Wednesday, 23 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Trump Ki Iran Ke Khilaf Jang Mein Koodne Ki Tayyari

    Trump Ki Iran Ke Khilaf Jang Mein Koodne Ki Tayyari

    رپورٹر سے "کالم نگار" ہوئے مجھ جیسے بے ہنر افراد کے اذہان بحران کے دنوں میں مفلوج ہوجاتے ہیں۔ طے نہیں کر پاتے کہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر توجہ دیں یا کسی اہم واقعہ کے پس منظر اور ممکنہ نتائج پر ذہن آزمائی سے کام چلائیں۔ منگل کی صبح اٹھ کر ایسا ہی محسوس کررہا ہوں۔

    امریکی صدر دنیا کے خوش حال ترین ممالک کی تنظیم G-7کے اجلاس میں شرکت کے لئے کینیڈا گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے موصوف نے "اچانک" واشنگٹن لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ لوٹنے سے قبل مگر ایکس کہلاتے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے لئے ایک پریشان کن پیغام بھی لکھا جو عندیہ دے رہا تھا کہ امریکہ اسرائیل کی حمایت میں ایران کے خلاف جنگ میں کودنے کا ذہن بناچکا ہے۔ اس خیال کو تقویت اس خبر نے بھی فراہم کی جس کے مطابق امریکی صدرواشنگٹن پہنچتے ہی قومی سلامتی کے اجلاس کی صدارت کرے گا۔

    یہ الگ بات ہے کہ متوقع اجلاس کے خاتمے سے قبل ہی ٹرمپ نے ایک بار پھر انتہائی سخت الفاظ میں اس عہد کا اعادہ کیا کہ وہ ایران کو کسی صورت ایٹمی قوت بننے نہیں دے گا۔ اس کے ساتھ ہی تہران کے باسیوں کے لئے یہ "حکم" صادر کردیا کہ وہ اس شہر سے جلد از جلد نکل جائیں۔ موصوف کے ایرانی شہریوں کو دئے "احکامات" مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہے ہیں کہ امریکی صدر اسرائیل کی حمایت میں اپنی افواج اور جنگی وسائل ایران کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ باندھ چکا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بدھ کی صبح جب یہ کالم آپ اخبار میں پڑھ رہے ہوں تو امریکی فضائیہ بھی ایران میں معمول کی زندگی تباہ کرنے کے لئے اسرائیل کی مدد میں فعال ہوچکی ہو۔

    اس خدشے کا اظہار میں نے ایکس ہی پر ٹرمپ کے لکھے ایک اور پیغام کو پڑھنے کے بعد کیا۔ مذکورہ پیغام میں اس نے ٹکرکارلسن (Carlson Tucker)نامی ایک معروف صحافی کو نام لے کر لتاڑا ہے۔ کارلسن ایک زمانے میں ٹرمپ کے چہیتے اور دائیں بازو کے حتمی ذہن ساز فوکس ٹی وی کا معروف ومقبول ترین اینکر تھا۔ بائیڈن کے دورِ حکومت میں اس کے بیان کردہ خیالات ونظریات فوکس ٹی وی کو پئے در پئے مقدمات میں الجھانے لگے۔ کارلسن کو ٹی وی سکرین سے ہٹالیا گیا۔ ٹی وی سکرین چھن جانے کے بعد کارلسن نے اپنا وی لاگ شروع کردیا اور چند ہی دنوں میں اپنے ہم خیال افراد کی ایک متاثر کن تعداد کے ساتھ مکالمہ برقرار رکھا۔

    کارلسن بنیادی طورپر اس خیال کا پرجوش حامی ہے کہ امریکہ کو "پرائی" جنگوں میں الجھ کر اپنی قوت وتوانائی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ امریکہ کو "دوبارہ عظیم" بنانے کے لئے لازمی ہے کہ "پرائی" جنگوں سے ہر صورت دور رہا جائے۔ اسی خیال پر ثابت قدمی سے ٹکے رہتے ہوئے وہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد بطور "آزاد" صحافی روس گیا اور اپنے وی لاگ کے ذریعے ناظرین کو یہ دکھانے کی کوشش کی کہ یوکرین کے خلاف جنگ مسلط کرنے کے باوجود روس میں زندگی معمول کے مطابق ہے۔ وہاں کے لوگ بھی امریکہ کے مقابلے میں نسبتاََ پرامن اور خوش حال زندگی سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ روسی صدر نے اسے ایک طویل انٹرویو بھی دیا۔

