Monday, 11 August 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Awam Ko Lootne Wale Dabba Call Centers

    Awam Ko Lootne Wale Dabba Call Centers

    کراچی اور فیصل آباد کے بعد اب اسلام آباد کے سیکٹر G-10میں قائم ہوا ایک "کال سنٹر" بھی قانون نافذ کرنے والوں کی گرفت میں آگیا ہے۔ ایسے "کال سنٹروں" کو کراچی میں "ڈبہ" یعنی دونمبر یا فراڈیے پکارا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھوں جانے کتنے لوگ عمر بھر کی کمائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کی تعداد سرکاری سطح پر منظر عام پر نہیں لائی گئی۔

    پاکستان کے مختلف شہروں میں لیکن جدید ترین کمپیوٹرآلات سمیت قائم ہوئے ایسے سنٹروں میں پاکستان ہی نہیں بلکہ غیر ملکی نوجوانوں کی متاثر کن تعداد بھی کام کرتی ہے۔ مثال کے طورپر اسلام آباد میں جس کال سنٹر پر چھاپہ پڑا وہاں پانچ غیر ملکیوں کے علاوہ 60کے قریب پاکستانی بھی کام کرتے تھے۔ ملازموں کی کثیر تعداد یہ سوچنے کو مجبور کرتی ہے کہ "ڈبہ" کہلاتے کال سنٹروں نے سینکڑوں نہیں لاکھوں پاکستانیوں کے ساتھ فراڈ کیا ہوگا۔

    عام پاکستانی اگر ان سے دھوکہ کھاجائے تو تھوڑی دیر کو میں ذاتی طورپر حیران نہیں ہوں گا۔ آج سے چند ماہ قبل لیکن اس کالم میں اپنی بیوی کا ذکر کیا تھا۔ ضرورت سے زیادہ پڑھی لکھی اور سماجی علوم کی ماہر اور لوگوں کے عمومی رویوں کا جائزہ لینے کے ہنر کے لئے زندگی وقف کرنے کے باوجود موصوضہ ایسے ہی ایک کال سنٹر کے جھانسے میں آگئی۔ اپنا بینک اکائونٹ نمبر بھی اسے دے دیا۔ وہ نمبر دینے کے بعد فراڈ کال سنٹر سے اس کے ساتھ رابطے میں رہنے والے نے اسے یہ "اطلاع" دے کر چونکا دیا کہ آخری بار اس نے مذکورہ اکائونٹ سے کتنی رقم نکلوائی تھی۔

    یہ "اطلاع" دینے کا مقصد بیگم صاحبہ سے "تصدیق" حاصل کرنا تھی کہ فراڈ کال سنٹر کو جو اکائونٹ نمبردیا گیا ہے یہ وہی اکائونٹ ہے یا نہیں۔ اس تصدیق کے بعد اس سے وہ پن نمبر مانگا گیا جو موبائل بینکنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ہماری خوش قسمتی کہ فراڈ کال سنٹر نے تصدیق کی خاطر میری بیوی کی آخری مرتبہ بینک سے نکالی رقم کا ذکر کردیا۔ تب ہی وہ شک میں مبتلا ہوئی۔ اپنا کوڈ بتادینے کے بجائے اس نے فی الفور اپنے بینک کی ہیلپ لائن سے رابطہ کیا۔

    خوش گوار حیرت اسے یہ جان کر ہوئی کہ بینک والوں نے اس کے اکائونٹ کو پہلے ہی موبائل بینکنگ کے لئے ازخود منجمد کردیا تھا کیونکہ کچھ "مشکوک" انداز میں اکائونٹ میں موجود رقم کی تفصیلات متعدد بار جاننے کی کوشش ہوئی تھی۔ بینک کی ازخود کارروائی نے ہم دونوں کو بے حد متاثر کیا۔ امید ہی باندھ سکتا ہوں کہ ہمارے تمام بینکوں نے ایسے ہی "فلٹر" نصب کررکھے ہوں گے جو "مشکوک" کارروائی کو فی الفور بھانپ لیتے ہیں۔ میری بیوی سے گفتگو کے باوجود اس کے بینک والوں نے اکائونٹ کو دو دن "منجمد" رکھنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دن گزرگئے تو میری بیوی کے لئے نئے کوڈ پن کے ساتھ موبائل بینکنگ کی سہولت بحال کردی گئی۔

