یکم جولائی 2025ء کا سال شروع ہوتے ہی انگریزی اخبارات کے لئے معاشی موضوعات پر لکھنے والوں نے ٹھوس اعدادوشمار کے ساتھ یہ حقیقت عیاں کرنا شروع کردی کہ ریاست پاکستان غیر ملکی قرضوں کے علاوہ بنیادی طورپر اپنے اخراجات تنخواہ دار لوگوں سے "جگا" نما ٹیکس وصول کرنے کی بدولت پورا کرتی ہے۔ تمام تر بڑھکوں اور ذہانت سے مالا مال ہونے کے باوجود بینکاری سے سیاست میں آئے ہمارے ایک اور وزیر خزانہ کلی اختیارات کے مالک ہوتے ہوئے بھی ٹیکس نیٹ بڑھانے میں ناکام رہے۔
غریب کے گلے کی رگ پر انگوٹھا رکھ کر ماہانہ دوسویونٹ سے زیادہ بجلی خرچ کرنے والے کی زندگی اجیرن کرنے والی حکومت کو "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" کی بنیاد پر وجود میں آئی پیپلز پارٹی کے دبائو پر البتہ یہ فیصلہ واپس لینا پڑا کہ ایف بی آر کے افسرلاکھوں روپے ٹیکس کی صورت ادا نہ کرنے والوں کو "جائے وقوعہ" یعنی ان کے دفاتر میں جاکر گرفتار کرسکتے ہیں۔ فیصلہ بالآخر یہ ہوا کہ ایسے افراد جو نظر بظاہر "ملک کی معیشت کو رواں رکھتے ہیں" احترام کے مستحق ہیں۔ برآمدکندگان جو غیر ملکی زرمبالہ کماتے ہیں وہ توپلکوں پر بٹھانے کے قابل ہیں۔
یہاں تک لکھا تو خیال آیا کہ یکم جولائی 2025ء کا آغاز ہوتے ہی جن صحافی دوستوں نے ہمارے ہاں مالیہ وصول کرنے سے متعلق تفصیلات کو بیان کرنا شر وع کیا وہ ٹی وی کے مقبول اور ریٹنگز یقینی بنانے والے صحافی نہیں تھے۔ میری طرح ذات کے رپورٹر ہیں اور بنیادی طورپر اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔ ان ساتھیوں نے اپنی تحقیق کے بعد اخبارات کے لئے جو حقائق بے نقاب کئے تھے انہیں بنیاد بناتے ہوئے شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ایئرکنڈیشنڈ سٹوڈیوز میں سوٹ ٹائی لگاکر بیٹھے مجھ سمیت کئی ٹی وی اینکروں نے سیاپا فروشی کا سیزن لگانا شروع کردیا۔
محاورے والی بی فاختہ والے دُکھ اخبار کیلئے رپورٹ کرنے والے دوستوں نے جھیلے تھے۔ ریٹنگز کی صورت مگر "انڈے" ٹی وی اینکروں نے کھائے۔ "انڈے" کھانے والوں کی بدولت اگرچہ مجھ خوش گماں نے امید یہ باندھی کہ ٹیکس وصولی کے حوالے سے جو حقائق برسرعام آئے ہیں وہ قومی سطح پر ایک وسیع تر بحث کی جانب لے جائیں گے جو حکمرانوں کو اس امر پر مجبور کرے گی کہ فیصلہ کرے کہ تاجر اور برآمدکندگان کب تک ریاست کے لاڈلے رہیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں کیونکہ ایک ہوتا ہے سوشل میڈیا۔ اس کے بارے میں دور حاضر کے دانشور مصر ہیں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں غریب عوام کی زبان بن رہا ہے۔ حق وصداقت کی للکار سے حکمرانوں کو دیوار سے لگنے کو مجبور کررہا ہے۔
"ٹویٹر" کی بدولت جو "انقلاب" آتا ہے اس کی حقیقت اس کالم میں کئی بار ایک ترک نڑاد خاتون صحافی کی لکھی کتاب جس کا اردو عنوان "ٹویٹر اور آنسوگیس" ہوسکتا ہے کے ذکر سے بارہا بیان کرچکا ہوں۔ زینب توفیقی نامی اس خاتون نے نیویارک ٹائمز کے لئے مصر کے "التحریر اسکوائر" میں کئی دن گزارے تھے۔ جو تحریک وہاں چل رہی تھی اس کا کلیدی ہتھیار ٹویٹر کو بتایا گیا۔ اس کے نتیجے میں کئی دہائیوں سے فرعون کی صورت مصر کا صدر رہا حسنی مبارک استعفیٰ دینے کو مجبور ہوا۔ اس کے استعفیٰ کے بعد اخوان المسلمین کے مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ اقتدار میں ابھی سنبھل ہی نہ پائے تھے تو ان کے خلاف بھی "التحریر اسکوائر" ہوگیا۔ اب کی بار اس کے نتیجے میں مصر کی فوج کو دوبارہ اقتدار سنبھالنا پڑا۔ السیسی اب دورِ حاضر کے حسنی مبارک ہیں اور مصر میں راوی حکمران اشرافیہ کے لئے چین ہی چین لکھ رہا ہے۔