    ٹکرکارلسن کے علاوہ ایک اور مہا "ذہن ساز" بھی ہے۔ نام ہے اس کا سٹیو بینن (Bannon Steve)وہ بھی خود کو امریکہ کے "عام آدمی" کا ترجمان بناکر پیش کرتا ہے اور مسلسل یہ پیغام اجاگر کرتا رہتا ہے کہ امریکہ کی اشرافیہ "بے حس" ہوچکی ہے۔ اس کے صنعت کار اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے بجائے چین جیسے ملکوں میں سستی اجرت کے لالچ میں فیکٹریاں لگاکر امریکہ میں بے روزگاری کو فروغ دیتے رہے۔ تیزی سے پھیلتی بے روزگاری امریکہ کی سفید فارم اکثریت کے لئے مزید ناقابل برداشت اس لئے بھی ہورہی ہے کہ امریکی ریاست دیگر ممالک سے آئے تارکین وطن کو اپنے ملک میں آباد رہنے سے نہیں روکتی۔ وہ کسی نہ کسی طرح امریکہ پہنچ جائیں تو مقامی کاروباری طبقوں کے لئے سستی اجرت پر کام کرنا شروع کردیتے ہیں۔

    اپنے خیالات کو متاثر کن انداز میں پیش کرنے کا ہنر بینن کو خوب آتا ہے۔ بنیاد پرست عیسائی اور نسل پرست ہونے کے باوجود اس کے مداحین بینن کو "انقلابی" شمار کرتے ہیں جو ریاستی اشرافیہ کا دشمن ہے۔ بینن کے خیالات نے 2016ء میں ٹرمپ کو صدارتی انتخاب جیتنے کے لئے کلیدی مواد فراہم کیا۔ وائٹ ہا?س پہنچ کر ٹرمپ نے اسے اپنا معاون مقرر کردیا۔ بینن کے دل میں بیٹھا "انقلابی" مگر ریاستی عہدے پر زیادہ دنوں تک ٹک نہیں پایا۔

    ریاستی اشرافیہ کا دشمن مشہور ہوا بینن بھی ٹکرکارلسن کی طرح ان دنوں "وارروم" کے نام سے ایک پوڈ کاسٹ چلاتا ہے۔ اس پوڈ کاسٹ کے ذریعے وہ اسرائیل کو یاد دلاتا رہا ہے کہ ایران پر حملے کا فیصلہ اس کے وزیر اعظم نیتن یاہونے کیا ہے۔ اسے یہ توقع نہیں رکھنا چاہیے کہ امریکہ بھی اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ اس جنگ میں شریک ہوجائے گا۔ ٹکر کارلسن اس کے Room" "War نامی پوڈ کاسٹ میں تواتر سے شریک ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ایران پر جنگ مسلط ہونے کے بعد سے وہ دونوں مل کر نہایت شدت سے ٹرمپ کو بھی یاد دلارہے ہیں کہ اسے امریکی عوام نے "امریکہ کو دوبارہ عظیم" بنانے کے لئے ایک بار پھر صدر منتخب کیا ہے۔ ٹرمپ کا امریکی عوام سے یہ وعدہ بھی تھا کہ وہ "خواہ مخواہ" کی جنگوں میں نہیں الجھے گا۔ ماضی کے صدور کی طرح عراق اور افغانستان جیسے ملکوں میں "رجیم چینج" جیسی پالیسیوں سے گریز کرے گا۔

    بینن اور کارلسن اصرار کررہے ہیں کہ امریکہ اگر ایران کے خلاف اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ میں شامل ہوگیا تو ٹرمپ انتظامیہ بھی ویسے ہی گرداب میں پھنس جائے گی جس کا سامنا امریکہ کو عراق اور افغانستان میں کرنا پڑا تھا۔ ٹرمپ کو مسلسل یاد دلارہے ہیں کہ افغانستان کے گرداب سے اس کی سابقہ حکومت ہی نے نکالنے کے لئے دوحہ مذاکرات کئے تھے۔ اسی باعث امریکی عوام ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک نے اسے "امن کا حامی" شمار کیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم مگر اسے ہی نہیں بلکہ امریکہ کو بھی ایران میں عراق اور افغانستان جیسے بحران کی جانب دھکیل رہا ہے۔

    کارلسن کا نام لے کر لکھا ٹویٹ مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہا ہے کہ ٹرمپ کینیڈا میں قیام کے دوران ایران کے خلاف مسلط کردہ جنگ میں حصہ لینے کے لئے اپنا ذہن بناچکا ہے۔ میری اگرچہ شدید خواہش ہے کہ جب یہ کالم چھپے تو میری سوچ غلط ثابت ہو۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.