Saturday, 12 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Israel Ke Iran Par Charh Dorne Ka Pas Manzar

    Israel Ke Iran Par Charh Dorne Ka Pas Manzar

    پیر کی صبح چھپا کالم وہ پس منظر اجاگر کرنے کی نذر ہوگیا جس کا مقصد بنیادی طورپر یہ ثابت کرنا تھا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہونے "خودسری" کے عالم میں ایران پر حملہ نہیں کیا ہے۔ خود کو "امن کا پیغام بر" ثابت کرنے کو تلا امریکی صدر ٹرمپ اس کے حملے والے فیصلے کا حامی تھا۔ "ڈیپ سٹیٹ" اور "خواہ مخواہ کی جنگوں "کی دیوانگی سے مخالفت کرتے ہوئے حیران کن انداز میں ایک بار پھرعوام کی حمایت سے وائٹ ہائوس پہنچنے کے باوجود ٹرمپ کی جانب سے نیتن یاہو کے فیصلے کی حمایت یہ پیغام دیتی ہے کہ "فرد" ڈیپ سٹیٹ کے مقابلے میں بھرپورتائید کے باوجود محض "فرد" ہی رہتا ہے۔ اسے ریاست کے دائمی اداروں کے بتائے "سکرپٹ" ہی پر عمل کرنا پڑتا ہے۔

    فرد کی دائمی اداروں کے روبرو ایسی کمزوری کی مثالیں وطن عزیز کی تاریخ میں بھی "ایک ڈھونڈنے نکلو تو ہزاروں مل جاتی ہیں"۔ مثال کے طورپر تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود جب ریاست کے طاقتور ترین اداروں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ قمر جاوید باجوہ کو پاک آرمی کی قیادت کے لئے مزید تین برس دینا ہیں تو"تبدیلی" کے وعدے کے ساتھ آئی کرشمہ ساز کی سرکار اس فیصلے پر عملدرآمد کے لئے جو قانون تیار کرتی ہے اسے "ووٹ کو عزت دو" کے دعوے داروں کے علاوہ "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" کی بنیاد پر کھڑی ہوئی جماعت کی حمایت بھی مل جاتی ہے۔

    اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کا حتمی تھانے دار بنائے رکھنا امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ کی خواہش ہے۔ "باغی" ہونے کے باوجود ٹرمپ مذکورہ سکرپٹ پر عمل کرنے کو دل وجان سے آمادہ ہے۔ اپنے سابقہ دورِ صدارت میں اس نے نہایت لگن سے "معاہدہ ابراہام" کے تحت چند مسلم اور خلیجی ممالک کو اسرائیل کی ریاست کو "جائز" تسلیم کرنے کو رضا مند کرنے سے قبل ایران کے ساتھ کئی مہینوں کے مذاکرات کے بعد ہوا وہ معاہدہ یک طرفہ ختم کردیا تھا جو اوبامہ حکومت نے روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے طاقتور ممالک کی حکومتوں کی بھرپور شراکت اور معاونت کے ساتھ طے کیا گیاتھا۔

    اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے ہاں یورینیم کی افزودگی کو ایک مخصوص حد سے آگے نہ بڑھانے پر اتفاق کیا۔ بات فقط وعدوں تک محدود نہ رہی۔ ایران کا "ضرورت سے زیادہ" توانائی کے حصول کے قابل ہوا یورینیم روس کے سپرد کردیا جاتا۔ مذکورہ معاہدے کی بدولت ایران کی اقتصادی مشکلات میں نمایاں نہ سہی کافی کمی آئی جس نے یہ امید بڑھائی کہ بتدریج اس کے خلاف نام نہاد عالمی برادری کی جانب سے لگائی پابندیاں ختم کردی جائیں گی اور بالآخر ایران "مہذب" ہونے کی دعوے دار دنیا میں واپس لوٹ آئے گا۔

