Monday, 04 August 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Jo Guzre Hain Daagh Par Sadme

    Jo Guzre Hain Daagh Par Sadme

    گزرے ہفتے کے آخری کالم میں ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر ایک واقعہ بیان کیا تھا۔ مقصد اس کا یہ حقیقت اجاگر کرنا تھا کہ حبس کے اس موسم میں آئے بجلی کے بل غریب پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت کو زندگی سے بیزارکرچکے ہیں۔ سفید پوشی اور خودداری بھلاکر ان بلوں کو ادا کرنے کے لئے وہ نرم دل واقفان ڈھونڈرہے ہیں جو کسی نوعیت کی مالی معاونت فراہم کرسکیں۔ اسی تناظر میں ایک خودکشی کی کہانی کا بھی اخباروں میں بہت چرچا رہا ہے۔

    وہ کالم اخبار میں چھپ جانے کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوا تو ایک طویل وقفے کے بعد میری لکھی کسی تحریر کو حیران کن تعداد میں شیئرز اور لائیکس ملے۔ بے شمار لوگوں نے درازی عمر کی دعائیں دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ غالباََ میں واحد صحافی رہ گیا ہوں جو (کبھی کبھار) عام پاکستانی کی روزمرہّ زندگی سے جڑے ٹھوس مسائل کا ذکر کرتا ہے۔ جذبات میں چند مہربان یہ بھی سوچنے لگے کہ میرے مرجانے کے بعد ان کی بپتا کون بیان کرے گا۔ نہایت عاجزی سے انہیں یاددلایا کہ لکھنے والوں میں درد مندوں کی کمی نہیں۔ ویسے بھی شاعر نے کہہ رکھا ہے کہ "ہم نہ ہوں گے تو کوئی ہم سا ہوگا۔ "تعریفوں اور دعائوں کے انبار کے ساتھ مگر ایک خاص سوچ کے حامل گروہ نے جسم کے قابل پردہ اعضاء کے ذکرکے بعد میری غریب آدمی کے بارے میں فکرمندی کو منافقانہ ٹھہرایا۔

    ان کی دانست میں یہ قلم گھسیٹ ان افراد میں شامل تھا جو عمران حکومت کو اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کروانے کے ذمہ دار تھے۔ اس کالم کے باقاعدہ قاری اگرچہ گواہی دیں گے کہ عمران حکومت کے خلاف لگی گیم کا ذکر میں نے 2022ء کی ابتداء ہی سے شروع کردیا تھا۔ اس فریاد کے ساتھ کہ عمران حکومت کو آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے۔ "ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے" کو بے چین عمران مخالف قوتوں نے مگر گوشہ نشین ہوئے قلم گھسیٹ کی فریاد پر توجہ دینے کی زحمت ہی نہ کی۔ نہایت اشتیاق سے "دین ودل" لٹانے "اس کی گلی" میں چلے گئے۔ وہ گلی اب "بند" نظر آرہی ہے۔ اس سے نکلنے کی راہ نکالنا مشکل ہے۔ نکل بھی آئی تو یہ خیال (جو اگرچہ میری دانست میں خام خیالی ہے) ہمارے عوام کی اکثریت اپنے دلوں سے نکال نہیں پائے گی کہ عمران حکومت کو اگر قبل از وقت ہٹایا نہ جاتاتو ہماری زندگی شاید اس قدر مشکل نہ ہوتی۔

    بہرحال ذکر اس کالم کا ہورہا تھا جو بجلی کے بلوں کی وجہ سے غریب عوام پر نازل ہوئی قیامت کے بیان پر مبذول تھا۔ ذاتی مشاہدے میں ایک غریب مگر خوددار کی مشکل نہ آتی تب بھی نیا مالی سال شروع ہونے کے بعد حکمران اشرافیہ کی اس سفاکیت کا ذکر کسی نہ کسی صورت کرنے کو مجبور تھا جو حال ہی میں "عوامی نمائندوں" کی جانب سے منظور کئے بجٹ کے اعدادوشمار میں چھپانے کی کوشش ہوئی ہے۔

    وزیر خزانہ کی تمام تر ذہانت وفراست کے باوجود تنخواہ داروں نے نام نہاد برآمد کندگان اور بڑے تاجروں سے کہیں زیادہ رقم ٹیکس کی صورت ریاست پاکستان کو ادا کی ہے۔ جو رقم جمع ہوئی اسے ادا کرنے میں تن خواہ دار کی دیانت نہیں بلکہ اس دھونس (قانون) نے کلیدی کردار ادا کیا جو میرے دفتر کو پابند کرتی ہے کہ مجھے اس کالم کا عوضانہ چیک کی صورت بھجوانے سے قبل اس پر عائد ٹیکس منہا کرلیا جائے۔ اورنگزیب صاحب سینہ پھلاکر رواں برس کے فروری تک "تاجر دوست" سکیم کی کامیابی کا ذکر کرتے رہے تھے۔ مارچ کا مہینہ ختم ہوتے ہی مگر اس مد سے مزید کشید کرنے کی امید سے محروم ہوگئے۔

