Friday, 18 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Trump, Field Marshal Mulaqat, Aashiqan Haqaiq Samajhne Se Qasir

    Trump, Field Marshal Mulaqat, Aashiqan Haqaiq Samajhne Se Qasir

    امریکہ میں مقیم عاشقان عمران خان کو اپنے گھر تک محدود ہوا یہ قلم گھسیٹ دیوانوں کی طرح اس کالم کے ذریعے سمجھاتا رہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے پاکستان میں "اصل جمہوریت" کی بحالی کے لئے اپنے قائد کی رہائی یقینی بنانے کی توقع نہ باندھیں۔ مجھے مگر نہایت رعونت سے یہ بتایا گیا کہ جو عاشقان اپنے محبوب کی رہائی کے لئے متحرک ہیں وہ امریکہ کے سیاسی نظام اور اس پر اثرورسوخ کی حامل قوتوں اور افراد کو مجھ دو ٹکے کے رپورٹر سے کہیں زیادہ سمجھتے ہیں۔ "دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت" ہونے کے ناطے امریکہ ویسے بھی بنیادی انسانی حقوق کا حتمی محافظ ہے۔ وہ عدالتی نظام کی خودمختاری بھی یقینی دیکھنا چاہتا ہے۔

    امریکہ کی "جمہوریت" سے محبت کی مبینہ داستانیں سن کر اُکتاجاتا تو وطن عزیز کی تاریخ یاد دلانے کو مجبور ہوجاتا۔ 1950کی دہائی سے چلی داستان جنرل مشرف کے زمانے میں صدر بش کے ساتھ "جگری دوستی" کی صورت ہمارے سامنے آئی تھی۔ ٹرمپ ویسے بھی وکھری نوعیت کا شخص ہے۔ اسے "جمہوری اصول" نہیں طاقتور افراد پسند آتے ہیں۔ اسی باعث چند ہی دن قبل دنیا میں تہذیب، جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کی علامت قرار پائے جی -سیون ممالک کے اجلاس میں شریک ہونے کینیڈا آگیا تو کیمروں کے روبرو اصرار کرتا رہا کہ اگر یہ ممالک روس کو بھی اپنی تنظیم کا حصہ بنالیتے تو پوتن یوکرین پر حملہ آور نہ ہوتا۔ اپنے سابقہ دور اقتدار میں وہ شمالی کوریا کے صدر کی دلجوئی میں مصروف رہا تھا۔

    "سول اداروں کی بالادستی" کا وہ اتنا حامی ہے کہ حال ہی میں لاس اینجلس شہر میں ہوئے نسلی فسادات پر قابو پانے کے لئے اس نے مقامی انتظامیہ اور گورنر کی رائے کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرتے فوجی رضا کاروں کو وہاں تعینات کردیا۔ یہ دھمکی بھی دی کہ اگر فسادات نہ رکے تو وہ امریکی فوج کے طاقتور ترین میرین دستوں کو بھی اس شہر میں امن وامان بحال کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ ایسے لیڈر سے پاکستان میں "سول اداروں کی بالادستی" کی توقع رکھنا خام خیالی تھی۔ اپنے قائد کے عشق میں گرفتار دوست مگر بنیادی حقائق سمجھنے سے انکاری رہے۔ مجھ "لفافے" کے خیالات کا تمسخر اڑاتے ہوئے میری ذات کو نشانہ بناتے رہے۔

    بدھ کی دوپہر امریکی صدر نے پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہائوس میں دوپہر کے کھانے پر بلایا۔ امریکی صدر کی جانب سے کسی بھی ملک کی فوج کے سربراہ کے اعزاز میں ایسا کھانا کبھی ریکارڈ پر نہیں آیا۔ پاکستان کے جن فوجی سربراہوں سے امریکی صدور جپھیاں ڈالتے رہے ہیں وہ ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی طرح سربراہ مملکت بھی شمار ہوتے تھے۔ ان سے ملاقات درحقیقت امریکی صدر کی اپنے ہم منصب سے ملاقات تصور ہوتی تھی۔

    اپنے ہی ملک کی روایات اور پروٹوکول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ محض فوٹو بنوانے کے لئے ہیلو ہائے نہیں کی ہے۔ وائٹ ہائوس کے کیبنٹ روم میں کھانے کی میز پر بلایا جہاں اس کے قومی سلامتی امور کے مشیر کے علاوہ امریکی فوج کے اہم عہد دار بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس ملاقات کو بے شمار "سیانے" ایران واسرائیل کے مابین جاری جنگ کے تناظر میں رکھ کر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس امکان کو ہرگز رد نہیں کیا جاسکتا کہ کھانے کی میز پر ہوئی گفتگو کے دوران ایران کا ذکر بھی ہر صورت ہوا ہوگا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ٹرمپ نے اس امکان کی یہ کہتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ "پاکستانی ایران کو ہم(امریکہ) سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں"۔

