔ جب تک توسلی زندہ رہا وہ خود گروہ کی قیادت کرتا رہا لیکن اس کی موت کے بعد یہ براہ راست پاسداران کے ماتحت ہوگئے۔ اس سے کہیں بہت کم تعداد میں ایک اور گروہ "زینبیون" بنایا گیا جس میں پاکستانی شامل تھے۔ پاکستانی ہزارے بھی فاطمیون میں ہی جاتے تھے۔

آج جب جنگ کے بادل چھٹے ہیں تو یہ سب جنگجواپنے اپنے علاقوں میں واپس لوٹ رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے سوویت یونین جب افغانستان سے نکلا تو تمام جہادی جب اپنے اپنے ملکوں کو واپس آئے تو وہاں شدت پسندی نے عروج پکڑا کیونکہ ان تازہ تازہ بے روزگار اور بیکار لوگوں کو لڑنے کے سوا کوئی اورکام نہیں آتا تھا۔ ہزاروں کے ساتھ معاملہ مزیدسنگین ہوا۔ اپنے گھر افغانستان میں ہی جائیں تو صدیوں کی نفرت ہے۔ نہ امریکی ان پر اعتبار کرتے ہیں اور نہ ہی طالبان۔ ایسے میں انکا فطری ٹھکانہ پاکستان بنتا ہے۔ یہ یہاں آنا شروع ہوگئے۔ جو جنگجو تھے، انہیں تو خطرات کا اندازہ تھا، وہ اپنے ٹھکانوں میں محفوظ رہے لیکن وہ بیچارے جو محنت مزدور کرتے تھے اس طویل دشمنی کا ایندھن بننے لگے جو اس خطے میں پھیلی ہوئی ہے۔ جب ایک گروہ میدانِ جنگ سے واپس لوٹتا ہے تو اپنی دشمنی بھی ساتھ لاتا ہے لیکن یہاں پر وہ دوسرے گروہ کے لیے نرم چارہ بن جاتا ہے۔ پاکستان میں "ہزارے"نرم چارہ ہیں۔ انہیں مار کر گذشتہ جنگوں کا بدلہ بھی لیا جاتا ہے اور انہیں بحیثیت قوم خوفزدہ بھی کیا جاتا ہے۔ (ختم شد)

About Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan

Orya Maqbool Jan is a columnist, writer, poet and civil servant from Pakistan. He has written many urdu columns for various urdu-language newspapers in Pakistan. He has also served as director general to Sustainable Development of the Walled City Project in Lahore and as executive director ECO, Cultural Institute, Tehran and information secretary to the government of the Punjab.