Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Modi Ki Turkey Aur Azerbaijan Ke Khilaf Yawa Goi

Modi Ki Turkey Aur Azerbaijan Ke Khilaf Yawa Goi

جنگی جنون میں تاریخ کو بھلادینا کوئی ہندوتوا کے پجاریوں سے سیکھے۔ بغیر کسی ثبوت کے پہلگام میں ہوئی دہشت گردی کا بدلہ پاکستان سے لینے کے لئے مودی سرکار نے 6اور 7مئی کی رات ہم پر جنگ مسلط کردی۔ چین کی ٹیکنالوجی ہمیں دفاعی اعتبار سے محفوظ بنانے میں اکسیر کی صورت ثابت ہوئی تو چند برادر ممالک نے اخلاقی اور نفسیاتی مدد سے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔ سعودی عرب نے خاموش سفارت کاری کو مہارت سے استعمال کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی جانب سے جنگ بندی کے لئے ہوئی کاوشوں کو تقویت فراہم کی۔ ترکی اور آذربائیجان البتہ برملا اندازمیں ہماری حمایت کے لئے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔

مودی کو اگر ٹھنڈے ذہن سے سوچیں تو چار دنوں کی پاک-بھارت جنگ کے دوران حقیقی معنوں میں امریکی صدر ٹرمپ نے اسے مایوس کیا ہے۔ بھارت کا وہ پہلا وزیر اعظم ہے جس نے نہرو کی اپنائی "غیر جانبداری" کو منافقانہ قرار دیا اور جدید دور کے تقاضے نبھانے کے نام پر امریکہ کے ساتھ ڈٹ کر کھڑاہوگیا۔ موصوف کو یہ گماں تھا کہ کاروباری دنیا سے اٹھا ٹرمپ بھارت میں بھاری بھر کم امریکی سرمایہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے چین کے برابر کی قوت بنادے گا۔ ٹرمپ اور مودی نے ایک دوسرے کی انتخابی مہم میں بھی کمال ہوشیاری سے حصہ لیا۔ ٹرمپ اس کی خاطر مودی کے آبائی گجرات بھی چلاگیا۔

اپنے سابقہ دور صدارت میں اقتدار سنبھالتے ہی ٹرمپ نے ٹویٹس کی بھرمار سے پاکستان کو امریکہ کی افغانستان میں مشکلات کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔ چین کے ساتھ سی پیک کے تحت طے ہوئے معاہدے بھی اس کی حکومت کو ناپسند رہے۔ پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھا کر راولپنڈی اور اسلام آباد کو مجبور کیا کہ وہ طالبان کو دوحہ میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ ٹرمپ انتظامیہ جب پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے گفتگو میں الجھارہی تھی تو مودی نے 5 اگست 2019ء کے روز بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حیثیت ختم کردی۔ ہم اپنی "شہ رگ" کے لئے کچھ کرنے میں قطعاََ ناکام رہے۔

ٹرمپ کے سابقہ دور کو ذہن میں رکھتے ہوئے مودی کو یقین تھا کہ پہلگام میں ہوئی دہشت گردی کے بعد وہ جس انداز میں پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے امریکہ اس کی حمایت کرے گا۔ بھارتی حملے کو "دہشت گردی" کے خلاف "فیصلہ کن کارروائی" تسلیم کرتے ہوئے ٹرمپ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی بھارت کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کو مائل کرے گا۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ 6 اور 7 مئی کی رات ختم ہوتے ہی ٹرمپ نے جنگ بندی کا تقاضہ شروع کردیا اور بالآخر 10 مئی کے دن ازخود ایک ٹویٹ لکھ کر دنیا کو آگاہ کیا کہ وہ اور اس کے قریبی معاونین 9 مئی کی رات سونہیں پائے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پاکستان اور بھارت "ایٹمی جنگ" کی جانب بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

اس کے لکھے ٹویٹ کے چند گھنٹوں بعد جنگ بندی ہوگئی۔ بھارت مگر تواتر سے اصرار کرتا رہا کہ امریکہ نے جنگ بندی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ ٹرمپ اپنے دعوے کو دہرائے چلا جا رہا ہے اور 13 مئی سے سعودی عرب اور قطر کا دورہ کرتے ہوئے بھی وہ اپنے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتا رہا۔ ایک موقعہ پر وہ اپنے وزیر خارجہ اور مشیر برائے قومی سلامتی -مارکوروبیو- کو کیمروں کے روبرو یہ کہتے ہوئے بھی سنائی دیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مشیران قومی سلامتی کو کھانے کی دعوت پر بلائے۔ اس کے دوران ان دونوں کو باہمی مذاکرات کے ذریعے ایک دوسرے پر میزائل پھینکنے کے بجائے باہمی تجارت پر آمادہ کرے۔ مودی اور اس کے قریب ترین وزراء ٹرمپ کے مسلسل دعوئوں کو جھٹلانے کے لئے ایک لفظ بھی ادا نہیں کررہے۔