    ایران کی موجودہ سیاسی نظام اور قیادت سمیت "مہذب" کہلاتی دنیا میں واپسی مگر امریکہ کی "ڈیپ اسٹیٹ" کو منظور نہیں۔ ہمیں دھوکے میں رکھنے کے لئے مگر ٹرمپ کو اسی ریاست کے "باغی" کی حیثیت میں ابھرنے کا موقعہ فراہم کیا گیا۔ یہ حقیقت بھی محض اتفاق نہیں ہوسکتی کہ بائیڈن انتظامیہ کے آخری مہینوں میں اسرائیل حماس کی جانب سے ہوئی ایک بھرپور کارروائی کا بدلہ لینے غزہ کی پٹی کو فلسطینیوں سے خالی کروانے کے لئے وحشیانہ بمباری میں مصروف ہوگیا۔

    جوبائیڈن نے اسے روکنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس کی انتظامیہ 2021ء میں ٹرمپ کے دوحہ میں طے کئے معاہدے پر عمل کرتے ہوئے افغانستان سے امریکی انخلاء کے دوران "ڈیپ سٹیٹ" کی ذلت ورسوائی کی ذمہ دار قرار پائی تھی۔ اس کی ساکھ بحال کرنے کو بائیڈن نے یوکرین کا ر وس کے خلاف ڈٹ کر ساتھ دیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نیٹو کی صورت روس کے وسیع تر بنیادوں پر قائم ہوئے "دشمن" کی حیثیت میں یکجارکھاگیا۔ "ڈیپ سٹیٹ" کے خلاف حقارت بھری تقاریر کے باوجود ٹرمپ ابھی تک روس-یوکرین جنگ رکوانے میں ناکام رہا ہے۔

    ایران کے موجودہ نظام کی تباہی وبربادی امریکہ کی ڈیپ سٹیٹ کو 1979ء کے بعد سے مسلسل درکار ہے۔ ٹرمپ اس کے خاتمے کے لئے ڈیپ سٹیٹ سے بھی کہیں زیادہ بے قرار ہے۔ کمال ہوشیاری سے مگر اقتدار سنبھالتے ہی اس نے تاثر یہ دیا کہ اسرائیل کی جانب سے ایران کے موجودہ نظام کی تباہی کے لئے نہایت تفصیل سے تیار ہوئے جارحانہ منصوبے پر عمل درآمد کی اس نے "اجازت" نہیں دی۔ ایران سے بلکہ وہ اس کے ایٹمی پروگرام کو "پرامن" رکھنے کے لئے اپنے ایک دیرینہ دوست (جو اتفاقاََ اس کی طرح کا ایک معروف پراپرٹی ڈیلر بھی ہے) مذاکرات میں مصروف ہوگیا۔ میڈیا پر کامل کنٹرول کی وجہ سے دنیا کے ذہن میں یہ تاثر بٹھایا گیا کہ "ضدی" ایران ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ہوئے مذاکرات کے دوران "سخت موقف" اپنائے ہوئے ہے۔ یہ بات شاذہی اجاگر ہوئی کہ ایران کو ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ کسی معاہدے پر رضا مند ہونے کے لئے 60دنوں جی ہاں 60دنوں کی مہلت دی گئی ہے۔

    یہ محض اتفاق نہیں کہ جس دن اسرائیل ایران پر حملہ آور ہوا اس دن امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا 61واں دن شروع ہوگیا تھا۔ اس سے قبل ایک اور "اتفاق" یہ بھی ہوا کہ امریکی سٹیٹ کی فوج کے لئے آلات حرب خریدنے یا جنگوں کے لئے درکار سرمایے کی منظوری دینے والی سب کمیٹی کا اجلاس بھی 11جون 2025ء کے روز واشنگٹن میں امریکی وقت کے مطابق دس بجے سے بارہ بجے کے دوران منعقد ہوا۔ اس کے دوران ٹرمپ کی مخالفت سے اب "جگری یار" ہوا سینیٹر لینڈسی گراہم انتہائی طیش کے عالم میں امریکی فوج کے سربراہوں کو یاد دلاتا رہا کہ ہٹلر کا جرمنی دنیا بھر سے یہودیوں کا خاتمہ چاہتا تھا۔ امریکہ کی ان دنوں کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ہٹلر کے عزائم کو صحیح انداز میں جانچنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے فیصلہ میں بہت دیر لگادی تھی۔ رواں صدی میں لینڈسی کے مطابق ایران بھی یہودی نسل کے خلاف ایسے ہی خیالات کا حامل ہے۔ اسی باعث وہ اسرائیل کو "صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے" ہر صورت ایٹم بم بنانا چاہ رہا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ امریکی فوج اسے روکنے میں دلچسپی کیوں نہیں دکھارہی۔

