Friday, 18 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Bil Akhir Sadar Trump Jang Mein Kood Para

    Bil Akhir Sadar Trump Jang Mein Kood Para

    بالآخر صدر ٹرمپ کا امریکا اسرائیل-ایران جنگ میں کود پڑا ہے۔ اتوار کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ جب سورہا تھا تو امریکا کے B-52طیارے ایران کے تین مختلف شہروں میں قائم ایٹمی تنصیبات پر بنکر-بسٹر کہلاتے بم برسانے میں مصروف رہے۔ B-52اور Bunker-Busterپاکستانیوں کے لیے اجنبی الفاظ نہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تو یہ دوالفاظ مسلسل سنائی دیتے رہے۔ بنکر بسٹر ایسے بم ہیں جو تقریباً 30ہزار پائونڈ وزنی بارودی مواد کے حامل ہوتے ہیں۔ انھیں محض B-52طیارہ ہی ہدف تک لے جاسکتا ہے۔ ایسے طیارے اور بم دنیا کے کسی اور ملک کے پاس موجود نہیں۔ ان کی بدولت سنگلاخ پہاڑوں کی غاروں اور تہوں میں چھپے افراد اور حساس، تنصیبات کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔

    نائن الیون کا بدلہ لینے کے لیے امریکا افغانستان پر حملہ آور ہوا تو اسامہ بن لادن اور اس کی القاعدہ افغانستان کے شہروں سے فرار ہوکر تورا بورا نامی پہاڑوں کی غاروں میں بنائے تہہ خانوں میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ انھیں ختم کرنے کے لیے بنکر بسٹر کا استعمال ہوا۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگئے۔ اسامہ بن لادن اس کے باوجود تورا بورا سے فرار ہوکر پاکستان کے مختلف قصبوں اور شہروں میں چھپتا چھپاتا بالٓاخر ہمارے ایبٹ آباد میں بنائے ایک قلعہ نما مکان میں محصور ہوگیا۔ اس کا سراغ لگانے میں امریکا کو کئی برس لگے۔

    اس کالم کے باقاعدہ قاری اس دعویٰ سے اتفاق کریں گے کہ امریکا کا B-52بمبار طیاروں کے ذریعے ایران-اسرائیل جنگ میں ملوث ہوجانا میرے لیے حیران کن خبر نہیں ہے۔ اسرائیل کے ایران پر حملے کے پہلے روز سے مناسب تحقیق کے بعد آپ سے عرض کرتا رہا ہوں کہ نیتن یاہو خودسری، کے عالم میں ایران پر حملہ آور نہیں ہوا ہے۔ ٹرمپ اس کے ارادوں سے نہ صرف کامل واقف بلکہ کئی حوالوں سے شراکت دار بھی ہے۔ ایران-اسرائیل جنگ میں فوجی مداخلت کے لیے ٹرمپ کو مگر ٹھوس جواز درکار ہیں۔ وہ ماضی میں عراق اور افغانستان پر مسلط کی جنگوں کا شدید مخالف رہا ہے۔

    سادہ لوح عوام کو تواتر سے بتاتا رہا کہ پرائی جنگوں، میں ملوث ہوکر امریکا نے دنیا کی واحد سپرطاقت ہوتے ہوئے بھی اپنے وسائل کو بے دردی سے ضائع کیا ہے۔ وہ رقوم اور وسائل جو عام امریکی شہری کی تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبوں پر خرچ ہونا چاہیے تھے امریکا سے کہیں دور واقع ممالک میں لڑی جنگوں میں غارت ہوگئے۔ پرائی جنگوں میں وسائل کے بے دریغ استعمال کے باوجود امریکا کو ذلیل ورسواہوکر مذکورہ جنگوں سے راہ فرار اختیار کرنا پڑا۔ جنگوں کی مسلسل مخالفت کے بعد اس نے امریکا کو دوبارہ عظیم، بنانے کا وعدہ کیا۔ اس کی سوچ کا حوالہ دیتے ہوئے میرے کئی دوست مصر رہے کہ ٹرمپ خود کو امن کا پیغامبر، ثابت کرنا چاہتا ہے۔ نیتن یاہونے اسے مکمل اعتماد میں لیے بغیر ایران کے خلاف جنگ چھیڑدی ہے۔ وہ اس میں ملوث ہونا نہیں چاہے گا۔

