Thursday, 17 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Netanyahu Ne Trump Ki Razamandi Ke Sath Iran Par Hamla Kya

    Netanyahu Ne Trump Ki Razamandi Ke Sath Iran Par Hamla Kya

    اسرائیل پر ایران کے حملے کی تفصیلات بتانے والے ان دنوں سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ اس کے مختلف پلیٹ فارموں پر سرسری نگاہ ڈالوں تو حیران ہوجاتا ہوں۔ کبھی سوچابھی نہیں تھا کہ ایران اور اسرائیل کے باہمی معاملات سمجھنے والے اتنی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اس جنگ کے مضمرات اور ممکنہ نتائج کے بارے میں اپنی دانش، بگھارنے سے قبل اسرائیل-ایران جنگ کو لیکن میں ایک مختلف حوالے سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور حوالہ ہے موجودہ امریکی صدر-ڈونلڈٹرمپ۔

    میرا یہ دعویٰ شاید قارئین کی اکثریت کو بچگانہ لگے کہ نظر بظاہر اپنی کاروباری صلاحیتوں کو مبالغہ آمیز انداز میں بیان کرنے والا پراپرٹی ڈیلر ٹرمپ بنیادی طورپر مسخرہ محسوس ہوتا تھا۔ سیاست جیسے گہرے اور پیچیدہ شعبے میں اس کی کامیابی کی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی تھی۔ سیاست سے قطعاً ناآشنا ہونے کے باوجود 2016ء میں اس نے سیاست کی ماہر ترین کھلاڑی ہیلری کلنٹن کو شکست دے کر مجھ جیسے تبصرہ نگاروں کو حیران کردیا۔ ہیلری کی ناکامی مزید حیران کن اس لیے بھی محسوس ہوئی کیونکہ وہ کلنٹن کی بیوی تھی جو دورِ حاضر کے سیاستدانوں میں سے کامیاب ترین افراد کی صف اوّل میں شمار کیا جاسکتا ہے۔

    ٹرمپ جب میرے جیسے عقل کل بنے افراد کو پچھاڑکر جیت گیا تو نہایت خلوص، لگن اور دیانتداری سے میں نے اس کی کامیابی کی وجوہات جاننے کے لئت بے تحاشا مضامین اورچند اہم ترین کتابوں کا بغور مطالعہ کیا۔ کلیدی وجہ اس کی جیت کی یہ نظر آئی کہ روایتی اشرافیہ کے مقابلے میں نیویارک کا اہم کاروباری فرد ہونے کے باوجود ٹرمپ اپنی گفتگو اور رویے میں عام آدمی سنائی دیتا ہے۔ عوام کے دل جیتنے کے لیے اس نے سیاست دانوں کو بدی کی علامتیں بناکر پیش کیا جو چکنی چپڑی باتوں سے لوگوں کے دل موہ لینے کے بعد اقتدار میں آتے ہیں تو غریب آدمی کی بھلائی کے لیے تسلی کے دو بول بولنے کاتردد بھی نہیں کرتے۔

    کلیدی وجہ سے آگے بڑھیں تو ٹرمپ نے امریکا کے سفید فام افراد کی اکثریت کے دلوں میں چھپے تعصبات کو بغیر کسی پروا کے برجستہ انداز میں بیان کرنا شروع کردیا۔ دیگر ممالک خاص طورپر لاطینی امریکا کے علاوہ مسلمان ممالک سے امریکا آئے ہر شخص کو اس نے جرائم پیشہ، بتایا۔ انھیں سستی اجرت پر کام کرتے ہوئے امریکی گوروں میں پھیلی بے روزگاری کا واحد ذمہ دار ٹھہرایا۔

    بے روزگاری کا ذکر کرتے ہوئے امریکا کی ایپل جیسی بڑی کمپنیوں کو بھی سخت زبان میں لتاڑتا رہا جو اس کی نظر میں سستی اجرت کی خاطر گزشتہ کئی دہائیوں سے چین میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے اس ملک کو امریکا کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی ذمہ دار تھیں۔ سرمایہ کاری چین منتقل ہونا شروع ہوگئی تو امریکا میں کارخانے بند ہونا شروع ہوگئے۔ بند فیکٹریوں پر مشتمل امریکی راستوں کو اسی باعث Rust States یعنی زنگ آلودہ ریاستیں کہا جاتا ہے۔ ان ریاستوں میں پھیلی مایوسی اور بے روزگاری کو جے ڈی وینس نے اپنے ناول Hillbilly Elegy میں بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ اسی باعث اب کی بار صدارتی انتخاب لڑتے ہوئے ٹرمپ نے اسے اپنے ساتھ نائب صدارت کا امیدوار بنالیا۔