    میڈیا کے بنیادی فرائض میں لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ میں نے تاہم ابھی تک سادہ اردو یا انگریزی میں ایک بھی ایسا کالم نہیں پڑھا جو عام صارف کو آگاہ کرنے کی کوشش کرے کہ فراڈ کال سنٹرآپ سے رقم ہتھیانے کے لئے کونسے حربے اور ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ ڈبہ کہلاتے کال سنٹر عموماََ لوگوں کو کسی غیر ملک میں قابل رشک نوکری دلوانے یا ایسے کاروبار میں "سرمایہ کاری" کو اُکساتے ہیں جو ہوش ربا منافع کا وعدہ کرتا ہے۔ ایسے افراد کو لیکن تلاش کرنے کے لئے نوجوانوں کو کافی تعداد میں بھرتی کیا جاتا ہے جو دن کے کئی گھنٹے صرف فیس بک، ٹویٹر، ٹک ٹاک اور خاص طورپر انسٹاگرام پر توجہ مبذول رکھتے ہوئے ایسے افراد کی نشاندہی کرتے ہیں جو نظر بظاہر کسی غیر ملک میں نوکری کے متمنی ہوتے ہیں۔ ممکنہ شکار کی نشاندہی کے عمل کو Profilingیا آسان الفاظ میں شخصیت کی شناخت کہا جاتا ہے۔

    ہدف کی نشان دہی کے بعد مصنوعی ذہانت کے جدید ترین حربوں کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش ہوتی ہے کہ جس شخص کو نشانہ بنایا ہے اس سے رقم اینٹھنے کے لئے کیا حربہ استعمال ہو۔ بے روزگار نوجوانوں کو نوکری کی آفر دینے کے بعد ایسے کئی مراحل سے گزارا جاتا ہے جو نشان زد ہوئے فرد کو یہ سوچنے کو مجبور کرتے ہیں کہ جس نوکری کی پیش کش ہورہی ہے اس کے لئے اس کی "قابلیت" کو کڑے معیار کے مطابق جانچا جارہا ہے۔

    ڈبہ سنٹروں کا نشانہ ہوا یہ نوجوان جب آزمائش کے تمام مراحل "کامیابی" سے سرکرلیتا ہے تو مناسب وقفے کے بعد اسے اطلاع دی جاتی ہے کہ جس غیر ملکی کمپنی کی نوکری کے لئے اس کا امتحان لیا جارہا تھا اس کے اعلیٰ سطح کے افسران کا وفد پاکستان آنے والا ہے۔ انہیں ایک مخصوص مہینے کام کانام لے کر خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ اس مہینے کے دوران اپنی اسی شہر میں موجودگی یقینی بنائے جہاں ڈبہ کال سنٹر کام کررہا ہوتاہے۔ بالآخر انہیں بتائے گئے مہینے کے کسی روز "انٹرویو" کی کال آجاتی ہے۔ وہ جس "دفتر" میں جاتا ہے وہاں نوجوان کی کثیر تعداد کمپیوٹروں پر نگاہیں جمائے کام میں مشغول نظر آتی ہے۔

    ان کے پاس سے گزرکروہ "ایگزیکٹو روم" میں جاتا ہے جہاں سوٹ پینٹ اور ٹائی پہنے دو سے تین "افسر" کسی خاتون سمیت بیٹھ کر اس سے گفتگو کرتے ہیں۔ "انٹرویومیں کامیاب" ہوجانے کے بعد بے چارے نوجوان کو بتایا جاتا ہے کہ اس سے رابطہ کرنے والے اس کمپنی کے ملازم نہیں جہاں اسے نوکری ملے گی۔ وہ مبینہ طورپر مذکورہ کمپنی کے "ایجنٹ" ہوتے ہیں جن کو ان کی "محنت" کی "اجرت" دینا ہوگی۔ شک میں مبتلا ہوکر نوجوان مطلوبہ رقم دینے سے انکار کردے تو اس کے فیس بک یا انسٹاگرام پر بنائے اکائونٹ ہیک کرکے ایسی تصاویر ا ور وڈیو پوسٹ کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے جو اسے معاشرے میں شرمسار کردے۔

    پروفائل یا شخصیت شناسی کا سب سے کارگر حربہ اس شخص کا پتہ لگانا ہے جو آن لائن شاپنگ کاعلت کی حد تک عادی ہوچکا ہوتا ہے۔ آن لائن اشیاء فروخت کرنے والوں کے کمپیوٹروں کو ہیک کرتے ایسے افراد کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ میں آن لائن شاپنگ سے قطعاََ ناآشنا ہوں۔ مہینے میں لیکن تین سے چار بار مجھے ٹیلی فون پر پیغام آتا ہے کہ میں نے جو شے منگوائی تھی وہ آچکی ہے۔ میرے گھر کا ایڈریس مگر گڈمڈ ہورہا ہے۔ بہتر ہوگا کہ میں فلاں ای میل یا گوگل اکائونٹ پر جائوں اور اپنے فون سے گھر کا ایڈریس بھجوائوں۔ میں نے چونکہ کسی شے کا آرڈر ہی نہیں کیا ہوتا اس لئے اب تک محفوظ رہا ہوں۔ تکلیف دہ لطیفہ یہ بھی ہے کہ آن لائن شاپنگ کے عادی افراد کے اکائونٹ مختلف ہتھکنڈوں کے استعمال سے خالی کرنے والے افراد کو ڈبہ کال سنٹر والے "Killers"یعنی قاتل پکارتے ہیں۔ ربّ کریم آپ سب کو ان سے محفوظ رکھے۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.