Wednesday, 23 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Kenya Ka Mashoor Novel Nigar Ngugi Wa Thiongo

    Kenya Ka Mashoor Novel Nigar Ngugi Wa Thiongo

    بیرونِ ملک مقیم میرے بھائیوں سے بھی بڑھ کر ایک دوست بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھارتی اخبارات تک رسائی بہت مشکل ہے۔ میری پیشہ وارانہ ضرورتوں کا احساس کرتے ہوئے وہ لمحہ بہ لمحہ واٹس ایپ کے ذریعے بھارت کی تازہ ترین خبروں سے آگاہ رکھتے ہیں اور ان ہی کی بدولت گزری جمعرات کی سہ پہر مجھے اطلاع ملی کہ بھارتی سینا کے پتی یوپی اور مدھیہ پردیش کی سرحد پر واقع ایک پہاڑی مقام پر پہنچے۔ وہاں موصوف کے گرو نے ایک آشرم بنارکھا ہے۔

    گرو کے چرن چھونے کے بعد انھیں حکم ہوا کہ بھگوان کی رحمتوں سے مالا مال ہونا چاہتے ہو تو پاکستان کے حصے میں موجود کشمیر کو ہر طرح کے جتن لگاکر آزاد، کروانے کو ڈٹ جائو۔ یہ خبر اور اس سے متعلق تصاویر اور وڈیو دیکھ کر میں غصے سے تلملااٹھا۔ اپنے ٹی وی شو اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر ہذیانی غصے کے اظہار کے باوجود تسلی نہیں ہوتی۔

    کافی دن گزرنے کے بعد بھی انتہائی دکھ یہ سوچتے ہوئے محسوس ہورہا ہے کہ بھارتی فوج کے سربراہ کی فوجی وردی پہن کر اپنے گرو کے ہاں حاضری کو ہمارے میڈیا نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اسے بنیادی طورپر پھکڑپن کا نشانہ بناکر نظرانداز کردیا گیا ہے۔ ارادہ باندھا تھا کہ اتوار کی صبح اٹھ کر جو کالم لکھوں گا وہ بھارتی آرمی چیف کی اپنے گرو کے ہاں حاضری کو جامع انداز میں زیر بحث لانے پر توجہ دے گا۔

    ہفتے کی صبح اٹھا تو ٹویٹر کے ذریعے خبر ملی کہ کینیا کے مشہور ناول نگار نگوگی واتھیونگوجہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ میں نے ان کا لکھا صرف ایک ناول پڑھا تھا۔ نام ہے اس کا "Devil on the Cross"۔ اس عنوان کا سادہ ترین ترجمہ صلیب پر لٹکا ہوا شیطان، ہوسکتا ہے۔ یہ ناول نگوگی نے کینیا میں جیل میں قید کے دوران لکھا تھا۔ اسے باغیانہ خیالات، کے وقتاً فوقتاً اظہار کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک سال جیل میں رکھنے کے باوجود برطانوی سامراج کی انتظامیہ مگر طے نہ کر پائی کہ اس کے خلاف کس انداز میں فردِ جرم عائد کرتے ہوئے طویل سزا یقینی بنائی جائے۔

    فردِ جرم کی تصنیف سے قاصر جیل حکام نے مگر نگوگی پر کڑی نگاہ رکھی۔ بنیادی مقصد ان کا یہ رہا کہ قید کے دوران وہ کوئی اور ناول یا ڈرامہ تحریر نہ کر پائے۔ اس کی گرفتاری کی وجہ اس کا لکھا ہوا ایک ڈرامہ تھا جو سٹریٹ تھیٹر، کی ابتدائی شکل تھا۔ اس میں لوک موسیقی اور رقص کے ذریعے کہانی کو یوں آگے بڑھایا گیا جو ڈرامے کے شائقین کو اس امر پر اُکساتی کہ وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر سٹیج پر چلے جائیں اور لوک گیتوں میں بیان ہوئی خواہشِ بغاوت کے اظہار کے لیے اداکاروں کے ساتھ مل جائیں۔

    بظاہر نگوگی نے اپنی جانب سے اس ڈرامے کے لیے غالباً چند ہی سطریں لکھی تھیں۔ اپنے ملک کی لوک داستانوں، گیتوں اور رقص کو اس انداز میں مرتب کیا کہ تماشائی برطانیہ کی غلامی کا احساس کرتے ہوئے اپنی زنجیریں توڑنے کو بے چین ہوجائیں۔ خود پر کڑی نگاہ کے باوجود نگوگی نے صلیب پر لٹکا ہواشیطان، یہ بہانہ تراش کر مکمل کیا کہ اسے دست لگ گئے ہیں۔ جیلر حکام کا فراہم کردہ علاج اسے شفایاب نہیں کرپارہا۔ جیل کے غسل خانے میں متعدد بار جاکر وہ ٹائلٹ پیپر پر یہ ناول لکھتا رہا۔

