گزری جمعرات باجوڑ میں امن کے متلاشی اور پرچارک مولانا خان زیب کی "نامعلوم افراد" کے ہاتھوں شہادت کے بعد میں نے اپنے ٹی وی شو کے پہلے 25منٹ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کی سنگین سے سنگین تر ہوئی لہر کی نذر کردئے۔ 2009ء سے سوات میں ہوئے فوجی آپریشنوں کی اسلام آباد سے جاکر Livکوریج کرتے ہوئے میں نے فخر کا کا خیل کی صورت میں ایسا صحافی دریافت کیا ہے جو دہشت گردی کے مسائل کو وسیع تر تناظر میں رکھتے ہوئے سادہ ترین زبان میں سمجھانے کی اہلیت سے مالا مال ہے۔ اس سے ٹی وی شو کے دوران براہِ راست گفتگو کی بدولت ادراک ہوا کہ افغانستان سے کسی نہ کسی صورت پاکستانی علاقوں میں در آئے دہشت گرد تباہی پھیلانے کے لئے "خودکش انسانی بمباروں" کے بجائے اب "خود کش ڈرون" استعمال کرنا شروع ہوگئے ہیں۔
ڈرون بنیادی طورپر ایک جاسوسی طیارہ تھا۔ بغیر پائلٹ کے ہوا میں کھلونے کی صورت نظر آتا۔ میں نے وسیع تر حوالے سے اس کا استعمال 2006ء میں دیکھا۔ بیروت کے جنوب میں حزب اللہ کے حامیوں کے علاقے میں داخل ہوتے ہی ڈرون طیارے پرندوں کے غول کی طرح آسمان پر منڈلاتے نظر آتے۔ جھلسادینے والی دھوپ میں جنگ کی تباہی سے بچنے کے لئے مکینوں سے خالی ہوئے مکانوں کی لمبی قطاروں میں ان کی آواز بھڑوں کے جھنڈ کی نکالی آوازوں کی طرح سنائی دیتی۔ انسانوں سے خالی ہوئے بازاروں میں کئی گھنٹوں تک تنہا سفر کرتے ہوئے یہ آوازیں طلسماتی کہانیوں کے جن بھوتوں کی طرح "آدم بو-آدم بو" پکارتی سنائی دیتیں۔
بطور پاکستانی ڈرون طیاروں کا ذکر سن رکھا تھا۔ عملی زندگی میں ان کا استعمال پہلی بار دیکھا۔ دل کو یہ کہتے ہوئے تسلی دی کہ میرے سرپر منڈلانے والے طیارے درحقیقت آسمان میں اڑتے کیمرے ہیں۔ میرے ہاتھوں میں فقط قلم اور نوٹ بک ہے اور میں شکل سے لبنانی بھی نظر نہیں آتا۔ میری "نشاندہی" لہٰذا میرے قتل کی جانب نہیں لے جائے گی۔ ڈرون طیاروں کو مگر "اسلحہ بردار" امریکہ ہی نے پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں میں مبینہ طورپر القاعدہ اور اس کے "مقامی پشت پناہوں" کی شناخت کے بعد فضا سے میزائل پھینکے میزائلوں کے ذریعے مارنے کیلئے بنایا تھا۔ مجھے گماں تھا کہ افغان جنگ ختم ہوجانے کے بعد ان کا استعمال رک جائے گا۔
یوکرین نے مگر فضائی نگرانی کے لئے ایجاد ہوئے ڈرون کو ایک خونخوار اسلحہ کی شکل دے دی ہے۔ چند ہی ماہ قبل اس نے روس کے جدید ترین طیاروں کے ایک بھاری بھر کم بیڑے کو تباہ کرنے کے لئے ڈرون طیاروں کے استعمال سے دنیا کو حیران کردیا۔ جو طیارے تباہ ہوئے ان کی قیمت "خودکش ڈرون طیارے" سے کئی سو گنا زیادہ تھی۔ یوکرین کے ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لئے روس نے ایران سے ڈرون طیارے خریدنا شروع کردئے۔ دفاعی امور سے غافل ہوتے ہوئے مجھے ہرگز اندازہ نہیں کہ ایران کے پاس موجود ڈرون طیارے کس حد تک "مہلک" ہیں۔ ان طیاروں نے مگر ایران کو اسرائیل کی جانب سے مسلط ہوئی جنگ کا مقابلہ کرنے میں کافی مدد دی ہے۔
ایران، روس، اسرائیل اور یوکرین تاہم باقاعدہ ریاستیں ہیں۔ حالیہ پاک-بھارت جنگ کے دوران اِن دو ملکوں نے بھی ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات پر ڈرون حملے کئے تھے۔ ریاستوں کی جانب سے اسلحہ بردار ڈرون کا استعمال سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کا دہشت گردوں کے ہاتھوں آجانا مگر پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کی ریاستوں کے لئے پریشان کن خبر ہونی چاہیے۔ میری تحقیق کے مطابق ایک ڈرون کی اوسط قیمت دس سے پچاس ہزار امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔ ہمارے ہاں یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ افغانستان میں پناہ گزین ہوئے مذہبی انتہا پسندوں نے امریکہ کے چھوڑے جدید ترین فوجی سامان میں سے اسلحہ بردار ڈرون بھی "چرا" لئے ہوں گے۔