    لینڈسی گراہم انتہائی طیش کے عالم میں ایران کی نیت کے خلاف جو سوالات اٹھاتا رہا ان کے کیمروں کے روبرو امریکہ کے فوجی حکام اور وزیر دفاع نے واضح جوابات فراہم نہیں کئے۔ ٹرمپ کے قریبی دوست ہوئے سینیٹر کو اگرچہ تسلیاں دیتے رہے کہ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ اسے اسرائیل کے لئے خطرہ بننے سے روکنے کے لئے بھی ایک جامع حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔ مذکورہ اجلاس ختم ہونے کے چند ہی گھنٹوں بعد مگر امریکی صدر نے ایران کے ہمسایہ عرب ممالک سے "غیر ضروری" سفارتی نمائندوں کو واپس بلانے کافیصلہ کرلیا۔

    11جون 2025ء ہی کی شام وہ واشنگٹن کے ایک مشہور تھیٹر میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ ایک میوزیکل ڈرامہ دیکھنے گیا۔ وہاں صحافیوں نے اس سے جاننے کی کوشش کی کہ ایران کے ہمسایہ ممالک سے امریکی عملے کو واپس بلانے کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے محض یہ کہتے ہوئے جند چھڑانے کی کوشش کی کہ جن علاقوں سے امریکی عملے کو دور رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے وہ آنے والے دنوں میں "خطرناک" ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسے یاددلایا گیا کہ حال ہی میں اس نے پاکستان ا ور بھارت کے درمیان "ایٹمی جنگ" رکوائی ہے۔ وہ ایران کے ہمسائے میں بھی امن کو یقینی بنانے کے لئے متحرک کردار ادا کیوں نہیں کررہا۔ اس سوال کا سیدھا جواب دینے کے بجائے فقط یہ کہتے ہوئے ٹرمپ تھیٹر میں داخل ہوگیا کہ امریکہ ایران کو کسی بھی صورت "ایٹمی قوت" بننے نہیں دے گا۔

    نکتہ سے نکتہ ملاتے ہوئے تفصیلات تک رسائی کے بغیر میں یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوں کہ 11جون 2025ء کے روز اسرائیل کو ایران پر حملے کا سگنل امریکہ کی جانب سے فراہم کردیا گیا تھا۔ عین اسی دن واشنگٹن سے کہیں دور آسٹریا کے دارلحکومت وی آنا میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کا اجلاس بھی ہوا جہاں 13اراکین نے ایجنسی کی اس رائے کو اکثریتی توثیق مہیا کی جس کے مطابق ایران یورینیم کی افزودگی کرتے ہوئے ان حدوں میں داخل ہورہا ہے جہاں یورینیم بم بنانے کے قابل ہوسکتا ہے۔ آئی اے ای اے کے توثیقی اعلان نے 11جون ہی کے دن واشنگٹن میں اٹھائے شکوک وشبہات کو "عالمی تصدیق" فراہم کردی اور اسرائیل ایران پر چڑھ دوڑا۔ عقل سے قطعاََ عاری ہوا ذہن ہی اب یہ سوچے گا کہ اسرائیل نے ایران پر حملے کیلئے "خود سری" سے کام لیا ہے۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.