    جن دنوں وہ یہ ناول لکھنے میں مصروف تھا کینیا میں مائو مائو، تحریک کا آغاز ہوچکا تھا۔ فرانس اور سپین کے مقابلے میں برطانیہ کے غلام ہوئے ملکوں میں گوریلا جنگوں کی گنجائش نکالنا بہت مشکل تھا۔ مکارسامراج نے قانون کی حکمرانی، کے نام پر ہمیں غلام بنائے رکھا۔ مہاتما گاندھی کا متعارف کردہ عدم تشدد، بھی اس ضمن میں بہت کام آیا۔ کینیا میں لیکن گوریلا جنگ کے جواز واسباب نمایاں ہوگئے۔ بنیادی طورپر یہ جنگ، کسانوں کی بغاوت تھی جو اپنی زمین پر غیروں (گوروں) کے قبضے کے خلاف لڑی گئی۔ برطانیہ کو گوریلا جنگوں سے نبردآزماہونے کی عادت نہیں تھی۔ خود کو اس کے روبرو بے بس محسوس کرتے ہوئے وہ مزید وحشی ہوگیا۔

    کتابوں کے ذریعے علم ہوا ہے کہ جب ریاستی تشدد مائو مائو تحریک، پر قابو پانے میں مسلسل ناکام رہا تو ہمارے بلوچستان میں سردار اور ان کی لیویز کا نظام متعارف کروانے والے رابرٹ سینڈیمن کو کینیا طلب کرکے مذکورہ تحریک کو سیاسی چالوں سے ختم کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔ بالآخر وہ تحریک ناکام ہوگئی۔ اس میں حصہ لینے کے جرم میں لیکن نگوگی کے بھائی کو پھانسی پر لٹکادیا گیا۔ آبائی گائوں میں اس کے والدین اور قریبی رشتے داروں کے گھر مسمار کردیے گئے۔ نگوگی کی زندگی میں حیران کن ڈرامہ یہ بھی ہوا کہ اس کا ایک سوتیلا بھائی مائو مائو تحریک کے خلاف مخبری کے فرائض سرانجام دیتا رہا۔

    برطانوی سامراج کے ہاتھوں ملی برسوں تک اپنے خاندان سمیت ذلت ومشقت برداشت کرنے کے باوجود برطانیہ سے آزادی، کے بعد کینیا میں جو حکومت آئی اس نے بھی اس کے خیالات کو باغیانہ، ہی شمار کیا۔ اپنی جان بچانے وہ مختلف ملکوں سے ہوتا ہوا بالآخر امریکا پہنچ کر ایک یونیورسٹی میں پڑھانے لگا۔ وطن سے دوری اور قطع تعلقی بھی لیکن اس کے کام نہ آئی۔ کینیا کی آزادی، کے کئی برس بعد وہ 2004ء میں وہاں اپنی بیوی سمیت گیا تو جس کمرے میں ٹھہرا ہوا تھا وہاں ڈاکو، آگئے۔ ڈاکہ، مگر برائے نام تھا۔ نگوگی کو سبق، سکھانے کے لیے اس کی بیوی کو اس کی آنکھوں کے سامنے گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔ کینیا کی حکومت ڈاکوئوں، کا سراغ لگانے میں آج تک کامیاب نہیں ہوپائی۔

    نگوگی کا لکھا فقط ایک ناول پڑھنے کے باوجود میں اس کے لکھے مضامین پڑھ کر چونک جاتا تھا۔ اس کے لکھے مضامین اس خیال کو تکرار سے اجاگر کرتے ہیں کہ سامراج ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غلام بنائے ملکوں کے باسیوں کو ان کی زبان کے بارے میں شرمندہ محسوس کرنے کو مجبور کرتا ہے۔ برطانیہ نے مثال کے طورپر انڈیا، کینیااور نائیجریا جیسے ملکوں میں انگریزی زبان کے فروغ پر توجہ دی۔ افریقہ میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ اس بحث میں الجھ جاتے ہیں کہ نائیجیریا کی انگریزی، اچھی ہے یا کینیا کی۔

    نگوگی کی نگاہ میں اپنی مادری زبان چھوڑ کر بالآخر اسے بھلادینا غلامی کی حقیقی پہچان ہے۔ اس پہچان کو وہ باعثِ شرم، پکارتا رہا۔ اسی باعث عمر کے آخری برسوں میں وہ ناول پہلے مادری زبان میں لکھتا اور بعدازاں اسے عالمی دنیا تک پہنچانے کے لیے خود ہی اس کا انگریزی ترجمہ کرتا۔ میں اس کے مضامین پڑھ کر کئی دنوں تک شرمسار رہتا۔ نہایت شرمندگی سے یہ حقیقت سینے کو جلائے رکھتی کہ میں اپنی مادری زبان یعنی پنجابی میں ایک سطر بھی نہیں لکھ سکتا۔ عمر کا بیشتر حصہ انگریزی اخبارات کے لیے لکھنے میں صرف کردیا۔ ہمیشہ مگر یہ خوف لا حق رہتا کہ میری گرامر غلط نہ ہو۔ اردو میں یہ کالم لکھتے ہوئے بھی یہ ہی دھڑکا لگارہتا ہے۔ میرا ذہن لہٰذا غلام محسوس ہو تو حیران نہیں ہونا چاہیے۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.