خیبرپختونخواہ میں لیکن ان دنوں جوڈرون استعمال ہورہے ہیں ان کے مسلسل حملے دہشت گردوں کے پاس ایسے طیاروں کی بھاری بھر کم تعداد کا پیغام دیتی ہیں۔ معاملہ مگر تعداد تک ہی محدود نہیں ہے۔ مہلک اسلحہ سے لدے جو ڈرون اپنے ہدف تک بھیجے جاتے ہیں وہ مشینی ذہانت کی بدولت گھپ اندھیرے میں بھی مطلوبہ مقام تک پہنچنے کے بعد تباہی پھیلاتے ہیں۔ اتوار کی صبح انگریزی اخباروں میں یہ خبر دیکھی ہے کہ بنوں شہر کو شمالی وزیرستان سے ملانے والی سڑک کے جنگی اعتبار سے حساس ترین مقام پر قائم ایک پولیس سٹیشن پر ساتویں بار ڈرون برسائے گئے۔
ڈرون طیاروں کے ایسے اہداف پر مسلسل حملے دفاعی امور سے نابلد اس قلم گھسیٹ کو یہ سوچنے کو مجبور کررہے ہیں کہ پاک-افغان سرحد سے متصل علاقوں میں متحرک دہشت گردوں کو کسی "ریاست" نے بھاری بھر کم تعداد میں جدید ترین اسلحہ بردار ڈرون فراہم کئے ہیں۔ پاک-بھارت کشیدگی کو ذہن میں رکھتے ہوئے بلاثبوت بھارت کو وہ ریاست تصور کرسکتا ہوں جو خیبرپختونخواہ میں متحرک دہشت گردوں کو مہلک ڈرون فراہم کرسکتی ہے۔ اسرائیل بھارت کو جدید ترین ڈرون فراہم کرنے میں سرفہرست ہے۔ بنوں کے نواحی علاقوں میں دہشت گردوں کی جانب سے استعمال ہوئے ڈرون اسرائیلی ساختہ بھی ہوسکتے ہیں۔
میرے خدشات اگر درست ہیں تو خیبرپختونخواہ میں مہلک ڈرون طیاروں کا بڑھتا ہوا استعمال نہایت فکر مندانہ ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں ٹھوس معلومات مگر ہمارے نام نہاد "عوامی نمائندے" ہی جدید ترین اسلحہ سے آشنا ماہرین کو پارلیمان میں دفاعی امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹیوں میں مدعو کرنے کی بدولت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں لیکن کوئی پیش قدمی نظر نہیں آئی۔ ہمارے ریگولر میڈیا میں فقط پرنٹ میڈیا ہی خیبرپختونخوا ہ میں تواتر سے اسلحہ بردارڈرون کے استعمال کی خبریں دے رہا ہے۔ پیمرا کے لائسنس کے تحت چلائے ٹی وی چینلوں میں اکثر ان کا ذکر نہیں ہوتا۔
میں یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ چند حکومتی ادارے 24/7چینلوں کو خیبرپختونخواہ میں دہشت گردوں کی جانب سے مہلک ڈرون طیاروں کے استعمال کے ذکر سے روک رہے ہیں۔ اگر یوں ہورہا ہوتا تو گزری جمعرات کے بعد میں اس کالم میں اسلحہ بردار ڈرون طیاروں کا ذکر نہ کررہا ہوتا۔ فطری طورپر بزدل شخص ہوں۔ حکومتی احکامات کو سرجھکائے تسلیم کرلیتا ہوں۔
میری دانست میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں سوٹ ٹائی لگاکر ایئرکنڈیشنڈ سٹوڈیوز میں بیٹھے اینکر خواتین وحضرات کو ہرگز اندازہ نہیں کہ کم از کم گزشتہ دو برس سے خیبرپختونخواہ -خاص طورپر اس کے افغان سرحد سے ملحق علاقوں میں - امن وامان کی صورت حال مخدوش سے مخدوش تر ہورہی ہے۔ ریٹنگز کا حصول بھی انہیں مذکورہ صورتحال کے بیان سے روکتا ہے۔ باقی رہ جاتا ہے سوشل میڈیا۔ حق وصداقت کی علامت ٹھہرائے اس میڈیا میں لیکن ذکر صرف "قیدی نمبر804" کا بکتا ہے۔ میں اور آپ لاعلمی کے اندھے کنوئیں میں ڈبکیاں لگانے کو لہٰذا مجبور ہیں۔