    یہاں تک لکھ چکا تو خیال آیا کہ تمہید لمبی ہوگئی ہے۔ مجھے اسرائیل کے ایران پر ہوئے حملے کا تعلق ٹرمپ کی سیاست سے جوڑنا تھا۔ اس موضوع پر توجہ محدود رکھنا ہوگی۔ اس ضرورت پر عمل کرتے ہوئے جھٹ سے یاد دلانا ہوگا کہ ٹرمپ Deep Stateیعنی دریں دولت، کو بھی امریکی عوام کی اصل دشمن ٹھہراتا رہا۔ ڈیپ اسٹیٹ، درحقیقت ریاست کے دائمی اداروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ سول اور ملٹری بیورو کریسی۔

    ٹرمپ مصررہا کہ اس سے قبل آئے امریکی صدور درحقیقت ڈیپ اسٹیٹ، کے کارندے تھے۔ وائٹ ہائوس پہنچ جانے کے بعد امریکی عوام کی بھلائی کے لیے کچھ کرنے کے بجائے وہ اسلحہ ساز فیکٹریوں کا دھندارواں رکھنے کے لیے دوسرے ممالک پر طویل مدتی جنگیں مسلط کردیتے۔ اسلحہ ساز فیکٹریوں کا دھندا رواں رکھنے کی خاطر مسلط کی جنگوں کا ذکر ٹرمپ سے قبل اوباما نے بھی کیا تھا۔ جنگوں کی مخالفت کی بنیاد پر وہ انتخاب جیت گیا۔ عراق سے امریکی افواج کو جلد از جلد واپس بلوالیا۔ افغانستان میں لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ جو سرمایہ غریب امریکی شہری کی فلاح پر خرچ ہوسکتا تھا افغانستان کو جھکانے پر خرچ ہوگیا۔

    اوباما کی ناکامی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ نے ڈیپ اسٹیٹ کی مسلط کردہ جنگوں کی مزید مذمت شروع کردی۔ افغانستان میں امریکی فوج کو دو دہائیوں تک مسلط رکھنے کی وجہ سے امریکی معیشت کو جو نقصان ہورہا تھا اس پر توجہ دلاتے ہوئے اس نے دوحہ مذاکرات کے ذریعے طالبان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی جانب سے ہوئے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے امریکی افواج کو افغانستان سے 2021ء میں ذلیل ورسوا ہوکر بائیڈن کی صدارت کے دوران وطن لوٹنا پڑا۔

    افغانستان سے ذلت آمیز انخلاء کے باوجود امریکا کا دوبارہ صدر منتخب ہونے کے لیے چلائی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ مستقل مزاجی کے ساتھ امریکا کی دوسرے ممالک کے خلاف خواہ مخواہ، لڑی جنگوں کی مخالفت کرتا رہا۔ وہ مصر رہا کہ اگر وہ امریکا کا صدر ہوتا تو روس کبھی یوکرین پر حملہ آور نہ ہوتا۔ اسے منتخب ہوئے مگر اب 6ماہ ہونے والے ہیں۔ روس اور یوکرین کی جنگ البتہ اب بھی جاری ہے اور ٹرمپ کے پاس اسے رکوانے کو کوئی نسخہ موجود نظر نہیں آتا۔

