Monday, 28 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Trump Ka Netanyahu Ko Gali Dene Ka Pas Manzar?

    Trump Ka Netanyahu Ko Gali Dene Ka Pas Manzar?

    نیٹو کانفرنس میں شرکت کے لئے جہاز میں سوار ہونے سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کو کیمروں کے روبرو گالی دی۔ وہ گالی ریکارڈ ہوکر نشر ہوگئی تو مجھ سمیت دنیا کے کئی لوگ محض یہ سمجھتے رہے کہ ٹرمپ کی اسرائیل سے ناراضگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بندی کے اعلان پر عملدرآمد کرنے میں لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔

    جنگ بندی کے اعلان کے چند گھنٹے بعد ایران کی جانب سے پھینکا ایک میزائل اسرائیل کی سرحدوں میں در آیا۔ اس کی وجہ سے پھیلی تباہی سے غضب ناک ہوکر اسرائیلی وزیر دفاع نے تہران کے قلب میں واقع چند ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا اعلان کردیا۔ ٹرمپ اسرائیل کو جوابی وار سے روکنے کو متحرک ہوگیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر لمبی گفتگو کی۔ مذکورہ گفتگو کے باوجود نیتن یاہونے نسبتاََ کم جارح انداز میں ایران کی فضائوں میں بمبار طیارے بھیج کر بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وعدے کے ساتھ کہ یہ اس کی جانب سے ہوا آخری حملہ ہوگا۔ بعدازاں وہ اپنے وعدے پر عملدرآمد کرتا بھی نظر آیا۔

    سوال اٹھتا ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کے مابین ٹیلی فون گفتگو کی بدولت نسبتاََ نظرانداز کئے جانے کے قابل حملے کے باوجود ڈونلڈٹرمپ اسرائیل کو گالی دینے کو کیوں مجبور ہوا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے میرے ایک مہربان دوست نے مجھے کئی بار وہ ٹیپ سننے کو مجبور کیا جو ہیلی کاپٹر کے پروں کے شور میں ٹرمپ کی دی گالی کو ریکارڈ کرسکی۔ بہت توجہ سے اسے سننے کے بعد یہ دریافت ہوا کہ ٹرمپ اسرائیل سے بنیادی طورپر اس وجہ سے ناراض ہوا کیونکہ اس کے ایران کی فضائوں میں درآئے طیاروں کی جانب سے پھینکاایک راکٹ ایک "غلط سمت" کی جانب چل پڑا تھا۔

    "غلط سمت" کی تفصیل ابھی تک عالمی میڈیا میں نہیں آئی ہے۔ جنگی امور پر نگاہ رکھنے والے وہ ذرائع جن پر میں گزشتہ تین دہائیوں سے تکیہ کررہا ہوں اصرار کررہے ہیں کہ "غلط سمت" درحقیقت وہ محفوظ مقام تھا جہاں اسرائیل کی معلومات کے مطابق ایران کے روحانی رہ نما اور سپریم لیڈر آیت اللہ خمینائی قیام پذیر تھے۔ اسرائیل گویا جنگ بندی پر عملدرآمد سے قبل ایران کو اس کے روحانی رہ نماسے محروم کرنا چاہ رہا تھا۔

    "روحانی رہ نما" کے منصب اور اختیارات سے ایرانی سیاسی بندوبست سے نآشنا بے شمار لوگ اختلافات کا حق رکھتے ہیں۔ ریاستی بندوبست کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے البتہ میں اصرار کروں گاکہ اگر اسرائیل جنگ بندی سے چند ہی لمحے قبل اپنے ہدف کے حصول میں کامیاب ہوجاتاتو ایران شدید خلفشار کا شکار ہوجاتا۔ طاقتور قیادت کی عدم موجودگی کی بدولت پیدا ہوئے خلاء کو پُر کرنے کے لئے ایران کی مذہبی قیادت میں شدید اختلافات رونما ہوسکتے تھے۔ اس کے نتیجے میں سیاسی وعسکری ادارے اور ان کے تنظیمی ڈھانچے بھی شدید ابتری کی لپیٹ میں آسکتے تھے۔

