Saturday, 17 May 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Wazir e Azam Ke Darbar Mein Baithe 9 Ratan

    Wazir e Azam Ke Darbar Mein Baithe 9 Ratan

    بزدلی کے طعنے میری ڈھیٹ ہڈی کو اب اشتعال نہیں دلاتے۔ اپنے خیالات سرکار کی اجازت سے شائع ہونے والے اخبار میں چھپنے کے قابل بنانے کے لئے لکھنے والے کے لئے احتیاط لازمی ہے۔ خلوص سے اپنائی احتیاط بتدریج آپ کو بہت کچھ کہہ دینے کا ہنر سکھادیتی ہے۔ عمر تمام یہ ہنر سیکھنے کی نذر کردی۔ ہنر پر کامل گرفت مگر نصیب نہ ہوئی۔ اسی باعث صحافتی عمر کا چوتھائی حصہ بے روزگاری کی اذیت میں گزاردیا۔

    بزدلی اور بہادری کے تصور کے بارے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے جان کی امان پاتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب کی خدمت میں دست بستہ عرض یہ کرنا ہے کہ عالمی منڈی میں اگر پٹرول کی قیمت کم ہوئی تھی تو منگل کی رات اس کے حوالے سے مہیا ہوئی سہولت وفاقی حکومت کو خلق خدا کی جانب ریلیف کی صورت منتقل کرنا چاہیے تھی۔ اپریل 2022ء میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے بعد شہباز صاحب نے ان کی جگہ لی تو پاکستان کو "دیوالیہ" ہونے سے بچانے کے لئے پٹرول کی قیمت میں یکمشت ناقابل برداشت اضافے کا اعلان ہوا۔

    مذکورہ فیصلے نے عمران خان کو سیاسی اعتبار سے حیات نو فراہم کی۔ خلقِ خدا کی بے پناہ اکثریت کو وہ اس امر پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ امریکہ کی بائیڈن حکومت نے انہیں وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کی گیم لگائی کیونکہ وہ پاکستان کے لئے سستا پٹرول حاصل کرنے کی خاطر روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہ رہے تھے۔ ان کی بتائی کہانی میں حقائق کے اعتبار سے بے تحاشہ جھول تھے۔ لوگوں کی بھاری بھر کم تعداد نے مگر اسے قبول کیا۔ عمران حکومت کے خلاف ان کے غصے کی بنیادی وجہ مہنگائی تھی۔ انہیں امید تھی کہ ان کی جگہ لینے والی حکومت مہنگائی میں کمی کی راہ اپنائے گی۔

    شہبازشریف کے لگائے وزیر خزانہ -مفتاح اسماعیل- جو معاشیات کے طالب علم ہونے کے علاوہ ایک کامیاب کاروباری خاندان کے رکن بھی ہیں عوام کو روزانہ کی بنیاد پر یہ سمجھانا شروع ہوگئے کہ عالمی منڈی کے مقابلے میں پاکستانیوں کو سستا پٹرول فراہم کرنے کے لئے عمران حکومت قومی خزانے کو کمزور کرتی رہی۔ "سستا پٹرول" غریب عوام کے بجائے اشرافیہ کے ان طبقات کی زندگیاں آسان بناتا ہے جن کے گھر میں ایک نہیں اوسطاََ تین سے چار جہازی سائز کی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ سستا پٹرول درحقیقت ان کی پرآسائش زندگی کو قومی خزانے سے سبسڈی فراہم کرتے ہوئے "عیاشی" کی ترغیب دیتا ہے۔ غریب پاکستانی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔

    ایمانداری کی بات ہے کہ مفتاح اسماعیل کے دلائل سننے میں جائز ہی نہیں بلکہ منطقی بھی محسوس ہوتے۔ وہ تنقید خوش دلی سے برداشت کرلیتے ہیں۔ اکثر ان سے دوستانہ گفتگو کرتے ہوئے ان کی ذہانت سے فریاد کرتا کہ وہ کوئی ایسی ترکیب بھی سوچیں جس سے موٹرسائیکل کو قسطوں میں خریدنے کا "جرم" سرزد کرنے والا نچلے متوسط طبقے کا پاکستانی عالمی منڈی میں پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود اسے اپنی ضرورت کے مطابق وطن عزیز میں آسان نرخوں پر خرید سکے۔ کئی بار اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو چند ذہین دوستوں نے "ٹارگٹڈ سبسڈی"کے حصول کا ذکر کیا۔ اس کا آسان زبان میں مطلب ان طبقات کو حکومت کی شفقت سے تھوڑی ریلیف پہنچانا ہے جو اقتصادی اعتبار سے واقعتا اس کے مستحق ہیں۔ مفتاح صاحب نے ان سب کے خیالات بہت توجہ سے سنے۔ ان پر عمل مگر ہونہ سکا۔