    یہ کہنے کے ساتھ ہی اس نے بین السطور یہ وضاحت بھی کردی کہ پروٹوکول کی تمام روایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ کو کھانے کی دعوت پر کیوں بلایا گیا۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے اس نے روانی میں یہ انکشاف کیا کہ حالیہ پاک-بھارت جنگ رکوانے کے لئے اس کے معاونین پاکستان اور بھارت کے جن فیصلہ سازوں سے مسلسل رابطے میں تھے ان میں سے سب سے معقول ومثبت رویہ عاصم منیر نے اختیار کیا۔ عاصم منیر کی "معقولیت" نے ٹرمپ جیسے اناپرست کو مودی کے رویے کا تنقیدی جائز لینے کو مجبور کیا۔ اس کی خواہش تھی کہ کینیڈا جاتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم چند لمحوں کے لئے واشنگٹن رکے اور وائٹ ہائوس میں امریکی صدر سے ملاقات کرے۔

    بھارتی وزیر اعظم کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ اگر اس نے امریکی صدر کی دعوت قبول کرلی تو ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے مابین دائمی امن کے حصول کے لئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہے گا۔ "ثالثی" کو غچہ دینے کے لئے مودی نے "اہم مصروفیات" کے بہانے واشنگٹن آنے سے معذرت کرلی۔ اس کا انکار ٹرمپ نے اپنی توہین تصور کیا۔ بدلہ لینے کے لئے سفارتی اداب بالائے طاق رکھتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ کے اعزاز میں دوپہر کے کھانے کا اہتمام کردیا۔

    ہمارے ہاں بہت کم لوگوں نے یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھی ہے کہ مودی کے انکار سے ناراض ہو کر ٹرمپ عین اسی وقت کینیڈا سے امریکہ واپسی کے لئے جہاز میں بیٹھا جب اس ملک میں مودی کا طیارہ لینڈ ہورہا تھا۔ نظر بظاہر ہم یہ سمجھے کہ ٹرمپ ایران کے بارے میں کوئی ہنگامی فیصلہ لینے کے لئے جی سیون کی کانفرنس چھوڑ کر وطن لوٹ رہا ہے۔ اس کی کینیڈا سے "اچانک روانگی" کو مودی کی اس ملک آمد کے تناظر میں دیکھ نہیں پائے۔

    پاکستان ویسے بھی تنہا ملک ہے جس کا ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنی پارلیمان میں 4مارچ کے روز تقریر کرتے ہوئے شاندار انداز میں ذکر کیا تھا۔ وجہ داعش کے اس دہشت گرد کی ہماری جانب سے ہوئی گرفتاری تھی جو امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے دوران ایک بڑی واردات کا مبینہ طورپر مرتکب ہوا تھا۔ وہ جس مقام پر ہمارے خطے میں پناہ گزین تھا اس کی نشاندہی امریکہ نے کی۔ ہم نے اسے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کردیا۔ کم از کم 4برس سے امریکہ کو مطلوب اس دہشت گرد کی گرفتاری نے ٹرمپ کا دل جیت لیا۔

    مذکورہ گرفتاری کے چند ہی دن بعد مگر پہلگام میں ہوئی وحشیانہ دہشت گردی کی ایک واردات کے بعد کسی بھی ٹھوس ثبوت کے بغیر بھارت نے اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا اور بالآخر 6اور 7مئی کی درمیانی رات پاکستان کے تین شہروں پر میزائل برساتے ہوئے اپنے تئیں "دہشت گردی کے ٹھکانے اور تربیت گاہیں" تباہ کردیں۔ اس کی دراندازی کے بعد پاکستان ہاتھ پر ہاتھ دئے خاموش بیٹھا رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ دراندازی کا مؤثر جواب دیا گیا تو معاملات یقیناََ مزید سنگین ہونا شروع ہوگئے۔ ٹرمپ نے جائز بنیادوں پر یہ محسوس کیا کہ پاک-بھارت کشیدگی ایٹمی جنگ تک لے جاسکتی ہے۔ اسے رکوانے کو وہ متحرک ہوگیا۔ بھارت جنگ بندی پر آمادہ تو ہوگیا مگر آج بھی یہ تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں کہ اسے امریکی صدر نے اس امر کو مجبور نہ سہی قائل یا مائل کیا تھا۔

    پاکستان بھارت کے برعکس کھلے دل سے امریکی کردار کو تسلیم اور سراہ رہا ہے۔ امریکی صدر کی فیلڈ مارشل عاصم منیر کو کھانے کی دعوت درحقیقت مذکورہ تناظر میں "تھینک یو" کا اظہار تھی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں امریکہ کے ساتھ مختلف الجہتی تعلقات کو گہرا اور دیرپا بنانے کے لئے ہماری سیاسی وعسکری قیادت کوباہم مل کر ایک مؤثر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.