    امریکی صدر نے اتوار کے روز لکھے ایک ٹویٹ کے ذریعے ایران میں "رجیم چینج" کی بات یقیناََ کی تھی۔ بعدازاں اسے مگر احساس ہوا کہ ایران میں "رجیم چینج" کے لئے اس کے پاس موثر حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ "رجیم چینج" کے بیان نے البتہ سابق شاہ ایران کے گزشتہ 46برسوں سے بیرون ملک مقیم ہوئے فرزند رضا پہلوی کے دل میں وطن لوٹنے کی امید جگادی۔ وہ "ایکس" پر ایسے پیغامات لکھنا شروع ہوگیا جو اس وہم کا واضح اظہار تھے کہ ایرانی قوم کی بے پناہ اکثریت اس کے وطن لوٹنے کا بے تابی سے انتظار کررہی ہے۔

    موروثی سیاست کے گھمنڈ میں مبتلا رضا شاہ کو یاد ہے کہ اس کے والد کو ایک مقبول وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کو ہٹاکر سی آئی اے نے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی کی مدد سے 1953ء میں شہنشاہ کے تخت پر بٹھایا تھا۔ ان دنوں دنیا مگر امریکی اور کمیونسٹ کیمپ کے مابین سرد جنگ کی ز د میں تھی۔ پاکستان جیسے ملک متحارب فریقین میں سے کسی ایک کاساتھ دینے کو مجبور تھے۔ ہمارے خطے میں "رجیم چینج" کا لفظ 1950ء کی دہائی میں ڈاکٹر مصدق کے خلاف امریکی خفیہ ایجنسی کی مدد سے چلائی "تحریک" ہی کی بدولت متعارف ہوا تھا۔

    بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو بھی جولائی 1977ء کے بعد دعویٰ کرتے رہے کہ جنرل ضیاء کا مارشل لاء درحقیقت امریکہ کی ایماء پر ان کے چلائے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے لگایا گیا ہے۔ بھٹو صاحب نے مگر جلاوطن ہونے کے بجائے تختہ دار پر لٹکائے جانے کو ترجیح دی۔ ان کی اہلیہ اور دُختر-بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو- پاکستان میں موجود رہ کر آمر کا مقابلہ کرتی رہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو وطن چھوڑنے کی مہلت محض چند برسوں کے لئے نصیب ہوئی تھی۔ اس کے باوجود وہ اپریل 1986ء میں دوبارہ وطن لوٹ آئیں۔

    رضا شاہ بھٹو کی وارث خواتین کے برعکس چار سے زیادہ دہائیوں سے بیرون ملک مقیم ہے۔ وہ فرانس کے علاوہ یورپ اور امریکہ کے انتہائی امیر گھرانوں کی دعوتوں میں "ایرانی تہذیب" کے ایک نمونے اور سابق شاہ کے فرزند کی حیثیت میں بلایا جاتا ہے۔ 46 سالوں تک پھیلی جلاوطنی کے دوران اس نے ایسی کوئی ٹیم تشکیل نہیں دی ہے جو مستقل مزاجی سے ایران میں ان دنوں رائج سیاسی بندوبست کا قابل عمل اور امید جگانے والا متبادل پیش کرسکے۔

    ٹرمپ ایک کائیاں شخص ہوتے ہوئے بخوبی جانتا ہے کہ فی الوقت ایران میں "رجیم چینج" ممکن نہیں۔ رضا شاہ کا بھی بے تابی سے انتظار نہیں ہورہا۔ وہ بے چین و بے قرار ہے کہ دنیا اسے "امن کا پیغام بر" کی حیثیت میں یاد رکھے۔ اسی باعث تواتر سے دہراتا ر ہتا ہے کہ حال ہی میں پاک-بھارت جنگ کو "ایٹمی" بن جانے سے اس نے روکا ہے۔ ایران نے جب آبنائے ہرمز بند کرنے کی دھمکی دی تو عالمی منڈی میں تیل کے ایک بیرل کی قیمت 78ڈالر سے آگے بڑھ رہی تھی۔

    دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کے صدر نے فقط ایک ٹویٹ لکھ کر تیل بیچنے والے ملکوں اور کمپنیوں کو متنبہ کیا کہ تیل کی قیمت کو قابل برداشت رکھا جائے۔ اس کے فقط ایک ٹویٹ نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں 9فی صد کمی لادی۔ اسرائیل-ایران جنگ بندی کے بعد اس میں مزید کمی متوقع ہے۔ نیتن یاہو امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر ٹرمپ کے داماد کشنر کے گھر دو سے زیادہ برس تک مقیم رہا ہے۔ اسے ٹرمپ کے مزاج سے نآشنا نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس امر سے بے خبر کہ اپنے دوسرے دور اقتدار میں ٹرمپ "تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے" کیا کرنا چاہ رہا ہے۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.