    اس کی خوش قسمتی مگر یہ ہوگئی کہ بھارت نے 6اور 7مئی کی درمیانی رات پاکستان پر میزائلوں کی بارش کردی۔ بہانہ پہلگام میں ہوئے ایک دہشت گردی کے واقعہ کو بنایا۔ اس واقعہ میں لیکن پاکستان کے ملوث ہونے کا ایک ثبوت بھی دنیا کے سامنے لانے کی زحمت نہ اٹھائی۔ پاکستان خود پر ہوئے حملے کے بعد جوابی حملے کو مجبور تھا۔ وہ بھرپور انداز میں ہوگیا تو صدر ٹرمپ ایٹمی جنگ، رکوانے کے لیے متحرک ہوگیا۔ پاک-بھارت جنگ کی طوالت دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں تھی۔ اپنے تئیں حساب برابر کرلینے کے بعد، دونوں ملک جنگ بندی کو جائز وجوہات کی بنیاد پر تیار تھے۔ ٹرمپ نے کمال ہوشیاری سے اس فضا کا فائدہ اٹھایا۔ اپنے معاونین کو نیند چھوڑ کر پاکستان اور بھارت کے فیصلہ سازوں سے مسلسل رابطے کو مجبور کیا۔ بالآخر جنگ بندی ہوگئی تو روٹھے بچوں کی طرح یہ شکوہ کرنا شروع ہوگیا کہ دنیا اسے ایٹمی جنگ، رکوانے کا کریڈٹ دینے میں ناکام رہی ہے۔ اسے امن کا دیوتا تو کیاامن کا پیغامبر بھی نہیں مانا جارہا۔

    ٹھوس حقائق سے قطع نظر یہ بات جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ پاک-بھارت جنگ کے دوران امریکی صدر واقعتا اس جنگ کو رکوانے کے لیے حیران کن حد تک متحرک رہا۔ اس کی مذکورہ تناظر میں بے چینی و بے قراری اس لیے بھی حیران کن تھی کیونکہ اپنے سابقہ دور صدارت میں وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا تقریباً جگری یار، بن گیا تھا۔ پاکستانیوں کی اکثریت اس کے ماضی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ اپنے دوسرے دورِ صدارت میں وہ بھارت کو جنوبی ایشیاء کا حتمی ٹھیکے دار منوانے کی کوشش کرے گا اور معاشی اعتبار سے اس ملک میں امریکا کی سرمایہ کاری کے ذریعے اسے چین کے برابر کھڑاکرنے کی کوشش کرے گا۔

    تفصیلات جانے بغیر ہم اعتماد سے کچھ چیزیں بیان نہیں کرسکتے۔ بھارتی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے اگرچہ مجھے شبہ ہوتا ہے کہ پاک-بھارت جنگ کے دوران بھارت کے وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ موصوف کے معاونین نے بھی امریکی روابط کاروں سے ویسا ہی رعونت بھرا رویہ اختیار کیا ہوگا جو نہرو کے زمانے سے بھارت کی ہر سرکار خود کو آبادی کے اعتبار سےدنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، قراردیتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ سرد جنگ کے دوران برقرار رکھتی رہی ہے۔ وجہ جو بھی رہی ہو۔ بھارتی رعونت نے ٹرمپ کو پاکستان کاحامی بنادیا۔ ہماری حمایت میں اسے کشمیر بھی یاد آگیا ہے اور وہ اسے حل کرنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہ رہا ہے۔

    سوال اس تفصیلی تمہید کے بعد یہ اٹھتا ہے کہ مئی کے آغاز میں ایٹمی جنگ، رکوانے کو مضطرب ڈونلڈٹرمپ اسرائیل کو ایران پر حملے سے کیوں نہیں روک پایا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے میں یہ نتیجہ نکالنے کو مجبور ہوں کہ ٹرمپ اسرائیل کے ایران پر حملے کے لیے اپنی صدارت سے قبل ہی ذہنی طورپر تیار تھا۔ اس کی حلف برادری کے چند ہی دن بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکا آیا۔ میڈیا میں نیتن یاہو کی واشنگٹن موجودگی کے دوران بات یہ پھیلائی گئی کہ اسرائیلی وزیر اعظم ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کا منصوبہ لے کر آیا تھا۔

    امن کے پیغامبر، (ٹرمپ) نے لیکن اسے مسترد کردیا اور ایران کو ایٹم بم بنانے سے روکنے کے لیے اس سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ سچی بات ہے کہ ابتداً میں بھی ذاتی طورپر اس کہانی کو درست مانتا رہا۔ اب مگر کئی شواہد سامنے آچکے ہیں جو مسلسل عیاں کررہے ہیں کہ نیتن یاہونے ٹرمپ کی رضا مندی کے ساتھ ایران پر حملے کا فیصلہ کیا۔ امریکی رضا مندی سفارتی انداز میں 11جون 2025ء کے روز دنیا کے سامنے آئی تھی۔ یہ تاریخ یادرکھیں اور اسی تاریخ پر توجہ دیتے ہوئے میں اگلے کالم میں کچھ تفصیلات فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.