    امید معدوم ہوئی نظر آئی تو بجٹ کے ذریعے تڑی یہ لگائی کہ ٹیکس ادا نہ کرنے کے عادی سیٹھوں کو ایف بی آر کے افسران ان کے دفتروں میں جاکر گرفتار کرلیں گے۔ "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" اور "سوشلزم ہماری معیشت ہے" کے نام پر قائم ہوئی پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا اور قومی اسمبلی کے 1990ء سے مسلسل منتخب ہوئے رکن سید نوید قمر اس دھمکی کے خلاف متحرک ہوگئے۔ "ملک میں صنعت کا پہیہ چلانے اور غیر ملکی زرمبادلہ کمانے والوں" کی مجرموں کی طرح گرفتاری کا خیال انہیں ظالمانہ لگا۔ یہ کہتے ہوئے میدان میں اترآئے کہ اگر ان "ظالمانہ تجاویز" میں نرمی نہ لائی گئی تو وہ بجٹ کی حمایت میں ووٹ نہیں دیں گے۔ وزارتِ خزانہ کے ذہین وفطین افراد نے انہیں کئی رعایتیں دے کر منایا۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والا سیٹھ لہٰذا معتبر ہی رہے گا۔

    بجلی کے 200یونٹ کی حد ناقابل برداشت حبس کے موسم میں پار کرنے والا غریب البتہ "مجرم" ہی تصور ہوگا۔ اس کے گھر لگا میٹر بل ادا نہ کرنے کی صورت میں اتارلیا جائے گا۔ داد فریاد سے اگر اس نے اپنے کسی ہمسایے سے بجلی حاصل کرلی تو اس کے خلاف تعزیری مقدمہ قائم ہوگا۔ کاش "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" اور "سوشلزم ہماری معیشت ہے" کے "اصولوں" پر قائم ہوئی جماعت اس ضمن میں بھی شہباز حکومت پر کوئی دبائوڈالتی۔ کم ازکم اس امر پر تو قائل کرسکتی تھی کہ غریب آدمی کے لئے سستی بجلی کی حد گرمیوں کے تین یا چار مہینوں میں 200یونٹوں سے بڑھاکر 300یونٹ کردی جائے۔ سیٹھ مانڈوی والا مگر اس جانب توجہ ہی نہیں دے پائے اور سید نویدقمر نہایت خلیق وشفیق شخصیت ہونے کے باوجود سندھ کے بہت بڑے آباد کار (جاگیر دار) ہیں۔ "جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے" انکی توجہ کے مستحق نہیں۔

    ڈرامہ لگانا اور رچانا مگر کوئی ہمارے سیاستدانوں سے سیکھے۔ جس ملک کے 30فی صد کے قریب لوگوں کے لئے بجلی کے 200یونٹ سے زیادہ خرچ کرنا "عیاشی" ٹھہرائی گئی ہے وہاں حالیہ بجٹ کے دوران قومی اسمبلی کے سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور سینٹ کے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین کی تنخواہوں میں 400فی صد اضافہ کردیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (نون) کے رہ نما اور گورنمنٹ کالج لاہور سے شریف برادران کے دوست ہوئے خواجہ آصف صاحب نے مذکورہ اضافے کو "مالی فحاشی" پکارا۔ بجٹ منظور ہونے کے بعدبھی اس الزام کو دہرایا تو قومی اسمبلی کے سپیکر جناب سردار ایاز صادق کا دل ٹوٹ گیا۔

    وزیر اعظم صاحب کو ایک خط لکھ ڈالا۔ اس خط کی نقل عوام کو میسر نہیں۔ "ذرائع " کی بدولت چلوائی "خبر" نے مگر دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ خط کے ذریعے سردار صاحب نے وزیر اعظم شہباز شریف سے "انصاف" طلب کیا ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کہ وہ اپنی تنخواہ میں اس گرانقدر اضافے کے خواہاں نہیں تھے۔ شہباز صاحب کو اگر وہ خط مل گیا ہے تو خواجہ آصف اور سردار ایاز صادق کو "انصاف" فراہم کرنے میں تاخیر سے کام کیوں لے رہے ہیں۔

    سردار صاحب 400فی صد اضافے والی تنخواہ کے بقول ان کے خواہش مند نہیں۔ بجٹ بدلنا لیکن وزیر اعظم کے لئے ممکن نہیں۔ ویسے بھی جس اضافے کا اعلان ہوا ہے اس کا اطلاق یکم جولائی 2025ء سے نہیں بلکہ یکم جنوری 2025ء سے ہوگا۔ وزیر اعظم "عوام کے نمائندوں" کی اکثریت سے منظور ہوئے اضافے میں کمی لانے کا اختیار نہیں رکھتے۔ "مالی فحاشی" کا ڈرامہ بھی لہٰذا لگ گیا اور سردار صاحب نے "بے اعتنائی" بھی دکھادی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلٰی۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.