    نیتن یاہوکو خودسری، کا مرتکب قرار دینے والے دوست یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم ٹرمپ کے لیے خاندان کے ایک رکن کی طرح ہے۔ اعلیٰ تعلیم حصول کے لیے نیتن یاہوجب امریکا آیا تو ٹرمپ کے دامادکشنر کے گھررہا۔ وہ اور اس کا داماد دو سے زیادہ برسوں تک ایک ہی کمرے میں کشنر کے گھر قیام پذیر رہے۔ اسرائیل-ایران جنگ میں ملوث ہونے کے لیے امن کے پیغامبر، ٹرمپ کو ٹھوس جواز درکار تھا۔ ایرانی میزائلوں نے دریں اثناء اسرائیل کی فضائوں کو محفوظ بنانے کے لیے بنائے نظام کو غچہ دے کر اس کے کئی شہروں میں گنجان آبادی میں قائم دفاعی اداروں کے دفاتر تباہ کرنا شروع کردیے۔ ایسا کرنے میں وہ حق بجانب تھا کیونکہ اسرائیل نے بھی جنگ کا آغاز ایسے ہی حملوں سے کیا تھا۔ شہری آبادیوں کے قلب میں گرائے میزائل اور بم نظر بظاہر ایرانی فوج کے اہم افسروں اور ایٹمی پروگرام کے نگہبان سائنسدانوں کو نشانہ بناتے تھے۔ ان کی جان لینے کی خاطر مگر آسمان کو چھوتی عمارتیں زمین بوس ہوجاتیں۔

    ایران اور اسرائیل کی جانب سے ایک دوسرے کے شہروں پر حملے کئی مہینوں تک برداشت کیے نہیں جاسکتے تھے۔ عراق اور ایران کی جنگ کے دوران بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کی شہری آبادی کو بے رحمی سے میزائلوں کی زد میں لیتے رہے۔ اسرائیل مگر اس نوعیت کی طویل جنگ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اس کی آبادی ایک کروڑ کی حد بھی نہیں چھوپائی ہے۔ ایران اس کے برعکس بے تحاشا رقبے پر پھیلا ہوا ملک ہے جس کی آبادی 9کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین طویل جنگ اسرائیل کے وجود اور بقاء کو غیر یقینی بناسکتی تھی۔ اسی باعث اس کے سرپرست امریکا کے لیے زیادہ عرصے تک اس جنگ سے لاتعلق رہنا ممکن نہیں تھا۔

    ٹرمپ نے تاہم نہایت مکاری سے گزشتہ ہفتے کی جمعرات کے دن اپنی پریس سیکرٹری کے ذریعے دنیا کو یہ گمراہ کن پیغام دیا کہ وہ امن، کی خاطر دو ہفتوں تک انتظار کرسکتا ہے۔ اسے مگر ایران پر حملہ آور ہونے سے روکنے کے لیے لازمی ہے کہ ایرانی قیادت یک طرفہ انداز میں مکمل شکست، کا اعلان کردے۔ مذاکرات کے ذریعے ایسی راہ تجویز کرے جس کی بدولت عالمی ادارے یہ جانچ کر تصدیق کرسکیں کہ ایران نے یورنیم افزودگی کے تمام تر منصوبے ختم کردیے ہیں۔

    بدقسمتی سے ہمارے کئی خوش گماں دوست دو ہفتوں، کے ذکر کو امن کا پیغام سمجھ کر اچھالتے رہے۔ یہ امید باندھی کہ اس دوران پاکستان سمیت ایران کے خیرخواہ ممالک تہران کو اس امر پر رضا مند کرنے کا کوئی فارمولا ڈھونڈ لیں گے جو امریکا کو اسرائیل-ایران جنگ میں ملوث ہونے سے روک سکے۔ یہ توقع باندھتے ہوئے اس حقیقت کو یکسرفراموش کردیا گیا کہ ٹرمپ مسلسل ایران سے ہاتھ اٹھاکر معافی کا طلب گار ہے۔ اس خواہش کو بھی دہرائے چلے جارہا ہے کہ ایران کو ایٹمی قوت نہیں بننے دیا جائے گا۔

    ایران آج کے دنیا کے کئی ممالک کی طرح دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد ابھرا نوزائیدہ ملک نہیں ہے۔ کسریٰ، کایہ ملک ہزاروں سال تک ایک سلطنت رہا جس کی روم اور سکندر اعظم سے بارہا جنگیں ہوئی ہیں۔ ایرانی سلطنت، کے وارثوں کے لیے ہاتھ اٹھاکر جان بخشی کی تمنا کا اظہار ممکن ہی نہیں تھا اور کائیاں ٹرمپ اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے۔ اسی باعث میں نہایت اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ گزشتہ ہفتے کی جمعرات کے روز اپنی پریس سیکرٹری سے صلح جو، بیان دلوانے کے بعد وہ ایران پر B-52طیاروں کے ذریعے بمباری کی تیاریوں میں مصروف ہوگیاتھا۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.