زینب توفیقی نے جو کتاب لکھی وہ درحقیقت اس تلخ حقیقت کا بھرپور جائزہ تھا جو پاکستان اور مصر جیسے ممالک میں قائم حکومتی بندوست کو "دوام" بخشتا ہے۔ اسے ٹویٹر تھوڑا جھٹکا تو لگاتا ہے مگر بالآخر اسی حکومتی بندوبست کے روبرو ٹھس ہوجاتا ہے۔ زینب توفیقی کے ذکرکے بعد لوٹتے ہیں اصل موضوع کی طرف جو اس امید پر مبنی تھا کہ اخبارات کے معاشی رپورٹروں نے ٹیکس وصولی کے جو تلخ حقائق بیان کئے ہیں وہ قومی سطح پر ایک بھرپور بحث کو اُکسائیں گے۔ یہ مگر ہو نہ سکا۔
ٹیکس وصولی کے تلخ حقائق سے توجہ ہٹانے میں نمایاں کردار "انقلابی" تصور ہوتے سوشل میڈیا نے ادا کیا۔ غور کیجئے کہ گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پر کونسی "خبریں" زیر بحث رہی ہیں۔ ان خبروں پر ہوئی بحث کے شوروغوغا نے اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز کو بھی ان ہی "خبروں" پر توجہ دینے کو مجبور کردیا۔
پہلی "خبر" یہ تھی کہ علی امین گنڈاپور کو خیبرپختونخواہ کی وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔ یہ "خبر" دیتے ہوئے صحافت کی بنیاد تصور ہوتے چند "Ws"(کیوں اور کیسے) قطعاََ نظرانداز کردئے گئے۔ اس کے بعد "چوندی چوندی خبر" یہ آئی کہ وطن عزیز کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف جو ان دنوں تقریباََ گوشہ نشین ہوچکے ہیں اڈیالہ جیل جاکر عمران خان سے ملاقات کو تیار ہیں۔ یہ دونوں "خبریں" ابھی ہضم نہیں ہوپائی تھیں تو میرے دل کے بہت قریب اعزاز سید نے چھت پھاڑ خبر یہ دی کہ آصف زرداری سے ایوانِ صدر خالی کروانے کی تیاری بھی شروع ہوگئی ہے۔
جو "خبریں" چلیں، میں ان کی تصدیق یا تردید کے قابل نہیں ہوں۔ بڑھاپے نے خبر کے تعاقب کے ناقابل بنادیا ہے۔ عملی صحافت سے ریٹائر ہوئے رپورٹر کو وطن عزیز کے طاقتور حلقے ویسے بھی لفٹ نہیں کرواتے۔ ان دنوں وفاقی کابینہ میں اہم عہدوں پر فائز کچھ لوگوں کے بارے میں گماں تھا کہ ان کے ساتھ "صحافی-سیاستدان" والے تعلقات "ذاتی دوستی" میں بدل چکے ہیں۔ بغیرکسی غرض کے ان سے ایک دو بار رابطے کی کوشش کی تو جواب ندارد۔ سمجھ آگئی کہ جب تک آپ مارکیٹ کے "ذہن ساز" صحافتی ادارے کی نمائندگی نہیں کرتے تو "دوست" دوست نہیں رہتے۔ حکمران اشرافیہ کی "اگاڑی "سے ویسے بھی گھبرانا چاہیے۔
اس کالم کا موجب ہوئے موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے میں ایک بار پھر "سوشل میڈیا" کی محدودات اجاگر کرنا چاہ رہا تھا۔ اب کے بار مزید محدودات کا احساس مجھے Timothy D. Snyder نے دلایا ہے۔ یہ صاحب امریکہ کی مشہور ترین یونیورسٹی (Yale)سے تعلق رکھتے ہیں۔ ماہر تاریخ گردانے جاتے ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے ایک کتاب لکھی۔ نام ہے اس کا Freedom On (آزادی کے بارے میں)۔ اس کتاب میں موصوف نے ایک طویل باب کو سوشل میڈیا کی محدودات اجاگر کرنے کو لکھا ہے۔ میں نے اسے پڑھ کر اپنے تئیں جوسبق اخذ کئے ہیں جلد ہی لکھے کسی کالم میں اپنے ہاں کی چند حقیقتوں کے ذکر سمیت بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