چین کی پاکستان کو فراہم کردہ دفاعی ٹیکنالوجی نے بھارتی جارحیت کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے خلاف بھارت میں تنقیدی مضامین لکھے جارہے ہیں۔ کوئی بھارتی مگر یہ کہنے کی جرات نہیں دکھا رہا کہ بھارت کے بازاروں میں بکتی چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا جائے۔ یاد رہے کہ چین بھارت کو اپنے ہاں بنی اشیاء بیچنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ اس کے باوجود بھارت اور چین کے مابین انگریز سامراج کی جانب سے طے ہوئی "سرحد" کو دونوں ملک تسلیم نہیں کرتے۔ اسے "نئے سرے" سے "طے" کرنے کے لئے بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپوں کے سلسلے بھی معمول کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ ماضی اور حال کی تمام تر تلخیوں کے باوجود بھارت کے کاروباری حلقے سیاسی جماعتیں یا نام نہاد سول سوسائٹی چین کے اقتصادی مقاطعے کی بڑھک نہیں لگاتی۔

گزشتہ دو روز سے بھارتی میڈیا میں لیکن دہائی مچائی جارہی ہے کہ بھارتی سیاح ترکی اور آذربائیجان کا بائیکاٹ کریں۔ ساہوکاروں کی طرح حساب کرتے ہوئے بھارتی عوام کو بتایا جارہا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران اوسطاََ تین لاکھ بھارتی ترکی گئے تھے۔ اس ملک میں قیام کے دوران انہوں نے تقریباََ 400 ملین ڈالر رہائش، طعام اور بازاروں میں خریداری میں صرف کئے۔

آذربائیجان ترکی کے مقابلے میں کہیں چھوٹا ملک ہے۔ یہ مگر حسین لوگوں کا حسین ملک بھی ہے۔ اکثر بھارتی وہاں ہنی مون کے دن گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بھارتی ساہوکاروں کے لگائے حساب کے مطابق ان کے ہاں سے ہر برس اوسطاََ ڈھائی لاکھ سیاح آذربائیجان جاتے رہے ہیں۔ اس ملک میں قیام کے دوران بھارتی سیاح اجتماعی طورپر 300 ملین ڈالر خرچ کرتے ہیں۔

سیاحوں کی جانب سے خرچ ہوئے ڈالروں کا ٹوٹل نکال کر بھارتیوں کو اُکسایا جا رہا ہے کہ وہ ترکی اور آذربائیجان جانے سے گریز کریں۔ آذربائیجان کے خلاف مہم چلی تو اس برادر ملک کے ایک تھنک ٹینک کے سربراہ ڈاکٹر احمد شاعر اوغلو نے خم ٹھونک کر بھارت کو یاد دلایا کہ آذربائیجان غیرت مند لوگوں کا ملک ہے۔ وہاں محبت اور دوستی مالی پیمانوں سے جانچی نہیں جاتی۔ بھارت کو یہ علم نہیں کہ پرخلوص دوستی کے جذبات سے مالا مال آذربائیجان ہی نے ایران کے صفوی حکمرانوں کو جنم دیا تھا۔ "قزلباش" درحقیقت ایران اور افغانستان کی افواج کا سب سے دلیر حصہ شمار ہوتے تھے۔

آذربائیجان کو للکارنا لہٰذا وقت کا زیاں ہے۔ ترکی کے حوالے سے فقط اتنا یاد دلانا ہوگا کہ ہندوتوا کے کٹر حامیوں کے دلوں میں دلی میں کئی سوسال تک حکمران رہے "سلاطین" درحقیقت ترک النسل تھے۔ دہلی میں بیٹھ کر ترکی کے خلاف یاوہ گوئی کرنے والوں کو کبھی وقت ملے تو وہاں موجود "قطب کی لاٹ"کے نیچے جاکر سرآسمان کی جانب اٹھائیں اور ترک دلاوروں کی ہیبت کا اندازہ لگانے کی کوشش کریں۔ ذاتی طورپر میں تاریخ کا اسیر رہنے سے گریز کرتا ہوں۔ ہندوانتہا پسندی سے مغلوب ہوئے جنون نے مگر اسے یاد رکھنے کو مجبور کردیا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.