    اپریل 2022ء سے بتدریج مگر پاکستان کے عوام کو مسلسل تکرار سے یہ تلخ حقیقت تسلیم کرنے کا عادی بنادیا گیا کہ غیر ملکوں سے تیل درآمد کرنے کے عادی ملک میں پٹرول کے صارف کو اس جنس کی عالمی منڈی میں رائج قیمت ہر صورت ادا کرنا ہوگی۔ اس اصول کو خواہ بددلی سے قبول کرلینے کے بعد عوام یہ توقع رکھنے میں حق بجانب تھے کہ عالمی کسادبازاری کے موجودہ دور میں جبکہ تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں تیزی سے گررہی ہے پٹرول پاکستان میں بھی سستا بکنا شروع ہوجائے گا۔ منگل کی رات ہم پاکستانیوں کی اکثریت یہ امید باندھے بیٹھی تھی کہ پٹرول کی قیمت میں عالمی منڈی کے رحجان کو مدنظر رکھتے ہوئے کم از کم نوروپے کمی کا اعلان ہوگا۔

    منگل کی رات نو بجے سے قبل مگرٹی وی چینلوں کو حکم ملا کہ 8بجے سے نوبجے کے درمیا ن چلائے "پرائم ٹائم" پروگراموں کے درمیان وزیر اعظم کے کابینہ کے اجلاس سے خطاب کی جھلکیاں کسی بھی وقت چلانی پڑسکتی ہیں۔ بالآخر وہ چلیں تو "خبر" ہمیں یہ ملی کہ پٹرول کی عالمی منڈی میں گرتی قیمت سے قومی خزانے کو جو سہارا ملا ہے اس کی بدولت میسر ہوئی اضافی رقم سڑکوں کی تعمیر پر خرچ ہوگی۔ سکھر کو کراچی سے موٹروے کے ذریعے ملانا ملک کو جدید ترین بنانے کے لئے لازمی ہے۔

    کوئٹہ سے چمن کو ملانے والی شاہراہ بھی دورویہ ٹریفک کو یقینی بنانے کا تقاضہ کرتی ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کے لئے مگر قومی خزانے کے پاس رقم کئی اعتبارسے موجودہے۔ اگر موجودنہیں تب بھی حکومت کے ٹیکس اکٹھا کرنے والوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اب تک پاکستان کے ان خوشحال طبقات کی نشاندہی اور ان سے ان کی آمدنی پر واجب ٹیکس اکٹھا کرنے کے طریقے ڈھونڈچکے ہوتے جو قومی خزانے کو اس قابل بنائیں کہ ہم ملک کی ترقی کے لئے درکار انفراسٹرکچر تعمیر کرسکیں۔

    تیل کی قیمت میں جو کمی عالمی منڈی میں ان دنوں نظر آرہی ہے وہ ہر حوالے سے عارضی ہے۔ اس کے استقلال کے لئے روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے علاوہ اس امر کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کا ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ ہوجائے۔ یمن کے حوثی سمندری تجارت میں رخنہ ڈالنے کے قابل نہ رہیں۔ ٹرمپ دیوانہ نظر آنے کے باوجود مذکورہ اہداف پر توجہ دے رہا ہے۔ وہ امریکہ کو دنیا بھر کے لئے تیل اور گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بھی بنانا چاہ رہا ہے۔ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے مگر اسے وقت درکار ہے۔

    دریں اثناء تیل کی گرتی قیمت کی وجہ سے پاکستان کے عوام کی بے پناہ تعداد کو جو ریلیف مل سکتی تھی اسے یقینی بناکر لاکھوں نہیں کروڑوں گھرانوں کو مہنگائی کے حوالے سے تھوڑی ریلیف پہنچائی جاسکتی تھی۔ وزیر اعظم نے مگر اس پہلو کی جانب توجہ ہی نہیں دی۔ کاش ان کے دربار میں بیٹھے نورتنوں میں سے کوئی ایک شخص انہیں یہ بتانے کی جرات دکھاپاتا کہ پاکستان کے غریب عوام گزشتہ تین برسوں سے مسلسل اس خوف میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنا موجودہ معیار زندگی برقرار نہیں رکھ پائیں گے۔ منگل کی شام عالمی منڈی میں تیل کی گرتی قیمت کی وجہ سے قومی خزانے کو ملے سہارے سے ان طبقات کو تھوڑی ریلیف پہنچاکر دلاسہ فراہم کیا جاسکتا تھا۔ یہ موقع مگر گنوادیا گیاہے۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.