سوشل میڈیا کی وجہ سے جمع ہوا خبروں کا انبار آپ کو اکثر صورتوں میں سطحی معلومات ہی فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طورپر پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں امریکی سیاست پر نگاہ رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت کے دل یہ جان کر شاد ہیں کہ خود کو نہایت جرأت سے "مسلم سوشلسٹ" کی حیثیت سے متعارف کروانے والا ظہران ممدانی نیویارک کا مئیر"منتخب" ہوگیا ہے۔ اصل خبر یہ ہے کہ وہ ابھی میئر منتخب نہیں ہوا بلکہ ڈیموکریٹ پارٹی کے اندرونی انتخابات کے انجام پر اسے مذکورہ جماعت کا اس عہدے کے لئے نامزد کردہ امیدوار تسلیم کرلیا گیا ہے۔
نیویارک سٹی کے میئر کے انتخاب نومبر2025ء میں ہونا ہیں۔ اس کی جیت اگرچہ یقینی نظر آرہی ہے کیونکہ یہ شہر عموماََ ڈیموکریٹ پارٹی کے نامزد کردہ امیدواروں کو اپنا میئر منتخب کرنے کو ترجیح دیتا رہا ہے۔ ظہران کی نامزدگی مگر نیویارک پر قابض ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان اور نسل پرستوں کو پریشان کردے گی۔ اسے ہرانے کے لئے ہر ممکنہ حربہ استعمال ہونا یقینی ہے۔ وسیع تر تناظر میں تاہم ظہران "خیالات کی جنگ" نیویارک شہر کا میئر منتخب ہونے یا نہ ہونے سے پہلے ہی جیت چکا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے اس کی نامزدگی یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ ٹرمپ کی جیت سے بوکھلائی یہ جماعت بتدریج اپنے اوسان پر قابو پارہی ہے۔ اس کے ظہران ممدانی جیسے کارکن جارحانہ انداز میں متحرک رہے تو دو سال بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ کی امریکی پارلیمان پر بالادستی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
فی الحال توجہ مگر ظہران ممدانی کی ذات تک محدود رکھتے ہیں۔ اس کی ذات کی جانب لوٹنے سے قبل مگر یاد دلانا ہوگا کہ نیویارک درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کا اصل مرکز ہے۔ اس کی وال سٹریٹ میں قائم ہوا سٹاک ایکس چینج دنیا کی معاشی تقدیر طے کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی علامت ہونے کے باوجود یہ ایک غریب پرور شہر بھی ہے۔ دنیا بھر سے جابرانہ حکومتوں سے تنگ آئے یا روزگار کے امکانات سے قطعاََ محروم ہوئے افراد سمندری لہروں کی صورت یہاں پہنچ کر مستقل آباد ہوتے رہے ہیں۔ اس شہر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کبھی سوتا نہیں ہے۔ یہاں 24گھنٹے معیشت کا پہیہ کسی نہ کسی صورت رواں رہتا ہے۔
1985ء کے برس میں اس شہر پہلی بار گیا تھا۔ مقصد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی کو رپورٹ کرنا تھا۔ جس سے ان دنوں کے وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو مرحوم نے بھی خطاب کیا تھا۔ مجھے پاکستان سے امریکہ کے لئے روانہ ہونے سے چند دن قبل ہی نیویارک کو "خوب جاننے والے" نہایت فکر مندی سے تلقین کرتے رہے کہ اس شہر پہنچ جانے کے بعد اپنے ہوٹل سے کبھی اکیلے باہر نہ جائوں۔ ہمیشہ گروپ کے ساتھ رہوں اور رپورٹر کی طرح منہ اٹھاکر کسی بھی جانب کسی "نئی" چیز کی تلاش میں نکل پڑنے سے گریز کروں۔
میرے ذہن کو اس قدر مائوف بنادیا گیا کہ نیویارک میں تین دن گزارنے کے بعد میں خود کو ہوٹل میں نظربند ہوا قیدی محسوس کرنے لگا۔ ذہن میں بیٹھے خوف کے علاوہ میں جب بھی آسمان دیکھنے کو منہ اٹھاتا تو سربفلک عمارتوں کی بلندی دیکھ کر دل دہل جاتا۔ پرہجوم فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے خود کو انسانی دیوار سے لگا محسوس کرتا۔ دل پر جمع ہوا بوجھ اس وقت مزید ناقابل برداشت ہوجاتا جب ان ہی فٹ پاتھوں پر غربت سے مجبور انسان بھکاریوں کی طرح بے یارومددگار لیٹے دکھائی دیتے۔
نیویارک سے واپس لوٹنے کے بعد لیکن میں نے اس شہر کی تاریخ کے بارے میں کئی کتابیں اور مضامین پڑھے۔ ان کی بدولت اندازہ ہوا کہ نیویارک درحقیقت میرٹ کے سخت مقابلے کی انتہا پر پہنچا ایک شہر ہے۔ اس کی گلیوں اور محلوں میں جرائم پیشہ گروہوں سے خود کو بچاکر اپنے ٹیلنٹ کو چمکانے والے ککھ سے لکھ ہوتے افراد کی تعداد بے شمار ہے۔ اس کے علاوہ وڈی ایلن کی فلموں نے ایسے نیویارک سے متعارف کروایا جو آرٹ کی ہر قسم کا دلدادہ تھا۔ نیویارک کے ماضی اور حال کو کتابوں اور فلموں کی بدولت جان لینے کے بعد میں جب بھی امریکہ جاتا تو ہر صورت کم از کم ایک ہفتہ نیویارک میں گزارنے کی کوشش کرتا۔
یہ شہر بنیادی طورپر کھلے ذہن کا حامل ہے۔ یہاں ہر مذہب اور نظریہ کے انتہا پسند کثیر تعداد میں موجود ہونے کے باوجود "اقلیت" ہی شمار ہوتے ہیں۔ شہر کا مزاج کھلاڈلا ہے۔ یہ ہر اجنبی کو خوش آمدید کہتا ہے۔ ظہران ممدانی اسی شہر میں بڑا ہوا ہے۔ اس کے والد یوگنڈا سے وظیفے پر پڑھنے امریکہ آئے تھے۔ آبائی تعلق ان کا بھارت کے گجرات سے ہے۔ ظہران کی والدہ میرانائر ہیں جو مشہور فلمساز ہیں اور اپنی روشن خیالی کے لئے معروف۔
ظہران اپنے والد کی وجہ سے خود کو بھی مسلمان کہتا ہے اور اس پہچان کے بارے میں ہرگز شرمندہ نہیں۔ مسلمان نیویارک کی آبادی کا محض 3فی صد ہیں۔ ظہران مگر اس کے بارے میں کبھی فکر مند نہیں ہوا کیونکہ نظریاتی اعتبار سے وہ خود کو "سوشلسٹ" کہتا ہے جو مذہب، رنگ اور نسل کی بنیاد پر ہوئی تقسیم سے بالاتر ہوکر غریب انسانوں کی یکجہتی کے خواب دیکھتا ہے۔ 33 سال کا جوان ہوتے ہوئے وہ بے تحاشہ توانائی کا حامل ہے۔
غالباََ اپنی فلمساز والدہ سے اس نے ابلاغ کا ہنر ورثے میں پایا۔ اس ہنر کو استعمال کرتے ہوئے وہ سوشل میڈیا کے لئے بنائی کلپس کے ذریعے نیویارک کے عام رہائشیوں تک اپنا پیغام پہنچاتا رہا۔ بنیادی پیغام اس کا یہ ہے کہ اپنی محنت ومشقت سے نیویارک کو کبھی نہ سونے والا شہر" بنانے والے اس شہر کے غریب باسیوں کے پاس دووقت کے کھانے کے پیسے بھی کیوں نہیں ہوتے۔ ہزاروں افراد کو کھلے آسمان تلے کیوں سونا پڑتا ہے۔ ان کے لئے سستے مکانات کیوں نہیں بنائے جاتے۔ ان کے علاج ومعالجے کی سہولتیں کیوں موجود نہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی کو عموماََ اسرائیل نواز سمجھا جاتا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران مگر ظہران اگر مگر کئے بغیر یہ اعلان کرتا رہا کہ اگر اسرائیل کا وزیر اعظم نیتن یاہو نیویارک آیا تو وہ بطور میئر اس کی گرفتاری کا حکم دے گا۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو وہ گجرات میں مسلمانوں کے "قتل عام" کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ایسے "خطرناک" خیالات کے برملا اور تواتر کے ساتھ اظہار کے باوجود کھلے مگر سخت مقابلے کے بعد ظہران نے ڈیموکریٹ پارٹی کے میئر کے انتخاب کے لئے نامزدگی جیت لی ہے۔ اس کی جیت یہ پیغام دیتی ہے کہ پرخلوص اور سچی نیت سے اگر غریب انسانوں کی فلاح کے لئے کوئی شخص سیاسی میدان میں ڈٹ کر کھڑا ہوجائے تو مختلف دھندوں کے اجارہ دار سیٹھ، نسل پرست اور متعصب گروہ اس کا کچھ نہیں بگاڑسکتے۔ دنیا کو بھلائی کے لئے ایک نہیں ہزاروں ظہران ممدانی درکار ہیں۔